Baseerat Online News Portal

مختلف ممالک میں دیگر اقوام کے ساتھ مسلمانوں کی سکونت اور دینی و سیاسی ذمہ داری

 

مفتی محمد اشرف قاسمی
(مہدپور ضلع اجین،ایم پی)

خالص اسلامی ریاست میں دوسرے مذاہب کے لوگ

خالص مسلم ریاست میں جنگ نہ کرنے والے غیر مسلموں کے دین، جان، مال، معاش اور نسب کو اسلام پورا تحفظ فراہم کرتاہے۔ اور اپنی ریاست کے غیر مسلموں کو مسلم سماج کی طرح ایک کمیونٹی مانتا ہے۔ میثاق مدینہ دیکھیں کہ غیر مسلموں کو مسلمانوں سے کس قدر قربت دی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "بنی عوف کے یہود، مسلمانوں کے ساتھ ایک کمیونٹی ہیں، البتہ یہودی اپنے دین پر عمل کرنے میں آزاد ہوں گے اور مسلمان اپنے دین کے پابند ۔”
اسی طرح ایک روایت میں بنی نجار اور دوسرے قبیلوں کے یہودیوں اور غیر مسلموں کو ذکر فرمایا۔ (المواطنة فی الاسلام (ڈ القرةالداغی۔ بحوث علماء العرب ص: ۱۹٧، ایفا)

مکمل اختیارات کی حامل غیر اسلامی ریاست میں مسلمان

اسلام اپنے ماننے والوں کو زندگی گزارنے کے لیے کامل و مکمل نظام اور ہدایات دیتا ہے۔ مسلمان اپنے تمام معاملات میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر ونواہی کا پابند ہوتا ہے۔ اگر کسی معاملہ میں اس کی اپنی رائے اور خواہش اللہ اور رسول کے احکامات سے ٹکرارہی ہو تو اپنی خواہش اور رائے کو ترک کرکے اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کے مطابق عمل کرنا اس پر لازم ہوتا ہے۔(دیکھیں: سورۃ المائدۃ آیۃ: ۸)
جس طرح مسلمان اسلامی نظام حکومت میں قانون الہی کا پابند ہوتا ہے، اسی طرح اگر وہ کسی غیر اسلامی نظام حکومت کے تحت زندگی گزار رہے ہوں تو اس نظام کے تحت بھی اسلام انہیں اپنے دین، جان، مال، عزت، معاش اور نسب و نسل کی حفاظت کے ساتھ جینے کی ہدایات دیتا ہے اور اسی کے ساتھ غیر اسلامی نظام حکومت میں رہتے ہوئے دعوتی مواقع حاصل کرکے تبلیغ اسلام کا فریضہ عائد کرتا ہے۔
اس سلسلے میں اللہ تعالی نے پوری ایک سورت ‘سورۃ الکافرون’ نازل فرمائی، جس میں غیر اسلامی نظام حکومت میں مسلمانوں کو جینے کا قانون بتلایا۔ لکم دینکم ولی دین
تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔(سورۃالکافرون: ٦)

