Baseerat Online News Portal

تین۔دو۔ایک

از:۔مدثراحمد۔ایڈیٹر،روزنامہ آج کاانقلاب،شیموگہ۔کرناٹک۔
ریاست میں مسلم قیادت کو لیکر جہاں دانشور طبقے اور عام مسلمانوںمیں تشویش دیکھی جارہی ہے وہیں مسلم سیاستدان ان حالات کولیکر بالکل بھی سنجیدہ نظر نہیں آرہے ہیں۔کرناٹک میں کچھ سال قبل تک لوک سبھا کو پہنچے والے مسلم اراکین پارلیمان کی تعداد تین ہوا کرتی تھی،اس کے علاوہ ایک راجیہ سبھا رکن بھی طئے تھا۔لیکن اب حالات بدل چکے ہیں،اس دفعہ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس پارٹی نے محض ایک مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا ہے اور ایسے حلقے میں انہیں مقابلہ کرنے کیلئے چھوڑا ہے جہاں پر انہیں کامیاب ہونے کیلئے کافی مشقت کرنی پڑیگی۔بنگلورو سینٹرل سے کانگریس امیدوار رضوا ن ارشد کو کانگریس نے ٹکٹ تو دے دی ہے،لیکن ان کی جیت کیلئے کافی مشکلات سامنے آسکتے ہیں۔دوسری طرف مسلم اکثریتی علاقے جیسے بیدر،گلبرگہ اور ہبلی دھارواڑ میں مسلمانوں کی اکثریت ہونے کے باوجود یہاں سے کسی بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دی ہے۔کانگریس ہو یا جے ڈی ایس یا کوئی اور سیکولر سیاسی جماعت ،یہ لوگ مسلمانوں کو سیدھے طورپر اپنا سیاسی غلام بنا رکھا ہے اور اس غلامی کے حدودمیں ہی مسلمانوں کو رکھنے کی وہ کوشش کررہے ہیں۔ایک طرف عام مسلمان اپنی سیاسی قیادت کو بڑھانے کیلئے سیاسی جماعتوں سے پُر زور مطالبات کررہے ہیں،وہیں پارٹیوںمیں موجود مسلم لیڈران اپنی قیادت کو کمزور کرنے کیلئے خود کوشش کررہے ہیں۔بعض مسلم سیاسی لیڈران جنہوںنے ان کی پارٹیوںمیں ہر عہدے سے استفادہ کیا ہے،وہ اب دوسرے مرحلے کی سیاسی قیادت کو بڑھاناہی نہیں چاہ رہے ہیں۔پچھلے دنوں بیدرمیں منعقدہ کانگریس کے عوامی اجلاس میں کرناٹک کے سینئر لیڈر مانے جانے والے سی ایم ابراہیم نے اپنی تقررمیں کہاکہ "کرناٹک سے مسلمانوںکو ٹکٹ دینے کیلئے مطالبے کئے جارہے ہیں،تین ٹکٹ کامطالبہ ہوا ہے،لیکن پارٹی نے سیاسی حکمت اپناتے ہوئے ایک امیدوار کو ٹکٹ دیا ہے۔میں تو کہتا ہوںکہ ہمیں ایک ٹکٹ بھی ضرورت نہیں ہے۔ملک کیلئے ہم مسلمان ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں”۔یقینا مسلمان ملک کی سالمیت،جمہوریت اور بقاء کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قربانی دینے کیلئے بکرے بننا ضروری ہے؟ویسے بھی سی ایم ابراہیم جیسے لیڈروں سے قوم ایسے ہی باتوںکی توقع کر سکتی ہے کیونکہ انہوںنے ہمیشہ عہدے واقتدار حاصل کرنے کیلئے پیچھے کے دروازوں کا ہی استعمال کیاہے اور انہیں دروازوںکے ذریعے سے چیرمین،ایم ایل سی اور راجیہ سبھا رکن جیسے اہم عہدوں پر قبضہ جمایا ہے۔چونکہ ان کی سیاسی بصیرت ان کے مفادات کیلئے ہے ،اس لئے وہ عام مسلمانوںکیلئے اس طرح کی سوچ رکھتے ہیں۔ایک لیڈر کبھی یہ نہیں کہتا کہ میرے مقاصد تو پورے ہوچکے ہیں،اب قوم بھاڑ میں جائے یاملت کا نقصان ہو،بلکہ وہ یہ کہے گا کہ میرا تو سب کچھ ہوگیا ،اب میرے بعد کسی اور کو موقع ملے ،خاص طو رپر میری ملت کو میری سیاست سے فائدہ ملے۔