اک شام درگاہ حاجی عالی شاہ کے نام

دل سے دل تک
ارقم المعلم بمدینۃ العلوم کے قلم سے
مجلس پر سکوت طاری تھا۔ ہم ریت کے بہت بڑے ٹیلے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ جو دائیں اور بائیں طرف دور تک ہے۔ ہمارے عین سامنے دور دور تک پھیلے میدان کو کناروں سے بلند ہوتے ٹیلوں نے پیالہ نما بنالیا ہے۔ اس میں بل کھاتی سڑکیں، جگہ جگہ جھانکتے پیڑ پودے، کیر درختوں پر لالی بکھرتے پھول، پرانے طرز پر آباد بستیاں اور اس میدان کے بیچ میں انوار مصطفی و حاجی عالی شاہ کیے مزار کی پرشکوہ سفید عمارت نے اس کو خوب سے خوب تر بنادیا ہے۔
سب ان مسحورکن مناظر میں محو تھے۔ بندہ نے خاموشی توڑتے ہوئے میرے یار خاص کا تعارف کچھ اس طرح کرایا کہ یہ لیکچرار جناب فیروز بشیر صاحب ہیں جو ابھی ایک ماہ سے گاگریا اسکول میں ہیں۔ کئی دنوں سے آپ سے لقا کا شوق پالے بیٹھے تھے سو آج بالآخر آپ تک پہنچ ہی گئی۔ ”اُدھر سے ماشائاللہ کی آواز گونجی”بات کوجاری رکھتے ہوئے عرض کیا کہ آپ سے سوشل میڈیا پر امیر سندھی کی بات ہوئی تھی؟ میں نے یاد دلانے کی کوشش کی۔ ”اچھا اچھا آپ کو امیر سندھی صاحب نے بھیجاہے”؟ پیر صاحب کہنے لگے۔ عرض کیا حضرت!!! بندہ ہی امیر ہے! تکیے کے سہارے کو چھوڑ کر پیر سائیں کہنے لگے ”اچھا آپ ہیں امیر!!!” آپ کی تحریریں ٹیلی گرام اور واٹس ایپ پرپڑھی تھی، ماشائاللہ اچھی ہوتی ہیں، یہی خیال مفتی صاحب کا بھی ہے۔ ہاتھ پھیلا کر کہنے لگے میں سوچتا تھا کہ امیر سندھی صاحب کوئی لحیم شحیم سے مُلُوڑ ہوں گے۔ یہ کہ کر آپ مسکرادیے۔
اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہی، اسی بیچ ماسٹر فیروز بشیر صاحب گویا ہوئے۔ آپ پر قوم وملت کے لیے کچھ کر گزرنے کا جنون سوار ہے، وہ بغیر رکے بولے جارہے تھے۔ ان کا لہجہ بدلتا گیا، آواز تبدیل ہوتی گئی۔ شکشت، تأسف، شرمندگی صاف محسوس ہورہی تھی۔ در اصل بات ہی کچھ ایسی تھی۔ فرقہ پرستی کا ننگا ناچتا عفریت اور امت مسلمہ کی بے بسی وبے کسی۔ وہ کہنے لگی کہ ہمارے اخلاق کے دیوالیہ پن کے لیے یہی کافی ہے کہ ہمارے شہر میں ایک آدمی کی نعش کو دفن کے بعد قبر سے باہر نکال پھینک دیا گیا چونکہ وہ وہابی تھا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ بریلوی شریف سے آئے خطباء نے اس رذیل اور کمینی حرکت کی نہ صرف تائید کی بلکہ حوصلہ افزائی بھی کرڈالی۔ آخر ہم جا کہاں رہے ہیں?
