مولانا محمود مدنی اور ملی تنظیموں سے چند گذارشات!

عاطف سہیل صدیقی

 

مولانا محمود مدنی کے تعلق سے آر ایس ایس کی ذہنیت والے اخبار دینک جاگرن نے جو جھوٹ پھیلایا ہے وہ صرف قابل مذمت ہی نہیں بلکہ اس سے بہت سارے سبق حاصل کیے جانے بھی بہت ضروری ہیں۔ ہندو دہشت گردی کو فروغ دینے والی میڈیا مسلمانوں میں ہی انتشار پھیلانے کے لیے پوری طرح مستعد ہے۔ لہذا مسلمانوں کو انکے اخبار اور ویڈیو چینلز کو مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ نہ انہیں دیکھیں اور نہ ان کے بحث و مباحثے میں شریک ہوں۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ مولانا جمیعت علماء ہند سے تعلق رکھتے ہیں اور اس تنظیم کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ کیا ابھی تک جمیعت یہ نہیں سمجھ سکی ہے کہ مسلمانوں کا اپنا ایک مضبوط میڈیا پلیٹ فارم ہونا ناگزیر ہے؟ کیا آج تک اور زی ٹی وی جیسے زہر اگلتے اور جھوٹ بولتے ٹی وی چینلز کے مقابلے سچ بولنے والا ٹی وی نیوز چینل وجود میں نہیں آنا چاہیے؟ کیا جمیعت نے اس تعلق سے کبھی سوچا ہے اور اس طرف کوئی عملی قدم اٹھایا ہے؟ صرف جمیعت ہی کیوں بلکہ جماعت اسلامی، جماعت اہل حدیث وغیرہ جو سنگھی میڈیا کے نشانے پر ہیں کیا ان سب کے لیے یہ لمحۂ فکریہ نہیں ہے؟ کب تک آپ سنگھی دہشت گرد میڈیا کی گندگی کا بوجھ اٹھاتے پھریں گے؟ تیسرا سبق یہ ہے کہ کیا میڈیا کی اس ذہنی دہشت گردی کو یوں ہی نظر انداز کرتے رہنا چاہیے؟ ہماری ملی تنظیمیں کیوں نہیں ایک لیگل سیل تشکیل دیتیں جسکا کام محض یہ ہونا چاہیے کہ وہ میڈیا کے یکطرفہ جھوٹ، مسلمانوں کی کردار کشی اور ذہنی دہشت گردی کے کنٹینٹس (contents) پر مسلسل نظر رکھے اور عہد کر لے کہ کم سے کم ایک نیوز گروپ کو تو اتنا زبردست قانونی جھٹکا دینا ہی ہے جو سب جھوٹوں کے لیے عبرت بن جائے۔ کیا یہ سب کام ہماری ملی تنظیموں کے لیے مشکل ہیں؟ کیا ہماری تنظیموں کو یکجا ہو کر یا الگ الگ ہی اپنی ترجیحات متعین نہیں کرنی چاہیے؟ پچھلے چند سالوں میں مسلمانوں کو، ملک کو اور ہندوستان کے معاشرتی ڈھانچے کو تباہ کرنے کا کام میڈیا نے بخوبی انجام دیا ہے۔ میڈیا جس قدر تباہ کن شکل اختیار کر چکا ہے اتنی تباہ کن تو شاید ہندو دہشت گرد تنظیمیں بھی نہیں ہیں۔ لہذا ہماری ملی تنظیموں کے ترجیحات اب یہی ہونی چاہیے کہ ملک میں پھیلائے گئے نفرت اور جھوٹ کے ماحول کے تدارک کے لیے نیشنل اور انٹرنیشنل معیار کی میڈیا سیل اور انتہائی تجربے کار وکلا کی لیگل سیل تشکیل دی جائے جسکی پوری توانائی میڈیا وار کو قانونی طور پر کاؤنٹر کرنے کے لیے ہو۔ یہ اس وقت کا سب سے اہم تقاضہ اور ضرورت ہے۔ ہمیں یہودیوں سے سبق سیکھنا چاہیے کہ انکی تعداد پوری دنیا میں محض ایک فیصد ہے لیکن میڈیا اور لیگل سیلز کے ذریعے انہوں نے پوری دنیا کی رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کی ہوئی ہے۔ چھوٹے سے لیکر بڑے سازشی ذہنوں کو صرف قانون کے ذریعے ہی دبایا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر پھیلائیں جا رہی نفرت کو تو بہت ہی آسانی کے ساتھ کاؤنٹر کیا جا سکتا ہے۔ جس کے لیے صرف چند لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھجوا کر بڑی تعداد پر قانون کا ڈر بٹھایا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی ترجیحات ہی متعین نہیں کرتے۔ جن معاملات کو آسانی کے ساتھ کنٹرول کیا جا سکتا ہے اسے بھی ہم نے نظر انداز کیا ہوا ہے۔ اگر ہماری تنظیموں نے اب بھی ترجیحات متعین کرکے ان پر عملی قدم نہیں اٹھایا تو آنے والا وقت اور زیادہ شدید ہو سکتا ہے۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.