اپنے دین پر عمل کرنے اور جان، مال، معاش، آبرو، نسب کے تحفظ کے لیے ایک غیر مسلم ریاست حبشہ کی طرف مسلمانوں کو ہجرت کا حکم فرمایا۔(بخاری کتاب مناقب الانصار ، باب ھجرةالحبشة. رقم الحدیث۳۸۷۲ و۳۸۷۹)
طائف سے واپسی پر مطعم بن عدی جو کہ اس وقت تک ایمان نہیں لاے تھے کی حفاظت( protection) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ لی(البدایہ والنھایہ لابن کثیر ج۲ ص۱۳۵ فتح الباری ج۷ ص۳۲۷)
مکہ جیسی مشرکانہ ریاست میں جب دین پر عمل کرنا دشوار ہوگیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ترک وطن کے ارادے سے نکلتے ہیں، راستے میں ایک غیر مسلم سردار ابن الدغنہ سے ملاقات ہوتی ہے اور اس سردار کی طرف سے آپ کی حفاظت کا وعدہ ہوتا ہے تو پھر اپنی جان و مذہب کی حفاظت کی امید میں اسی مشرکانہ ریاست مکہ میں واپس آجاتے ہیں۔( البدایہ والنھایہ لابن کثیر ج۲ ص۹۱۔و سیرتِ مصطفی، ص: ۱۳۰تا ۱۳۲)
دعوتی مقاصد اور ملی مفادات کے لیے غیر مسلم اسلام دشمن ملک میں تقیہ وتوریہ کے ساتھ سمجھدار اور موثر شخص کور‌‍ُکے رہنا افضل اور ضروری قراردیا گیا ہے۔( الحاوی الکبیر للماوردی ج۱۴ ص۱۰۴)
ابن عبد البرؒ وغیرہ کا بیان ہے کہ حضرت عباس رض غزوہ بدر سے قبل ہی ایمان لا چکے تھے، اور ہجرت کرکے مدینہ آنا چاہتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعوتی اور ملی مفادات کے تحت مکہ میں رکے رہنے کی تاکید فرمائی۔(حق اللجوءالسیاسی فی الفقہ الاسلامی ۔۔۔۔۔بحوث العلما ء العرب ص ۲۸۰۔د ولید خالد الربیع کویت ط ایفا الدلھی )
انسانی آبادی کی بھلائی اور دعوتی فریضے کی ادائیگی کے لیے یہی نہیں کہ غیر اسلامی ریاستوں میں رہائش اختیار کرنا جائز ہے، بلکہ غیر مسلم ریاست میں غیر مسلم (اور بظاہر ظالم) حکمران کے خزانے کا محافظ اور منسٹر بننا بھی سنت ہے۔ جیسا کہ سورہ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے:
"یوسفؑ نے کہا کہ: آپ مجھے ملک کے خزانوں ( کے انتظام ) پر مقرر کردیجیے۔ یقین رکھیے کہ مجھے حفاظت کرنا خوب آتا ہے (اور) میں (اس کام کا) پورا علم رکھتا ہوں۔” (سورۃ یوسف: ۵۵)۔

باقاعدہ ریاست کی سر پرستی میں جو غیر مسلم افواج مسلم ریاست سے مسلح جنگ کرتی ہیں۔ اگر وہ جنگ بندی کی طرف مائل ہوں تو اسلامی ریاست کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ جنگ کو ترک کرکے مذاکرات اور مرافقت کا راستہ اختیار کرے۔

"اور اگر وہ لوگ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کی طرف جھک جاؤ (سورہ انفال: ٤٤) اور اللہ پر بھروسہ رکھو، یقین جانو وہی ہے جو ہر بات سنتا، سب کچھ جانتا ہے۔ (سورہ انفال: ٦١)
اور اگر وہ تمہیں دھوکا دینے کا ارادہ کریں گے تو اللہ تمہارے لیے کافی ہے۔ وہی تو ہے جس نے اپنی مدد کے ذریعے اور مومنوں کے ذریعے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے۔ (سورہ انفال: ٦٢)

مسلمانوں کے کچھ امور ایسے ہوتے ہیں جو مسلمان امیر کے ذریعہ ہی حل ہوسکتے ہیں۔جیسے کہ عبادات میں نماز کی امامت؛ نماز میں غیر مسلم کی امامت جائز نہیں ہے اور نہ ہی نماز میں غیر مسلم کی اقتدا درست ہے؛ اس لیے نماز میں صحتِ امامت وصلوة کے لیے امام کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔اسی طرح کچھ عقود ایسے ہیں جن میں عبادت کا بھی پہلو شامل ہے جیسے نکاح، طلاق خلع، فسخ نکاح، تقسیم وراثت اور اوقاف وغیرہ ان معاملات کو حل کرنے کے لیے صرف اور صرف مسلمان امیر اور حاکم ہونا ضروری ہے۔ جس طرح نماز میں غیر مسلم کی امامت درست نہیں ہے اسی طرح ان معاملات میں کسی غیر مسلم حاکم کا حکم اور فیصلہ شرعی طور پر نافذ نہیں ہوتا ہے؛ اسی لیے اگر مسلمان کسی غیر اسلامی یا غیر مسلم ریاست میں رہتے ہوں تو ان پر لازم ہے کہ اپنے مخصوص معاملات (جن میں مسلم حاکم یا امیر ہونا ضروری ہے ان) کو حل کرنے کے لیے غیر مسلم حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ مسلمانوں کے مخصوص مسائل کو شرعی ضابطوں کے مطابق حل کرنے کے لیے کسی مسلمان حاکم کا تقرر کرے، اگر کافر حکومت مسلم وزیر یا گورنر مقرر نہیں کرتی ہے تو پھر عام مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنی طرف سے مل جل کر اپنا والی، سربراہ اور لیڈر مقرر کریں اور اسی طرح اپنا امام و قاضی بھی منتخب کریں۔ جو مسلمانوں کے ایسے معاملات کو شرعی ضابطوں کے مطابق حل کرے۔ (ردالمحتار ج:۸، ص:٤٣، زکریا)
اسلام مکمل اختیارات کی حامل غیر اسلامی، بلکہ اسلام دشمن ریاستوں کے بارے میں مسلمانوں اور مسلم ریاستوں کو رفاقت کی ہدایات دیتا ہے۔

