اس بار مسلمانوں کو ووٹ کے بدلے کیا چاہئے؟

زین شمسی

یقیناً ہر بار کی طرح صرف تحفظ اور اس کے سوا کچھ نہیں اور کچھ اس لٸے نہیں کہ وہ اسے کبھی ملا نہیں اور کبھی ملے گا بھی نہیں اور اس لٸے اس مرتبہ مسلمانوں نے کسی پارٹی سے کچھ مانگا ہی نہیں۔ پارٹیوں کو جھوٹے وعدے نہیں کرنے پڑے اور مسلمانوں کو محنت نہیں کرنی پڑی ۔

مگر یہ یاد رہے کہ اس بار معاملہ مسلمانوں کے تحفظ کا نہیں ہے بھارت کے تحفظ کا ہے اس لٸے اس کی ذمہ داری بڑھ گٸی ہے۔

بھارت میں ووٹنگ کی ابتدا سے ہی مسلمان آرایس ایس کو ہراتے رہے ہیں اور اس ابتدا کی انتہا یہ ہے کہ آر ایس ایس بھارت کی حکمراں بن بیٹھی۔

خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ اس بار آر ایس ایس کو ہرانے کی کوشش میں مسلمان خود کواکیلا محسوس نہیں کر رہے ہیں بلکہ ملک کی بیشتر اہم پارٹیاں اپنے اپنے طریقے سے سنگھ پریوار کو پٹخنی دینا چاہتی ہیں۔ جسے دیکھو وہی بی جے پی کے خلاف مورچہ کھولے ہوٸے ہے۔ کچھ نے تو بی جے پی کو ہرانے کے لٸے اپنے طریقے بھی بدلے ہیں۔ جیسے اکھلیش اور مایاوتی کا ایک دوسرے کا ساتھ دینا۔

کہتے ہیں کہ مسلمان سیاسی طور پر بے وقعت ہوٸے ہیں۔ جو بھی یہ کہتا ہے وہ بالکل غلط کہتا ہے۔ بے وقعت تو وہ سیاسی پارٹیاں ہوٸی ہیں جنہیں مسلمانوں کا ہمیشہ ساتھ ملا لیکن الیکشن جیت جانے کے بعد اس نے مسلمانوں کاہاتھ چھوڑ دیا۔ اس مرتبہ اگر ایس پی ، بی ایس پی ، آر جے ڈی ۔ عام آدمی پارٹی الیکشن میں اچھا نہیں کر سکی تو ان سب کا وجود ہی ختم ہو جاٸے گا۔ اصلی بے وقعتی کا سامنا تو انہیں ہیں۔

رہی کانگریس تو ایسے حالات کا سوتر دھار تو وہی رہی ہے۔ آر ایس ایس کو زندہ رکھ کر مسلمانوں کو ڈرا کر دلتوں کو دبا کر حکومت کا مزہ لینے والی کانگریس کو کیا پتہ تھا کہ اسی کی چال اس پر بھاری پڑنے والی ہے۔ سو آر ایس ایس کو زندہ رکھ کر خود کو مردہ بنا دینے والی کانگریس اس الیکشن میں بھی کوٸی ایسی حکمت عملی نہیں بنا سکی کہ مودی کے متبادل کے طور پر راہل کی طرف نگاہ ٹک سکے۔ بس اینٹی کیمبنسی کے سہارے وہ الیکشن میں اتری ہے۔ اگر واقعی اسے بی جے پی کو ہرانا ہوتا تو وہ یوپی میں مسلم اکثریتی علاقہ میں واک اوور کر جاتی کہ ایس پی اور بی ایس پی کا گٹھ بندھن بی جے پی کو ہرانے کے لٸے کافی تھا۔ اگر گٹھ بندھن نہیں ہو سکا تو غیر ضروری طور پر مقابلہ کو سہ رخی بنانے سے کیا فاٸدہ۔

ایسا تو ہے نہیں کہ کانگریس برہمنوں اور اپر کاسٹ کا ووٹ کاٹ لے گی وہ صرف گٹھ بندھن کے ووٹ کو منتشر کرے گی۔

دراصل علاقاٸی پارٹیاں کانگریس کی آنکھ کی کرکری ہیں کہ وہ کبھی کانگریس کے روایتی ووٹ کا حصہ رہی ہیں۔ بی جے پی کانگریس کے اپر کاسٹ کو لے اڑی۔ بابری مسجد کی شہادت نے مسلمانوں کو اس سے محتاط کر دیا۔ تو اب وہ اپنا ووٹ کہاں سے جمع کرے۔ تاہم یو پی بہار اور بنگال کے علاوہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں اسے اپنے دم خم سے لڑنا چاہٕے تھا۔اور وہ لڑ رہی ہے مگر مرکز کا راستہ یو پی سے گززتا ہے اس لٸے یو پی میں اسے گٹھ بندھن کا پس پشت ساتھ دینا چاہٕے تھا۔ اکھلیش اور مایاوتی کو بھی چاہٕے تھا کہ جب ہدف صرف بی جے پی ہے تو کانگریس کو ساتھ لینے میں کیا قباحت تھی۔ لیکن نہیں کچھ نہ کچھ ایسا کر لیں گے کہ ووٹر کنفیوز ہو جاٸیں۔

اس بار مسلمانوں کو آخری موقع ملا ہے یہ ثابت کرنے کا کہ وہ ایک باشعور ووٹر ہیں۔ وہ اب تک خود کے تحفظ کے لٸے پولنگ بوتھ جاتے رہے ہیں اس بار بھارت کے تحفظ کا سوال ہے۔ اس لٸے یہ تو دیکھنا ہی نہیں کہ کون جیت رہا ہے۔ بس یہ دیکھنا ہے کہ کون ہرا سکتا ہے۔

ملک کو مصیبت کے وقت ہمیشہ مسلمانوں نے بچایا ہے اس بار بھی بچاٸیں گے۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.