اس طرح کے واقعات اور تشدد پر پیر سائیں بھی ویسے ہی بے چین تھے جیسا ہر بہی خواہان ملت ہوا کرتاہے۔ اس اَن ہونے واقع پر فرمانے لگے کہ یہ سراسر زیادتی ہے،کسی طور پر درست نہیں، یہ حد سے تجاوزی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بریلوی شریف والے سنیوں میں بھی تنہا رہ گئے ہیں، بیجا تشدد اور بے محل غلو نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ باقی رہے اختلافات تو اس سے ہر کوئی دوچار ہے۔ آپ کو حیرانی ہوگی کہ نظریاتی طور دیوبندیوں میں بھی کئی جماعتیں ہوچکی ہیں، بریلوی حضرات بھی کئی گروہ میں بٹ چکے ہیں یہی حال اہل حدیث وغیرہم کا ہے۔ ہم اختلافی مسائل کو چھوڑ کر باقی میں متحد ہونے کی کوشش تو کریں۔ امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا حل مل جھل کر تلاش کریں۔ میں مبہوت وساکت بس دیکھے جارہا تھا، مجھے لگا کہ یہ کہیں کوئی خواب تو نہیں ہے؟ اپنے آپ کو ٹٹولا، اردگرد نظر دوڑاکر اطمنان حاصل کیا کہ یہ حقیقت ہی ہے۔ کئی یار دوستوں کی سنی سنائیں باتوں سے آج پردہ ہٹ چکا تھا، یہ کسی طور پر درست بات نہیں کہ اولیاء اللہ کی اولاد امت مرحومہ کو فرقہ واریت کے دلدل میں جھونک رہی ہے۔ بلکہ اس مجلس نے واضح کیا کہ اتحاد کے وہ بھی حامی ہیں۔ کوئی تو ہو جو اتحاد کی طرف قدم بڑھائے۔ قومی ایکتا اور برادران وطن سے یاری کے لیے ہلکان ہونے والوں کی کمی نہیں ہے۔ ایک ڈھونڈھوں ہزار ملیں گے۔ مگر اپنوں میں اتحاد کے خواہاں ڈھونڈھے نہیں مل رہے۔ ہاں افتراق وانتشار کرنے والے ضرور مل جائیں گے۔
امت مسلمہ کے اس دوغلے پن، کم ظرفی اور تنگ نظری سے تنگ ہم سب ہمارے دلوں کے قبلہ وکعبہ مدینۃ الرسول سے روشنی ونور حاصل کریں۔ وہ دیکھو ایک بیٹا اپنے باپ سے عرض گزار ہے کہ اباجان جب میں کافر تھا اور آپ مسلمان، اس وقت جب ہمارے بیچ جنگ کی آگ بھڑک اٹھی تھی، ایک موقع پر آپ میری گرفت اور تلوار کی زد میں تھے۔ اسلام سے سخت دشمنی کے باوجود میرے دل اور غیرت نے گوارہ نہ کیا کہ ابا جی کا خوں اپنے سرلوں۔ باباجی اپنے بیٹے کی اور دیکھتے ہیں اور فرمانے لگتے ہیں واللہ گر تم میرے قابو میں آجاتے تو بیٹا نہیں بلکہ خدا اور رسول کا دشمن سمجھ کر گردن اڑادیتا، آہ آج اسی ہستی کے نام لیوا اپنوں کی گردنیں مروڑتے اور کفار کو مالاپہناتے نظر آتے ہیں۔
افسوس صد افسوس ہے ان پر جو بات بات پر امت کو لڑاتے، چھوٹے چھوٹے مسائل پر بانٹتے اور ہرکسی پر کفر نفاق کے گولے برساتے ہیں۔ کیا انہیں مدینہ منورہ کا یہ منظر دکھائی نہیں دیتا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی معلوم تھا کہ عبداللہ ابن ابی اور ان کا گروہ نفاق کی بیماری میں مبتلا ہے، یہ جماعت صرف نفاق سے دوچار ہوتی اور آپ ان کے تئیں نرم رویہ رکھتے تب تو کچھ آسان سی بات تھی۔ یہاں تو معاملہ اس سے بھی خطرناک تھا، یہ منافقین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نمبر کے سازشی، گستاخ رسول اور دین اسلام کے کھلے دشمن تھے۔
احد وخندق میں ان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ امی جان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر افتراء، مسلمانوں کو لڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا، ان سب سے بڑھ کر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کی قیامت۔ اللہ اللہ اللہ۔ کسی اور نے نہیں بلکہ ان کے بیٹے نے ہی تلوار سونت لی، جب بیٹا ہی باپ کو قتل کرتا تو کون پوچھتا؟ قربان جاؤں میرے آقا ومولی، شہنشاہ بطحاء پر کہ آپ نے نہ صرف اس کے قتل سے روکا بلکہ پوری امت کو یہ سبق دیا کہ ایسا کوئی کام نہ کریو جس سے غیروں میں یہ تاثر جائے کہ مسلمان مسلمان کا دشمن ہے۔
ہمارے اندر دوریوں کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں جنم لے چکی ہے، ضرورت اس بات کی ہے ہم ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ غلط فہمی بد گمانی کو پرے پھینک کر رحماء بینہم کی عملی تفسیر کے مناظر سے دنیا کو روشناش کرائیں۔ اکابرین امت سے دست بدستہ التجا ہے کہ اس کار خیر کی طرف بھی توجہ دی جائے۔ اس راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے ایک نیا جہاں آباد کیا جائے۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.