جمہوری ملک میں مسلمان

ابھی تک خالص اسلامی ریاست اور خالص غیر اسلامی ریاست میں مسلم اور غیر مسلم تعلقات، تحفظات اور مراعات کے بارے میں اسلامی تصورات اور ہدایات (Islamic Concept) کو بیان کیا گیا ہے۔
ان دونوں قسموں کی ریاستوں اور حکومتوں کے علاوہ اس دور میں نئی طرز حکمرانی جمہوریت (Democracy) ہے۔
اس کی تعریف (Definition)
اس طرح کی گئی ہے۔
It is a government of the people by the people for the people.
"جمہوریت عوام کی اس حکومت کا نام ہے جو عوام کے ذریعے اور عوام کے فائدے کے لیے قائم ہوتی ہے۔”( مفتی تقی عثمانی۔سیاسی افکار ص: 60 مکتبہ ملت دیوبند)
جمہوری طرز حکومت کی اس تعریف( Definition) میں کئی ایک مفاسد ہیں:
1. پہلی بات یہ کہ اس میں عوام حاکم اعلی ہوتے ہیں وہ جو چاہے قانون بنواکر نافذ کراسکتے ہیں، جب کہ اسلام اور فطرت میں حاکم اعلی اللہ تعالی کی ذات ہے۔
2. اس میں کثرت راے سے حکومت تشکیل پاتی ہے اور کثرت راے سے قانون بنتے ہیں ۔
جب کہ شریعت اور فطرت کا اصول یہ ہے کہ کثرت راے کے بجاے منطق اوردلائل (Logic) کی بنیادپر درست بات ہی قابل قبول ہے۔

3. نیز یہ تعریف جمہوریت کی حکمرانی کے تمام کل پرزوں کو بکھیر رہی ہے؛ کیوں کہ کیسے ممکن ہے کہ جلاد اور سزاے موت یافتہ مجرم دونوں حاکم ہوں۔؟
4. نیز جب عوامی ووٹوں سے منتخب ہوکر کسی ایک پارٹی کی حکومت بنتی ہے تو چوں کہ کثرت راے سے اس کی حکومت بنی ہے؛ اس لیے حکومت میں یہی نہیں کہ شکست خوردہ پارٹی اور اس کے حق میں راے دینے والوں کی شراکت داری باقی نہیں رہتی ہے؛ بلکہ اس جماعت کو عملی طور پر اقتدار سے محروم ہونا پڑتا ہے اور آئندہ اپنے حق میں عوامی رائے ہموار کر نے کے لیے برسر اقتدار پارٹی کے اچھے برے تمام منصوبوں کو تنقید اور کردار کشی کے جذبے سے لوگوں کے سامنے لاتی ہے۔ اسی طرح فتح یاب جماعت بھی آئندہ کے لیے اپنے حق میں عوامی راے باقی رکھنے کے لیے اکثریت کی سوچ اور مزاج کے مطابق اپنی پالیساں طے کرنے کی کوشش کرتے ہوئے حزب اختلاف اور اقلیت کے جائز ضروری اور بنیادی مطالبات اور ضروریات کو بھی نظر انداز کر سکتی ہے۔
5. مذکورہ بالا مفاسد کے ساتھ تشکیل حکومت کے لیے انتخابات میں عوامی راے لینا اور ووٹنگ کا مرحلہ جمہوریت کو اسلامی تصورات سے بہت قریب کردیتا ہے۔

