Baseerat Online News Portal

جواب دہ نمائندوں کا کیا جائے انتخاب

ڈاکٹر مظفرحسین غزالی
ملک میں ایسے وقت الیکشن کا بگل بجا ہے، جبکہ عوامی مسائل سے ہر عام آدمی پریشان ہے ۔ بے روزگاری نے 45 سال کا ریکارڈ توڑا، تو تعلیمی نظام کا کباڑا ہو گیا۔ کاروبار ٹھپ اور چھوٹی صنعتیں برباد ہو چکی ہیں۔ مہنگائی پر کوئی کنٹرول نہیں ہے، خاص طور پر ان شعبوں میں جہاں سرکار کا دخل ہے۔
زراعت کو منافع بخش بنانے کیلئے کوئی پالیسی نہیں لائی جا سکی ہے۔ کسان اپنے مسائل کو لے کر بار بار سڑکوں پر آنے کیلئے مجبور ہوئے۔ صحت کا شعبہ وسائل کی کمی سے متاثر ہے۔ بچوں ، لڑکیوں، دلتوں، کمزوروں اور مسلمانوں کے خلاف تشدد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ یہی نہیں آدی واسی بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ قانون و انتظامیہ کی حالت خستہ بنی ہوئی ہے۔ فرقہ واریت کے جنون سے پولیس بھی محفوظ نہیں۔ سماج میں نفرت وعداوت میں اضافہ کی وجہ سے رواداری، آپسی میل ملاپ اور مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کو شدید ضرب لگی ہے۔ ملک کے وسائل پرمنظم اندازمیں کارپوریٹ کا قبضہ ہوتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں ملک کے بڑے ایئرپورٹس کا ٹھیکہ بھی اڈانی کو دے دیا گیا ۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے عدم غذائیت اور بھوک نے سنگین صورت اختیار کر لی ہے۔ 2014 میں بھارت گلوبل ہینگر انڈیکس کے 54 ویں پائیدان پر تھالیکن اب 2018 میں اسے 103 ویں نمبر پر جگہ ملی ہے۔
جمہوریت میں عوام کو صوبائی و مرکزی حکومت منتخب کرنے کا حق حاصل ہے۔ الیکشن میں اپنی پسند کے نمائندے اور سرکار منتخب کرنے کی طاقت ووٹرس کے ہاتھ میں آجاتی ہے۔ اس وقت ووٹر اپنے نمائندوں کی کارکردگی کا حساب لے سکتا ہے۔ آئندہ کے کاموں کیلئے وعدہ اور عہد کرا سکتا ہے۔ اپنی شرطوں کو ماننے کیلئے اہل سیاست کومجبوربھی کر سکتا ہے۔ رائے دہندگان کو اپنا ووٹ ڈالتے وقت حکومت کی کارکردگی کو دھیان میں رکھ کر اپنی سمجھ کا استعمال کرنا چاہئے۔ اسے آخر کے تین مہینوں میں دکھائے گئے خوابوں اور گڑھے گئے مدوں سے حکومت اور پارٹیوں کی منشاء کو بھی سمجھنا چاہئے۔ ہر الیکشن میں دیش، سماج کی تقدیر بدلنے کے وعدے کئے جاتے ہیں، لیکن اقتدار میں آتے ہی اگلے انتخاب تک کیلئے انہیں ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
آنے والے 2019 کے الیکشن میں 900 ملین لوگ اپنے حق رائے دہندگی کا استعمال کریں گے۔ ان میں 15 ملین وہ ہیں جو پہلی بار ای وی ایم کا بٹن دبائیں گے۔ پہلی بار ووٹ دینے والوں کی سب سے بڑی تعداد مغربی بنگال میں ہے۔ ریاست کی ہر سیٹ پر اوسطً 47 ہزار 660 نوجوان رائے دہندگان پہلی مرتبہ ووٹ ڈالیں گے۔ کل 20 لاکھ ایک ہزار 898 نئے ووٹر مغربی بنگال کی 42 سیٹوں میں سے 32 پر فیصلہ کن رول ادا کرنے والے ہیں۔ مغربی بنگال کے بعد اتر پردیش( 16 لاکھ 75 ہزار 567)، مدھیہ پردیش( 13 لاکھ 60 ہزار 554 )، راجستھان (12 لاکھ 82 ہزار 118) اور مہا راشٹر( 11 لاکھ 99 ہزار 527 )کا نمبر آتا ہے،جہاںہلی بار ووٹ ڈالنے والوںکی تعدادقابل ذکرہ۔ اندازہ کے مطابق ہر لوک سبھا سیٹ پر پہلی بار ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد تقریباً ساڑھے 27 ہزار ہوگی۔ 29 ریاستوں میں 18 سے 22 سال کی عمر کے نوجوان 282 سیٹوں پر نمائندوں کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ نوجوانوں کو لبھانے کیلئے تمام سیاسی پارٹیاں فیس بک، ٹیوٹر، یوٹیوب اور سوشل میڈیا کا سہارا لے رہی ہیں۔
