دوستی اور دشمنی میں اعتدال

مولانا محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
مفاد پرستی، ابن الوقتی اور نفاق کے اس دور میں خاص طور پر اچھے اور مخلص دوست معاون اور رفیق کا مل جانا من جانب اللہ بہت بڑی نعمت بلکہ خدائ انعام ہے ۔ عام طور پر مشاہدہ یہی ہے کہ سچے اور مخلص لوگوں کی قدر دانی ان کی حق گوئ اور بے باکی کی وجہ سے کم ہو پاتی ہے ۔ صاف گو لوگوں کو لوگ کم پسند کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو معاشرے میں حق گوئ جرآت منڈی کی بنا پر اکیلا پن اور تنہائی کا احساس ہوتا ہے لیکن یہ مجبوری اور پریشانی وقتی ہوتی ہے پھر جب وقت آتا ہے اور حقائق سامنے آتے ہیں پردہ ہٹتا ہے تو وہی لوگوں کی نگاہ میں مقبول ہوجاتے ہیں ان کی قدر دانی لوگوں میں ہونے لگتی ہے ۔ کیوں کہ یہ خدائ وعدہ ہے. ان الذین آمنوا و عملوا الصالحات سیجعل لھم الرحمن ودا. ( مریم)
بیشک جو لوگ ایمان اور عمل صالح کے پیکر ہوتے ہیں اللہ تعالی ان کو لوگوں کی نگاہ میں مقبول و محبوب بنا دیتے ہیں ۔
دوستی اور دشمنی کے سلسلہ میں اس اصول کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ سچے اور مخلص دوستوں کی تعداد ہمیشہ مخالفین اور دشمنی رکھنے والوں سے زیادہ ہو ۔ دوسری چیز جس کا لحاظ اس سلسلے میں ضروری ہے وہ یہ ہے کہ مخلص دوست اور معاون ساتھی کو کبھی سرے سے نظر انداز نہیں کر دینا چاہیے خواہ وہ کتنا ہی خراب نکما اور بے نفع ہی کیوں نہ ہوگیا ہو کیونکہ دوست اور ساتھی کی مثال پانی کی سی ہے کتنا ہی خراب بدبو دار اور بے ذائقہ کیوں نہ ہو جائے اس سے آگ بجھانے کا کام تو لیا ہی جاسکتا ہے ۔
مسلمان جہاں زندگی کے دیگر شعبوں میں افراط و تفریط کے شکار ہو گئے ہیں اور راہ اعتدال سے ہٹ گئے ہیں وہیں دوستی اور دشمنی محبت و عداوت میں بھی بے اعتدالی کے شکار ہوگئے ہیں محبت اور عداوت میں بے اعتدالی انسان سے صرف بصیرت ہی نہیں بصارت بھی چھین لیتی ہے ۔ جس کی بنا پر محبوب کی برائیوں میں بھی اچھائیاں نظر آنے لگتی ہیں اور دشمن کی اچھائیوں اور خوبیوں میں بھی برائیاں اور خامیاں نظر آنے لگتی ہیں ۔ زمانئہ جاہلیت میں گمراہی کے جہاں بہت سے وجوہات و اسباب تھے ان میں سے ایک سبب غلو آمیز محبت یا انکار و نفرت اور دشمنی تھی ۔ اسلام چونکہ مذھب اعتدال ہے اور وسطیت و توازن اس امت کا خاص وصف اور امتیاز ہے ۔ اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں اور تمام مواقع پر اعتدال و توازن کا حکم دیتا ہے اور اس کو پسند کرتا ہے ۔ اس نے محبت و دشمنی اور رفاقت و بے تعلقی کے سلسلہ میں بھی اعتدال کا حکم دیا اور توازن برقرار رکھنے کی تاکید کی ۔ اسلام مذھب دوست کی تعریف میں غلو مبالغہ اور تملق و تعلق خوشامد سے منع کرتا ہے اور دشمن کے بارے میں بھی اسلام کی ہدایات اور تعلیمات یہ ہیں کہ دشمنی اور بے تعلقی میں شدت نہ اختیار کی جائے ۔ اس کی غیبت نہ کی جائے اور اس پر الزام اور بہتان تراشی سے بچا جائے ۔
دوستی اور دشمنی میں اعتدال اور توازن برقرار رکھنا ایمان والوں پر ضروری ہے یہ اسلامی تعلیمات کا انمٹ حصہ ہے ۔ آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ احبب حببیبک ھونا ما عسی ان یکون بغیضک یوما ما و ابغض بغیضک ھونا ما ،عسی ان یکون حبیبک یوما ما. (ترمذی شریف حدیث نمبر ۱۹۹۸)
دوستی میں حد اعتدال نہ بڑھو بعید نہیں کہ وہ دوست کسی دن تمہارا دشمن بن جائے اور دشمن کے ساتھ دشمنی میں بھی حد تجاوز سے آگے نہ بڑھو کیا خبر کہ وہ کسی دن تمہارا دوست بن جائے ۔
حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مومن صادق کی جو صحیح تصویر کھینچی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ سچے اور صحیح مومن کی خوبیوں میں سے یہ بھی ہے کہ کسی سے محبت ہو تو اس کی مدد میں شریعت کی حد سے نہ بڑھے اور کسی سے نفرت ہو تو اس کے حق میں زیادتی نہ کرے فراخ دل ہو انصاف میں سرگرم و ثابت قدم ہو ۔
آج دوستی اور دشمنی میں اور رفاقت و بے تعلقی میں کس قدر افراط و تفریط شدت اور غلو و زیادتی پائی جاتی ہے یہ کسی سے مخفی و پوشیدہ نہیں ہے، ناخواندہ اور عام لوگوں کو تو جانے دیجئے وہ تو کالانعام ہیں (چوپائوں کی طرح ہیں) اچھے خاصے پڑھے لکھے حضرات، گھنٹوں اعتدال و توازن کے موضوع پر تقریریں کرنے والے ۔ ادب الاختلاف پر لیکچر دینے والے اور اس موضوع پر کئی کئی صفحات پر مشتمل مضامین رقم کرنے والے بھی غلو شدت اور افراط و تفریط کے شکار ہیں اپنے ممدوح کو فرشتہ سمجھتے ہیں کہ ان سے غلطیوں کا گویا کوئی امکان نہیں اور مخالف سے اس قدر نفرت اور بدگمانی کہ ان کی ہر اچھائ بھی برائ اور خوبی بھی خامی ہی ان کو نظر آتی ہے۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.