ووٹنگ اور خلیفہ اسلام کا انتخاب

اسلام میں انتخاب خلیفہ کے لیے فہیم و ذکی افراد کی ایک مختصر جماعت ہوتی ہے وہ اپنے فہم و بصارت سے منصب خلافت کے لیے کسی لائق مند شخص کا انتخاب کرتی ہے؛ لیکن اس جماعت کے انتخاب سے ہی منتخب شخص خلیفہ نہیں بن جاتا ہے، بلکہ عوامی تائید کے لیے عوام سے بیعت لی جاتی ہے، یہ عوامی بیعت درحقیقت اس کی اطاعت اور اس کے تعاون کا عہد بھی ہوتا ہے اور عوامی عندیہ بھی، کہ اگر تم نے امور مفوضہ کو شرعی قانون کے مطابق نہیں ادا کیا تو تم کو ہمارا تعاون اور ہماری اطاعت نہیں حاصل ہوگی۔
انتخاب خلیفہ کے سلسلے میں مجلس شوری اور عوامی راے حاصل کرنے کا اسلامی تصور سمجھنے کے لیے خلافت کےلیے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی صورت انتخاب کو ذیل میں مختصرا پیش کیا جاتا ہے: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مقرر کردہ چھے رکنی مجلس شوری نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد باہم کافی بحث و تمحیص کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو یہ اختیار دیا کہ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کے انتخاب کے لیے عوام الناس سے راے لیں۔ چنانچہ انہوں نے ان دونوں حضرات سے گفتگو کی ۔بعد ازاں چنندہ لوگوں اور برسر آوردہ لوگوں سے ایک ساتھ اور علیحدہ علیحدہ، انفرادی طور پر، دو دو کی صورت میں اور گروہوں کی شکل میں راے لی، خفیہ بھی اور اعلانیہ بھی۔ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ باپردہ عورتوں، مکاتب میں پڑھنے والے بچوں، یہاں تک کہ مختلف مقامات سے آنے والوں اور گاؤں والوں سے تین دن تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں رائے لیتے رہے۔ پھر اطمینان کے بعد ان کی خلافت کا اعلان کیا اور بیعت کی کاروائی ہوئی۔ ( ابن کثیر ابوالفداء اسماعیل، البدایہ والنھایہ: ج۷؍ ص ۱٤٥ و ۱٤٦ . (بیروت: مکتبۃ المعارف، طبعہ اولی، سنہ: ۱۹۶٦)
اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے بیعت خلافت کرنی چاہی تو انہوں نے پہلے انکار کیا اور پھر مسجد میں عام مسلمانوں کی رضا مندی سے کھلے عام اپنی امارت پر بیعت لینے کے لیے راضی ہوے۔ (الطبری، تاریخ الرسل والملوک: ج 6؍ ص3066 و3067)
اسلام میں کلیدی کردار کی حامل مختصر "جماعت شوری” کی طرف سے تشکیل حکومت کے لیے اس قدر عموم کے ساتھ تین دنوں تک مسلسل راے لینے کا مقصد کثرت راے جمع کرکے فیصلہ لینا نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگوں کے خیالات جان کر لائق مند شخصیت کو ہر زاویہ سے اچھی طرح سمجھنے کے لیے ہوتا ہے۔
اس طرح منتخب ہونے والے حاکم کی اطاعت ان تمام باتوں میں ضروری ہوتی ہے جو شریعت کے خلاف نہ ہوں۔(صحیح البخاری، رقم الحدیث: ۷۱٤٤۔ صحیح المسلم، رقم الحدیث: ١٤٦٩۔ شامیہ: ج ٦ ص٤١٦، زکریا)

اگر خلیفہ غیر شرعی ہدایات جاری کرے یا شریعت کے خلاف عمل کرنے لگے تو عوام کو یہ حق حاصل ہے اس کو معزول کرنے کے لیے اپنی رائے اور صلاحیتوں کو استعمال کریں۔(ابن سعد: ج 3؍ ص 129)
عوام حتی کہ عورتیں بھی شریعت سے مغائر فیصلوں پر اعتراض کرسکتی ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر بحوالہ ابویعلی وابن المنذر: ج 1؍ ص467)
مالیات وغیرہ میں بدنظمی محسوس ہوتو عام مجمع میں خلیفہ پر اعتراض کیا جاسکتاہے اور اس کا جواب خلیفہ وقت کو دینا ہوگا۔ (الریاض النضرة فی مناقب العشرة، للمحب الطبری: ج 2؍ ص56۔ سیرة عمر ابن الخطاب لابن الجوزی: ص 127)

ہندوستان کی جہموریت

مختصر یہ ہے کہ بنیادی طور پر جمہوریت میں مفاسد ہیں؛ لیکن اسی کے ساتھ اچھی حکومتوں کی تشکیل میں حق رائے دہی شریعت کے مزاج کے سو فیصد موافق بھی ہے۔
اور جو اکثریت کی طرف سے اقلیتوں کے استحصال کا خدشہ ہے، وہ "قانون بنیادی حقوق”
کے ذریعہ محفوظ ہیں۔

