سالگرہ(BIRTH DAY) کا فتنہ عروج پر

عبدالرزاق بنگلوری

متعلم :مدرسہ شاہی مراد آباد

درجہ :تکمیلِ افتاء

 

آج پوری دنیا میں مسلمانوں پر آفات اور مصیبتیں امنڈ امنڈ کر آ رہی ہیں، اگر اس کی وجہ یہ بتلائی جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ مصیبت، برائیوں، بے پردگی، اجنبی مردوں کا اجنبی عورتوں سے اختلاط، اور دین میں نت نئے خرافات کے دخول کا نتیجہ ہے، یہ یہودیوں کے ناپاک منصوبے ہیں کہ مسلمانوں کے اندر سے انسانی معاشروں اور قوموں میں اخلاق کی دھجیاں اڑا دی جائیں، اور ہر جگہ اخلاق و کردار کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اور مسلمانوں کو اپنے دینی مقاصد سے ہٹا کر دنیاوی غیر تہذیبی مکروفریب میں مبتلا کرنے کی زبردست مہم چلائی جا رہی ہے، جب یہود اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے تو پھر مسلمانوں کو دین اسلام سے خارج کرنا ان کے لیے بہت آسان ہوجائے گا، یہی وجہ ہے کہ آج اسلام پر عمل کرنے والے صرف 5%فیصد لوگ باقی رہ گئے ہیں، باقی 95% فیصد مسلمان گمراہیت کی طرف گامزن ہے، اور اس معاشرے کی اصلاح وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، اور ایسے ایسے ہلاکت خیز اشیاء مسلمانوں کے سامنے بطور نمونہ پیش کئے جا رہے ہیں کہ لوگ اس کو دیکھ کر اسلام کاجزء سمجھ رہے ہیں، اور دیکھنے والا شخص غیر شعوری طور پر لازما متاثر ہو رہا ہے، رفتہ رفتہ اخلاق و کردار میں تبدیلی آ رہی ہے، ان میں سب سے بڑی چیز جس کو آج لوگ دین کا داخلی حصہ سمجھ بیٹھے ہیں وہ سالگرہ منانا ہے جس کو انگریزی زبان میں BIRTHDAY کہا جاتا ہے اور جو لوگ اپنے آپ کو دین دار سمجھتے ہیں وہ بھی اس منحوس غیر شرعی عمل میں ملوث ہیں.

 

سالگرہ(BIRTHDAY)کی حقیقت

بڑے بڑے گھرانوں اور عموماً متوسط گھرانوں میں بھی بچوں کی سالگرہ منائی جاتی ہے، رشتے داروں اور دوست و احباب کو مدعو کیا جاتا ہے، جو اپنے ساتھ بچے اور بڑوں کے لیے تحفے تحائف لے کر آتے ہیں خواتین و حضرات بلا تمیز محرم و غیر محرم کے ساتھ ایک ہی ہال میں جمع ہو جاتے ہیں، اور ایک بڑی میز کے گرد کھڑے ہو جاتے ہیں، اور ایک بڑا سا کیک کاٹ کر ایک دوسرے کا منہ میٹھا کرتے ہیں، اور پھر تالیوں کی گونج میں سالگرہ مبارک ہو یا پھر HAPPY BIRTHDAY TO YOU کی آوازیں آتی ہیں، اور یہ ہر سال پیدائشی تاریخ کے اعتبار سے منایا جاتا ہے, یہ سلسلہ صرف بچپن کے حد تک محدود نہیں بلکہ بوڑھے ہو کر قبر کے حوالے ہونے تک چلتا ہے، اور جو لوگ اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی دین دار سمجھتے ہیں وہ خود اپنا سالگرہ تو نہیں مناتے لیکن دوسروں کے سالگرہ میں شرکت ضرور کرتے ہیں، اور بعض جگہ تو عیاشی میں ناچ گانے بھی ہوتے ہیں، جو سراسر گناہ خدا اور رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ناراض کرنے والا عمل ہے، اس سے نہ دنیا کا فائدہ ہے، اور نہ دین سے کوئی وابستگی ہے، یہ فحاشی اور عریانیت کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر ہے، اگر یہ عمل شریعت محمدی میں جائز ہوتا تو سب سے پہلے آقائے نامدار جناب محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سالگرہ منا یا ہوتا، پھر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے منایا ہوتا، تاریخ کے اوراق کو گرداننے کے بعد دور دور تک بھی اس کا ثبوت نہیں ملتا، اور سالگرہ منانے کی رسم انگریزوں کی ایجاد کردہ ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْهُمْ:سنن ابی داؤد ٥٥٩/٢) جو آدمی جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا.