تمام رائے دہندگان سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے حق ووٹ کا استعمال ضرور کریں۔ اس سے نہ صرف جمہوریت مضبوط ہوگی بلکہ بہتر نعم البدل کا انتخاب بھی کیا جا سکتا ہے۔ عوام کی بے چینی سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اس بار صرف ووٹر بوتھ تک پہنچے گا۔ اس پر کسی نظریہ یا خواب کا بھوت سوار نہیں ہوگا۔ کیونکہ عام آدمی دیکھ رہا ہے کہ برسرِ اقتدار پارٹی اپنے رپورٹ کارڈ پر ووٹ مانگنے کے بجائے نئے مدے اور نعرے گڑھ رہی ہے۔ ٹھیک پچھلی بار کی طرح، جنہیں بعد میں جملہ قرار دے کر پلا جھاڑ لیا گیا تھا۔ اس لئے امید کی جا رہی ہے کہ رائے دہندگان چناؤ در چناؤ ہونے والے دھوکہ سے سبق لیں گے۔ اس بار فلاں کی سرکار کے شور میں بہنے کے بجائے خود طے کریں گے کہ انہیں کیسی حکومت چاہئے اور کیوں ؟ اس لئے بھی کہ انہیں یہ موقع پانچ سال میں ایک بار ہی ملتا ہے۔ یہ موقع بھی تبھی ہے جب ووٹ کا استعمال کیا جائے۔
سیکولر کہلانے والی سیاسی پارٹیاں مسلم ووٹوں پر اپنا حق سمجھتی ہیں لیکن انہیں حصہ داری دینے یا ان کے مسائل کو حل کرنے میں انہیںکوئی دلچسپی نہیں ۔ ان کا ماننا ہے کہ مسلمان انہیں ووٹ نہیں دیں گے تو کسے دیں گے۔ جبکہ ان پارٹیوں کو سیاسی مفاد کیلئے کسی سے بھی ہاتھ ملانے میں گریز نہیں ہے۔ اس وقت گٹھ بندھن کے نام پر ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے سیکولرزم کے تئیں ان کی سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ صوبائی پارٹیوں کو 2019 کے الیکشن میں اپنا وجود بچانے کی فکر ہے۔ اس کیلئے وہ کانگریس کو کنارے کرنے کو بھی تیار ہیں۔ وہ نہیں سمجھ رہے کہ ان کا یہ قدم خود انہیں کنارے کر سکتا ہے۔
ملک کی ساٹھ پارلیمانی سیٹوں پر مسلمان اکثریت میں ہیں۔ اور 103 سیٹوں پر ان کا ووٹ 20-30 فیصد کے درمیان ہے۔ مسلم ووٹوں کی بنیاد پر نام نہاد سیکولر پارٹیاں اپنی سیاسی منصوبہ سازی اور گٹھ بندھن بنا رہی ہیں لیکن کوئی بھی سیاسی جماعت مسلمانوں سے بات نہیں کر رہی۔ ہر جماعت نے دکھاوے کیلئے ایک دو مسلمانوں کو آگے کر رکھا ہے اور بس۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ مسلمانوں میں کس سے بات کی جائے۔ ان کے درمیان کوئی جماعت یا افراد ایسے نہیں ہیں جو مسلمانوں کے نمائندے ہوں۔ مارکیٹ میں جو لوگ ہیں وہ سب آزمائے جا چکے ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ اس کی وجہ سے ہی ملک کی بڑی آبادی (مسلمان) نظر انداز ہو رہی ہے۔ وقت آ گیا ہے جب مسلمانوں کو سنجیدگی سے اس ایشوپر غور کرنا چاہئے۔ صوبائی یا پارلیمانی سطح پر ایسی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو سیکولر اور غیر سیکولر کے بجائے تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو بلا کر مسلمانوں کے متعلق بنیادی سوالوں پر بات کریں۔ کچھ نمونہ کے سوال یہاں درج کئے جا رہے ہیں۔ جن میں مقامی ضرورتوں کے پیش نظر تبدیلی کی جا سکتی ہے۔
مسلمان اس سیاسی جماعت یا نمائندے کو ووٹ کریں جو : ان کی آبادی کے تناسب میں مسلمانوں کو ٹکٹ دے۔ ان کیلئے معیاری تعلیم کا انتظام کرنے کو تیار ہو، اس سلسلہ میں تلنگانہ کے ماڈل کو سامنے رکھا جا سکتا ہے۔ ان کے کاروبار میں روکاوٹ پیدا کرنے کے بجائے اس کے فروغ میں معاونت کرے۔ مسلمانوں کیلئے روزگار (نوکریوں) میں حصہ داری کو یقینی بنائے۔ ملک میں لا اینڈ آڈر کو چست اور درست رکھے۔ سماجی انصاف اور برابری کے فروغ کا وعدہ کرے۔ اگر کوئی جماعت اس پر تیار نہ ہو تو ہر انتخابی حلقہ کی کمیٹی اپنے حلقہ کے تمام امیدواروں کو بلا کر ان سے ان سوالوں پر بات کرے۔ جو امیدوار حلقہ میں مسلمانوں کیلئے بنیادی کام کرنے کو تیار ہو، اس کے حق میں مشترکہ طور پر ووٹ کیا جائے۔ وہ چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم، نام نہاد سیکولر پارٹی کا نمائندہ ہو یا کسی اورجماعت کاامیدوار۔ امن، لا اینڈ آرڈر کودرہم برہم کرنے والے، سماجی انصاف اور مساوات کی مخالفت کرنے والوں سے بچا جائے۔ کیونکہ یہ ملک کی مشترکہ تہذیب اور سب کی ترقی کیلئے خطرہ ہیں۔ ان سے ملک کو بچانے کی ضرورت ہے۔ سرکار چننے کے بجائے اپنا صحیح اور جواب دہ نمائندہ منتخب کریں،کہ یہی وقت کابنیادی تقاضاہے۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.