اگر قربانی دینے کا اتنا ہی شوق ہے تو سی ایم ابراہیم کو چاہیے کہ وہ اپنے موجودہ ایم ایل سی کے عہدے سے مستعفی ہوکر اپنی نشست کو دوسرے مسلم کے حوالے کریں۔جب بات ان کے جیب میں ہاتھ ڈالنے کی آتی ہے تو دامن بچالیتے ہیں،وہیں دوسروں کے دامن پر ہاتھ ڈالنے کی بات آتی ہے تو یہ لوگ دوسروں کاگلا ہی پکڑوادیتے ہیں۔جہاں تک بیدر کی بات کی جائے ،یہ ایک ایسا حلقہ ہے جہاں پر سب سے زیادہ تعدادمیں مسلم ووٹران ہیں اور لنگایت سماج کے بعد مسلمانوں کی ہی بڑی طاقت ہے۔چونکہ اس علاقے میں کانگریس کے روایتی ووٹران کی بڑی تعداد ہے،اس لحاظ سے کوئی بھی مسلم امیدوار مسلمانوں ،دلتوں ،عیسائیوںاور کانگریس کےروایتی ووٹوں کا سہارا لیکر کامیابی حاصل کرسکتا تھا۔مگر کانگریس کی ستم ظریفی کہیں یا پھر مسلمانوں کی کمزوری کہیں،اس حلقے میں بھی مسلمانوں کونمائندگی سے محروم رکھا گیا ہے۔کرناٹک میں جو بچے کچے مسلم ایم ایل اے،ایم ایل سی ہیں انہوںنے تو دوسرے مرحلے کی سیاسی طاقت کوبڑھاوانہیں دیا،یہاں تک کہ خود ان کے بچوں کو سیاست کا آئیکان نہیں بنایا،ایسے عام مسلمانوں کے تعلق سے کیا کہا جاسکتا ہے۔یقینا ،بھائی ہم مزدور ہیں۔مزدورہیںکانگریس پارٹی کے۔مزدورہیں جے ڈی ایس پارٹی کے۔مزدور ہیں بی جے پی کے۔مزدورہیںپمفلٹ اٹھانےکے۔مزدور ہیں جئے جئے پکارنے کے۔مزدورہیں جلسوں و پروگراموںمیں کرسیاں اٹھانے،اسٹیج سنوارنے اورلیڈروں کوکھانا پروسنے کے۔مگر ہم نے کبھی اپنی قیادت پر اعتمادنہیں کیا ہے،ہماری قیادت اب بس مسجدوںو وقف بورڈکی کمیٹیوں تک ہی محدود ہوچکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم مسلمان مسجدوںکے عہدے کیلئے لڑتے ہیں،سر پھوڑتے ہیں اور سر پھوڑ لیتے ہیں،وقف بورڈکے عہدوںکیلئے اپنی پوری سیاسی سفارشات کی طاقت لگالیتے ہیں۔توایسے میں ہم کیسے مسلم قیادت کو بڑھانے کی توقع کرسکتے ہیں؟۔جس طرح سے کوئی راکٹ آسمان پر چھوڑنےسے پہلے سائنسدان الٹی گنتی کرتے ہوئے پانچ،چار،تین ،دو ،ایک کہتے ہیں،اسی طرح سے اب مسلمانوںکو ٹکٹ دینےکیلئے بھی گنتی شروع ہوچکی ہے،ممکن ہے کہ اگلے پارلیمانی انتخابات میں ایک کے بعد لانچ بٹن دبا کر مسلمانوں کی سیاست کو آگ لگا دی جائیگی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان انتخابات میں نہ سہی کم ازکم اگلے انتخابات کیلئے مسلمان تیاریاں کریں،اپنی سوچ کوبدلیں،سیاسی بصیرت کو تبدیل کریں اور اپنے بہتر مسلم لیڈروں پر بھروسہ کریں۔حالانکہ مولانا ابولکلام آزاد نے60 سال قبل ہی یہ کہہ دیاکہ دنیا اگلے دس ہزار سال تک باقی رہے یا دس لاکھ ہزار سال تک،دوچیزیں ہرگز نہیں بدل سکتی،پہلی سوچ تو ہندوئوںکی مسلمانوں کے تئیں تنگ نظری،تو دوسری چیز مسلمانوں کے اپنے قائدین کے تعلق سے بد گمانیاں۔یقیناً یہ بات درست ہے لیکن ہم صدفیصد اس قول کو بدل نہیں سکتے تو کم ازکم پچاس فیصد تو بدل کر ایک نئی تاریخ کو رقم کرسکتے ہیں۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.