اب غور کرنے کا مقام ہے کہ یہ طریقہ کس کا ایجاد کردہ ہے اگر ہم اس طریقے کو اپنائیں گے تو ہم بھی ان ہی میں سے ایک فرد قرار پائیں گے اب ہم خود اپنی عقل سلیم سے فیصلہ کریں کہ ہماری زندگی کے اندر غیروں کے کتنے طور طریقے اور خرافات موجود ہیں سالگرہ (BIRTH DAY) منانے کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے، یہ کوئی خوشی کا موقعہ بھی نہیں ہے، اس لئے کہ انسان کی جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے ویسے ویسے وہ موت کے قریب ہوتا جاتا ہے، اور اس کی زندگی میں سے ایک ایک دن کم ہوتا جاتا ہے، لہذا اس موقع پر خوشی منانے کا کیا مطلب ہے؟

اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کے تحفظ اور انسانی معاشرے کے قیام و بقا کے لئے انسانوں کے اندر دو جذبے ایسے رکھے ہیں کہ اگر وہ جذبات انسان کے اندر سے ختم ہوجائیں تو انسانیت کبھی کی مٹ چکی ہوتی، اور وہ ہیں حیا، اور غیرت، اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اگر یہ جذبات انسان کے اندر سے مضمحل ہوجائیں تو انسانیت کی بقاء مشکل ہوجائے گی، صرف نام کے انسان باقی رہ جائیں گے اور کام تو درندوں کی طرح ہوتا رہے گا، جیسا کہ مغربی ممالک میں اس کا انجام سامنے آ چکا ہے، اور اگر کسی معاشرے میں خدانہ خواستہ یہ جذبات فنا ہو جائیں تو بدکاری عریانی اور فحاشی کے وہ مناظر سامنے آئیں گے کہ الامان و الحفیظ جس کا بہت سارا اندازہ آج کی مغربی دنیا کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے، لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں پیدا ہونے والے حرامی بچے انسان کی فطری اٹھان سے یکسر محروم ہوگئے ہیں، محبت، ایثار، قربانی، اور اعتماد جیسے ناگزیر لطیف احساسات کا ان میں کوئی وجود نہیں، جیسا کہ ان کے جذبات کے بغیر سکون و اطمینان کی انمول دولت انسانی معاشرہ کبھی بھی نہیں پا سکتا، اور اس حیاسوز اور اخلاق باختگی والا سالگره (BIRTHDAY) جیسے ہلاکت خیز تفریحات کا پہلا حملہ انسان کی انسانیت پر ہوتا ہے.

 

حرف آخر

میں ہاتھ جوڑ کر دست بستہ گزارش کرتا ہوں کہ ایسے بے حیائی کی محفلیں قائم کرکے اپنے ایمان کی فروختگی سے باز آ جائیں لوگ ہماری قدر نہیں کررہے ہیں تو نہ کریں ہم اپنی قدر خود تو کریں، ہم اپنے کو خود پہچانیں، ہماری اصل تصویر تو شرافت، انسانیت، ہمدردی، اور غمگساری کی ہے، وفا ہماری فطرت میں شامل ہے، ان تمام چیزوں کی حفاظت بھی ہماری آئین ذمہ داری ہے، اللہ تعالی سے دعا کریں کہ ہم کو اللہ تعالی راہ راست پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے( آمین)

Comments are closed.