Baseerat Online News Portal

ہمارا ووٹ کس کو اور کیوں؟ چند غور طلب پہلو

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل
انتخاب کا مطلب ہے مختلف متبادل کے درمیان کسی ایک کو چننا۔ اگر سارے متبادل یکساں ہیں تب تو آپ کسی کا انتخاب کریں آپ کے مجموعی فائدے پر کوئی فرق نہیں آئے گا، اس کو علم معاشیات کی زبان میں لا تفریقیت یعنی Indifference کہتے ہیں۔ مگر جب ایک کی جگہ آپ دوسرے کو ترجیح دیتے ہیں تو اسے تفضیلیت یعنی Revealed Preferenceکہتے ہیں۔ یہ ترجیح کمزور بھی ہوسکتی ہے اور مضبوط بھی۔ آپ کس کو پسند کرتے ہیں اور کس کو ناپسند اور کس کو کس پر ترجیح دیتے ہیں یہ خارجی اور داخلی دونوں عوامل پر منحصر کرتے ہیں۔
الیکشن ووٹرس کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ کس پارٹی یا پارٹیوں کے مجموعہ کو ترجیح دیں اور کس کو منتخب کریں۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مذہب،ذات، زبان، علاقہ، کلچر، جنس، نسل اور نہ جانے کتنی طرح کے تنوع اور تفاوت (Diversities) ہیں، وہاں یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے کہ لوگ پورے ملک کی سطح پر کس پارٹی یا فرنٹ کو چنیں گے۔ لوک سبھا کا انتخاب پورے ملک کا انتخاب ہوتا ہے ۔ اس انتخاب میں ملکی پارٹیوں کے علاوہ علاقائی پارٹیاں بھی ہیں اور ہر پارٹی کا کوئی نہ کوئی اسٹرونگ بیس ہے۔ ویسے یہ بات خوش آئند ہے کہ ہمیشہ ہندوستانی ووٹرس نے بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے اور جب بھی ملک کی تہذیبی خصوصیات، دستور کے بنیادی ڈھانچہ اور جمہوریت وآزادی رائے و عمل پر آنچ آئی ہے تو چاہے کتنا مضبوط لیڈر رہا ہو یا کتنی مضبوط پارٹی رہی ہو عوام نے اسے رد کردیا ہے۔ایمرجنسی کے بعد ہونے والا الیکشن اس کی واضح مثال ہے۔
اس وقت بھی ملک کے سامنے ایک بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے، اس بار کا لوک سبھا چناؤ محض یو۔پی۔اے۔ اور این۔ڈی۔ اے۔ کے بیچ کا چناؤ نہیں ہے ، بلکہ یہ جمہوریت بنام فسطائیت کے بیچ چناؤ ہے، تنوع بنام جبری یکسانیت کے بیچ کا چناؤ ہے۔ انسانی اقدار، بنیادی حقوق، پس ماندہ، کمزور اور گنتی میں کم لوگوں پر اکثریت کے جبری تسلط کے خلاف چناؤ ہے۔ مختصر یہ کہ یہ تصور ہند یعنی دستورمیں مندرج جو Idea of Indiaہے کے تحفظ کا چناؤ ہے۔ دوسرے لفظوں میں جارح قوم پرستی کے خلاف چناؤ ہے۔ واضح الفاظ میں کہا جائے تو Participatroy & Collective Democracyاور Autocracyکے بیچ کا چناؤ ہے۔ اس لیے اس بار کا لوک سبھا کا چناؤ بھارت کی جدید تاریخ میں ایک Turning Pointثابت ہوگا۔ لہٰذا اس پر بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ لینے کی ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ بلّی کے خطرے سے تمام چوہے واقف ہیں مگر اس کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا، یہ ملین ڈالر کا سوال ہے۔ اگر آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس ملک میں ہندو 80%ہیں، اور تمام اقلیتیں20%۔ جمہوریت میں وزن تعداد کی ہوتی ہے۔ لہٰذا ملک دستوری آئیڈیل کے مطابق چلے گا یا کچھ چالاک لوگ اس کا اپہرن کرلیں گے، یہ یہاں کی سب سے بڑی آبادی یعنی ہندو اکثریت کو طے کرنا ہے۔ مسلمان ہمیشہ سے دستوری آئیڈیل کے ساتھ رہے ہیں اور انھوںنے جمہوریت، سیکولریزم اور قانون کی حکمرانی کے حق میں ووٹ دیا ہے اور اس بار بھی وہ یہی کریں گے۔ مگر صرف مسلمان پورے لوک سبھا انتخاب کو متاثر نہیں کرسکتے ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ کنگ میکر ہیں ایک بوگس بات ہے جس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ حکومت چاہے یو۔پی۔اے۔ کی بنے یا این۔ڈی۔ اے۔ کی، اس وقت ملک میں جو پاور اسٹرگل چل رہا ہے مسلمان اس میدان سے باہر ہیں، وہ محض لائن مین کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اس وقت ملک میں اقتدار کی کشمکش ہندوؤں کے تین طبقات کے درمیان ہے۔ ایک طرف اپر کاسٹ ہندو ہیں جو اپنے اقتدار کو باقی اور برقرار رکھنے کی جدوجہد کررہے ہیں اور انھوںنے بی جے پی کو اپنی امیدوں کا مرکز بنالیا ہے۔ دوسری طرف بیک ورڈ کلاسز ہیں جو اقتدار میں پوری اور زیادہ حصہ داری چاہ رہے ہیں کیونکہ مجموعی اعتبار سے ان کی تعداد زیادہ ہے اور ایک فرد ایک ووٹ کے اصول پر ان کی ہی حکمرانی ہونی چاہیے۔ یہ لوگ ریاستوں میں تو مضبوط ہیں، مگر پورے ملک کی سطح پر ابھی اتنے مضبوط نہیں ہیں۔ تیسرا طبقہ دلتوں اور آدی باسیوں کا ہے۔ آزادی کے ستر سالوں میں انہیں جو تحفظات اور رعایتیں ملی ہیں اس کی وجہ سے اب یہ سماجی، معاشی، سیاسی، تعلیمی اور دیگر میدانوں میں Potential Forceکے طور پر ابھر رہے ہیں اور اقتدار میں بڑے حصے کے دعویدار ہیں۔ یہ کشمکش کیا رخ لے گی یہ کہنا مشکل ہے۔
اس صورت میں مسلمانوں کو دو باتوں پر دھیان رکھنا ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ ملک میں جمہوریت باقی رہے، ملک کا دستور محفوظ رہے، ملک میں امن و امان اور قانون کی حکمرانی قائم رہے۔ جس پارٹی اور Combinationسے یہ توقع ہو کہ وہ ان آئیڈیل کی پابندی کرے گی اور ملک کا بنیادی ڈھانچہ اور سماجی تانا بانا محفوظ اور مضـبوط رکھے گی اس کو ووٹ دیں۔
دوسری یہ کہ ادھر لگاتار اسمبلی اور پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی گھٹ رہی ہے۔ مسلمان امیدوار چاہے جس پارٹی کا ہواگر اس کی شبیہ اور شناخت اچھی ہے اور وہ ملت کی مضبوطی سے نمائندگی کا دم خم رکھتا ہے تو اس مسلمان امیدوار کو پارلیمنٹ میں ضرور بھیجیں۔ ملک میں کم و بیش چالیس انتخابی حلقے ہیں جہاں مسلمانوں کی اچھی آبادی ہے۔ اکثر ان کے ووٹ کا بٹوارہ اس طرح ہوجاتا ہے کہ اچھا امیدوار بھی ہار جاتا ہے اور خراب امیدوار جیت جاتا ہے جس کے بعد سب کو افسوس ہوتا ہے۔ ہر امیدوار اپنی جیت کا دعویٰ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ جیتے۔ یہ فیصلہ ووٹرس کو کرنا ہے کہ وہ کس کو جتاتے ہیں۔ امید ہے اس بار مسلمان پہلے جیسی غلطی نہیں دہرائیں گے اور اپنے ووٹ کو نہیں بٹنے دیں گے۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.