اخلاق اور اخلاص کی مالا

جعفر حسین پونہ
درخت پر اوقات سے زیادہ پھل لگ جائیں تو اس کی ڈالیاں ٹوٹنا شروع ہو جاتی ہیں، انسان کو اوقات سے زیادہ مل جائے تو وہ رشتوں کو توڑنا شروع کر دیتا ہے، انجام آہستہ آہستہ درخت اپنے پھل سے محروم ہو جاتا ہے.
الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کریں! جب آپ بات کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کے الفاظ آپ کے خاندان، مزاج اور آپ کی تربیت کا پتہ دے رہے ہوتے ہیں.
بچہ بڑا ہوکر سمجھ جاتا ہےکہ ابا کی سختیاں ٹھیک ہی تھیں اور بندہ مرنے کے بعد سمجھ جائےگا کہ اس کے رب کی پابندیاں ٹھیک تھیں.
زندگی کوئی چائے کا کپ تھوڑی ہوتی ہے کہ ایک چمچہ شکر ملاکر ذائقے کی تلخی کو دور کر دیا جائے؟ زندگی کو توعمر کے آخری لمحے تک گھونٹ گھونٹ پینا پڑتا ہے، چاہے تلخی کتنی زیادہ کیوں نہ ہوجائے.
تہجد پڑھتے ہیں مگر اپنے
بھائی سے بول چال نہیں رکھتے، ہر نیک کام کرتے ہیں مگر غیبت نہیں چھوڑتے، اپنی نیکیاں ایسی تھیلی میں جمع نہ کریں جس میں سوراخ ہو!
منہ پر بولنے والے بھی برداشت کی آخری حد تک پہنچ کربولتے ہیں رویوں کا شدید ردعمل انہیں بولنے پر مجبور کرتا ہے لہجوں کی تلخیاں اپنی پیدا کردہ نہیں ہوتیں بلکہ اس کے پیچھےنفرتوں کی انتہاء ہوتی ہے.
اگر تمہیں ایک دوسرے کےاعمال کا پتہ چل جائے تو تم ایک دوسرے کودفن بھی نہ کرو، اللہ نےتمہارے عیب چھپا رکھے ہیں اس پر شکر ادا کرو!
کچھ لوگ اپنے لئیے ساری ساری رات جنت کی دعائیں مانگتے ہیں لیکن دوسروں کی زندگی انہوں نےجہنم بنائی ہوئی ہوتی ہے.
ہم کسی کے دل میں جھانک نہیں سکتے یہ جان نہیں سکتےکہ کون ہمارے ساتھ کتنا مخلص ہے؟ لیکن وقت اور روئیے جلد ہی یہ احساس دلا دیتے ہیں. اپنی طرف سے بھرپور کوشش کیجئیے! سخت محنت کیجئے! طریقہ صحیح اور جائز اختیار کیجئیے! دعا کیجئیے! پُر امید رہئیے اور نتیجہ اللہ تعالی پرچھوڑ دیجئیے!
زبان دراز لوگوں سے ڈرنے کا کوئی فائدہ نہیں، وہ تو شور ڈال کراپنی بھڑاس نکال لیتے ہیں لیکن ڈرو ان لوگوں سےجو سہہ جاتے ہیں، کیونکہ وہ معاملہ اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں جہاں ناانصافی کی گنجائش نہیں ہوتی، وہاں دیر ہے اندھیر کبھی نہیں،
اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ ہر چیز آپ کے ہاتھوں سےنکل رہی ہے اور حالات آپ کے موافق نہیں ہیں تو ایک دفعہ اس درخت کے بارے میں ضرور سوچنا جو ایک ایک کر کے اپنے تمام پتے کھو دیتا ہے لیکن پھر بھی کھڑا رہتا ہےاس امید پر کہ بہار کے دن پھر آئیں گے!
مجھےاتنا عجیب لگتا ہے کہ لوگ ہماری زندگی کا ایک صفحہ پڑھ کے ہمارے بارے میں پوری کتاب خود ہی لکھ لیتے ہیں.
کوئی یہ کیسے سوچ سکتا ہے
کہ حساب نہیں ہوگا کہ وہ بخشا جائے گا؟ یاد رہے حساب دینا ہوگا ایک ایک آہ کا،آنسو کا،تڑپ کا، بےحسی کا اور بے رحمی کا، حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کا، معاملہ بھی بہت سخت ہے، افسوس! سبھی لوگ یہ بات بھلائے بیٹھے ہیں.
کب تلک سوتے رہوگے؟
جاگو سویرا ہوا ہے!
Comments are closed.