Baseerat Online News Portal

ووٹ نہ ڈالنا گناہ کبیرہ ہے۔!!

 

مفتی محمد اشرف قاسمی
(مہدپورضلع اجین،ایم پی)
[email protected]

شریعت کی نظر میں ووٹ کی بیک وقت تین حیثیتیں ہیں:
1۔ سفارش
امیدوار کے لیے سفارش؛ اگر امیدوار بہتر ہے تو اس کو ووٹ دینا باعث ثواب ہے اور اگر برا ہے تو اس کو ووٹ دینا معصیت ہے۔
جیسا کہ صحیح اور غلط سفارش کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"جو شخص کوئی اچھی سفارش کرتا ہے، اس کو اس میں سے حصہ ملتا ہے، اور جو کوئی بری سفارش کرتا ہے اسے اس برائی میں سے حصہ ملتا ہے اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے۔” (سورۃالنساء، الآیۃ: ۵۱)

2. گواہی
کسی امیدوار کو ووٹ دینے میں اس کی لیاقت کی گواہی دی جاتی ہے۔ لائق مند آدمی کی لیاقت کی گواہی دینا ضروری ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"اے ایمان والو ! ایسے بن جاؤ کہ اللہ ( کے احکام کی پابندی ) کے لیے ہر وقت تیار ہو (اور) انصاف کی گواہی دینے والے ہو، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ناانصافی کرو۔ انصاف سے کام لو، یہی طریقہ تقوی سے قریب تر ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ یقینا تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے” ۔(سورۃالمائدۃ، الآیۃ: ۸)

"اے ایمان والو ! انصاف قائم کرنے والے بنو، اللہ کی خاطر گواہی دینے والے، چاہے وہ گواہی تمہارے اپنے خلاف پڑتی ہو، یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔ وہ شخص (جس کے خلاف گواہی دینے کا حکم دیا جا رہا ہے) چاہے امیر ہو یا غریب، اللہ دونوں قسم کے لوگوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے، لہذا ایسی نفسانی خواہش کے پیچھے نہ چلنا جو تمہیں انصاف کرنے سے روکتی ہو۔ اور اگر تم توڑ مروڑ کروگے (یعنی غلط گواہی دو گے) یا (سچی گواہی دینے سے) پہلو بچاؤ گے تو (یاد رکھنا کہ) اللہ تمہارے کاموں سے پوری طرح باخبر ہے ۔” (سورۃالنساء، الآیۃ: ۱۳۵)
"اور گواہی کو نہ چھپاؤ، اور جو گواہی کو چھپائے وہ گنہگار دل کا حامل ہے، اور جو عمل بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے”۔ (سورۃالبقرۃ، الآیۃ: ۲۸۳)

"اور وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہم اس گواہی کے بدلے کوئی مالی فائدہ لینا نہیں چاہتے، چاہے معاملہ ہمارے کسی رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو، اور اللہ نے ہم پر جس گواہی کی ذمہ داری ڈالی ہے، اس کو ہم نہیں چھپائیں گے، ورنہ ہم گنہگاروں میں شمار ہوں گے” (سورۃالمائدۃ، الآیۃ: ۱۰٦)

3. امیدوار ووٹرس کی طرف سے خطہ، سماج اور پورے ملک میں وکیل ہوتا ہے؛ یعنی سماج ملک کی تعمیر اور امن و انصاف کے قیام کے لیے ووٹر امید وار کو اپنا وکیل بناتا ہے۔ ایسی صورت میں بھی لائق مند کا انتخاب شرعی طور پر لازم ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں ہر مذہب اور طبقہ کے لوگوں کو الیکشن میں امیدوار بننے کا حق حاصل ہے؛ لیکن عموما مسلمان امیدوار کم کھڑے ہوتے ہیں اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ ہر ہر خطے میں مسلم امیدوار کو الیکشن میں کھڑا ہونا یا ماہر مسلم پولیٹیشین کے مشورہ سے کسی دوسرے طبقہ سے ایسے امیدوار کھڑا کرانا جو امن، انصاف، تعمیر و ترقی کی ذمے داری ادا کرسکے اور قانون و مسلمانوں کو تحفظ دے سکے، ہر خطے کے مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے۔

یاد رکھیں! امن و انصاف اور تعمیر و ترقی اور تحفظ کے لیے غیر مسلموں سے مدد لینا جائز اور سنت سے ثابت ہے۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر میں بنی قینقاع کے یہودیوں کی مدد لی اور غزوہ حنین میں صفوان بن امیہ جیسے مشرک سے مدد لی۔ (الردالمحتارمع الدرالمختار ج: ٦، ص: ۲٤٢و۲٤٤، زکریا)

ان تفصیلات سے معلوم ہوا کہ جمہوری ملک میں جہاں ہمیں مذہب، جان، مال، معاش اور نسب کے تحفظ کے ساتھ مذہب کی تبلیغ کی آزادی حاصل ہے، وہاں اپنے ان حقوق و مراعات کو باقی رکھنے اور عملی طور پر ان کے اجرا کے لیے ووٹ کے ذریعے ایسے ممبران کا انتخاب کرنا ضروری ہے جو قانونی مراعات و تحفظات سے ہمیں بہرہ مند کرسکے۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی ایک تحریر پر اپنے مضمون کو بند کرتا ہوں:
"سچی شہادت کا چھپانا از روئے قرآن، حرام ہے؛ اس لیے آپ کے حلقہ انتخاب میں اگر کوئی صحیح نظریے کا حامل و دیانت دار نمائندہ کھڑا ہے تو اسی کو ووٹ دینا ہیں، کوتاہی کرنا گناہ کبیرہ ہے۔” (جواہر الفقہ، ج: ۲، ص: ۲۹۵)

اگر آپ کے حلقہ انتخاب میں تمام امیدوار کرپٹڈ اور غلط ہیں تو آپ کسی کو ووٹ نہ دیں؛ بلکہ نوٹا دبا کر اس حلقہ انتخاب کے تمام امیدواروں کی نا اہلی کی گواہی دیں؛ لیکن ووٹ ضرور ڈالیں ورنہ گناہ گار ہوں گے۔

Comments are closed.