دہشت گرد کون ہے؟ مسلمان یا…….

از
محمد عظیم فیض آبادی خادم دارالعلوم النصرہ دیوبند

تین چور ایک جگہ رات کو بیٹھ کرآپس میں باتیں کررہے تھے چند لوگوں کا یہاں سے گذر ہوا تو چوروں نے اس خوف سے کہ کہیں یہ لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم چور ہیں اور ہماری چوری پکڑی جائے چور چور کہہ کر چلانے لگے ، یہی کچھ حال آج دنیا کے دہشت گردوں کا ہے ، مسلمانوں کو دنیا بھر میں ظلم وبربریت کا نشانہ بنایا جاتاہے، اس کی املاک کو تباہ ، اس کے جان مال کو برباد کیاجاتاہے ہر اعتبار سے اس کا عرصہ حیات تنگ کیا جاتاہے پوری دنیا کے دہشت گردوں کو ہتہیار فراہم کیا جاتاہے پھر الٹااسلام اور مسلمانوں کوہی مورد الزام ٹہرایا جاتاہے اور پوری دنیا میں اسلامی دہشت گردی ، مسلم دہشت گرد کا شور مچایاجاتاہے
کون نہیں جانتا کہ آج پوری دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار مسلمان ہیں جانی ومالی سماجی معاشی اقتصادی اتلاف کے اعتبار سے مسلمان ہی سب سے زیادہ اس سےمتاثر ہے.
اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ قتل وغارت گری کرنے والے مسلمان نہیں بلکہ عیسائی یہودی اورہندو اقوام ہیں
بھلا اس سے کون ناواقف ہوگا کہ ہٹلر ، ماوزے تنگ ، مسولینی ، اشوکا ، جارج بش ، جو دنیا میں سب سے زیادہ اموات کے ذمہ دار ہیں ان میں سے ایک بھی مسلمان
ہیرو سیما وناکاساکی پر بم برساکر وہاں کی کئی نسلوں کو تباہ واپاہج بنانے والے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا والے ، مصرو عراق کی تباہی کےذمہ دار مسلمان نہیں ہیں ، بغداد وغرناطقہ کی بربادی وتباہی کے ذمہ دار بھی کوئی مسلمان نہیں
تاریخ بتاتی ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے اندر 17 ملین، دوسری جنگ عظیم میں 50 ملین، ویتنام کی جنگ کے دوران پانچ لاکھ اموات ہوئیں ، اسی طرح بوسینیا کی جنگ پانچ لاکھ انسانی جانوں کو ہضم کرگئی ، کمبوڈیا کی جنگ تین لاکھ جانوں کو چٹ کر گئی ان اموات کا ذمہ دار کوئی مسلمان نہیں تھا ، ہندوستان کے مسلم کش فسادات کا ایک طویل سلسلہ ہے میرٹھ ،ملیانہ ،کان پور ،مرادآباد، بھاگل پور ،اور گجرات میں لاکھوں مسلمان تہ تیغ کردینے گئے ان سب کاذمہ دار کوئی مسلمان نہیں لیکن ان ظالم درندوں کو کوئی بھی دہشت گرد نہیں کہتا
ہندوستان میں گاندھی کا قتل سب سے بڑی دہشت گردی تھی لیکن اس کے قاتل اور ان نظریات کے حاملین کو کوئی دہشت گرد کے نام سے نہیں پکارتا
اندار اور راجیو گاندھی کے قاتلین بھی کوئی مسلمان نہیں گوری لنکیش ،اور اس طرح کے متعدد صحافیوں کو موت کی نیند سلانے والوں کو دہشت گرد نہیں کہاجاتاجبکہ حقیقت میں یہی دہشت گردی ہیں اور اس کے ذمہ دارہی ہی دہشت گرد ہیں
اور اسی کے ساتھ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آج دنیابھرکے دہشت گردوں کو ہتھیار کوئی مسلم ملک فراہم نہیں کرتا اور دہشت گردوں کے ہاتھوں میں موجود مہلک ہتھیار کسی مسلمان یا مسلم ملکوں کی فکٹریوں کے تیار شدہ نہیں ہیں ان مہلک ہتھیاروں کے موجدین اور اس کو فروغ دینے والے دہشت گرد کیوں نہیں ہیں؟ ان کو دہشت گرد کہتے ہوئے. متعصب میڈیا کا دم کیوں گھٹتاہے؟ جب بھی مسلمانوں پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو اس کے حملہ آور ظالم دہشت گرد کودہشت گرد کہنے کے بجائے اپنے گلے میں غلامی کا طوق ڈالنے والا بکاؤ میڈیا ان کو کہیں نکسلی، کہیں حملہ آورکہتا ہے اور اس طرح کےدیگر الفاظ کا انتخاب ان کے لئے کرتا ہے
اور مزید اسلام دشمن طاقتیں اس کو محض ایک حادثہ اور سانحہ قرار دے کر دہشتگرد کے دماغی اعتبار سے معذور قرار دے کراس کے بچانے میں جٹ جاتی ہےاور طرح اس کی سفاکیت پر پردہ ڈالنے کی سعی نامشکور کی جاتی ہے
اور افسوس اس وقت مزید ہوجاتاہے جب انسانی حقوق کی حفاظت کی نام نہاد تنظیمیں بھی اس طرح بےشرمی کا مظاہر کرتی ہے
کیونکہ اس کے نام تو صرف عورتوں کے حقوق کی حفاظت اور اسے آزادی فراہم کرانے کے نام پر عورتوں کو بے حیا بنانے کا ٹھیکہ ہے
ان سب سے ایک بات اور صاف ہوجاتی ہے کہ پوری دنیا کی لڑائی دہشت گردی سے نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں سے ہے دہشت گردی تو محض ایک ٹائٹل اور بہانہ ہے انھیں نفرت دہشت گردی سے نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں سے ہے
لیکن دنیا کے امن کے ٹھیکیداروں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اس طرح تعصب وعناد کی بنیاد پر مخصوص طریقے سے کسی ایک قوم و مذہب کو نشانہ بناکر اس پردہشت گردی کا الزام ٹھوک کر،اس پر عرصہ حیات تنگ کرکےاسے پابند سلاسل کرکے نہ تو دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے اور نہ ہی قیامِ امن کا تصور کیاجاسکتاہے

ایں خیال است ومحال است وجنوں
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.