ہندوستان کے جمہوری دستور میں بنیادی حقوق (fundamental rights) میں بہت سی دفعات ایسی ہیں جو اسلامی قوانین سے ہم آہنگ اور مختلف مذاہب کے ماننے والی اقلیتوں کے جذبات کی پوری رعایت کرتی ہیں۔ مثلا
Articles N.14 / 17/19/ 20/.25/ 26 / 28 / 30/
یہ ایسی دفعات ہیں کہ اس میں جان، مال، معاش، مذہب اور نسب کے ساتھ اپنے مذہب و تہذیب کی اشاعت اور حفاظت کی پوری آزادی ہے، خاص طور پر آرٹیکل نمبر 25 اور 26 میں مذہب کی تبلیغ اور مذہب بدلنے کی آزادی سے اہل ایمان کو فتوحات کی کلید حاصل ہوجاتی ہے۔ ان دفعات کے موجود ہوتے ہوئے اگر کوئی پارٹی اسلام یا مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والا قانون بناتی ہے تو وہ قانون خود ہی مسترد ہوجائے گا۔
ان دفعات کی روشنی میں ہم یہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اس ملک میں خالص غیر اسلامی افراد کا اقتدار نہیں ہے؛ بلکہ قانونی لحاظ سے مسلمان بھی اس ملک کی حکومت میں شامل ہیں، وہ اسلام جو خالص غیر مسلموں کی اقتدار والی ریاستوں میں مراعات اور تحفظات کے ساتھ رہنے کی اجازت دیتا ہے۔
وہ اسلام جو مسلح جنگجو کافر ریاستوں کی طرف سے صلح کے اقدام کو فورا قبول کرکے غیر مسلم دشمن ریاستوں سے دوستی و مرافقت کی ہدایت دیتا ہے، وہ اسلام جو آفتاب نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر بھی کفر پر باقی رہنے والے بدترین کافروں کو مسلم ریاست میں پورا تحفظ دینے کے ساتھ ہی ایسے بد نصیب کافروں کو ان کی مذہبی آزادی دے کر مسلمانوں کے ساتھ ایک ریاستی کمیونٹی تسلیم کرتاہے۔
وہ اسلام ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں جہاں قانونی لحاظ سے مسلمانوں کو تحفظات کے ساتھ اپنے مذہب کی اشاعت اور تبلیغ کی آزادی حاصل ہے۔اس ملک میں رہنے اور وہاں اپنے لیے تحفظات اور مراعات کو باقی رکھنے کی کوششیں اور جد وجہد کرنے کو کیوں ناجائز قرار دے گا۔؟

امن و انصاف کے قیام کے لیے جمہوریت میں چار ارکان

جمہوریہ ہندوستان میں امن و انصاف قائم کرنے کے چار ارکان ہیں:
Legislativ,
Judiciarm,
Administration,
Media
ان میں پہلا رکن یاشعبہ عوامی ووٹنگ سے تشکیل پاتا ہے، جب کہ عملی زمین سے یہ چوتھے نمبر پر ہوتا ہے؛ لیکن یہی رکن یا شعبہ اپنے علاوہ باقی تینوں شعبوں کی ہیئۃ قضائیہ کی تشکیل کرتاہے، جس طرح امن اور انصاف قائم کرنے کے لیے Judiciary یعنی عدالتی نظام اور Administration یعنی پولس فوج وغیرہ اور Media میں حصہ دار بننا مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے، اسی طرح Legislative نظام کا حصہ بننا اور اس میدان میں ایمان دار افراد کا آنا اور لانا بھی مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے۔
یہ ایسے میدان ہیں جہاں سے صرف ہمیں ہی تحفظ نہیں حاصل ہوگا؛ بلکہ پورے ملک کو امن وچین کا ساحل ملے گا۔ امن وانصاف قائم کرنا مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے؛ اس لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ امن وانصاف کے لیے مسلمان ملک کے چاروں شعبوں میں برابر اپنی نمائندگی قائم کرتے؛ لیکن بجاے اس کے جمہوریت جیسی غیر اسلامی ریاست میں ملنے والی سہولیات و تحفظات اور مراعات کو کفر اور کافر سے جوڑ کر مسلمانوں کو غلام اور تیسرے درجہ کا شہری بنانے کے لیے جمہوریت کے سلسلے میں علماے اسلام کی تحریروں کے کچھ اقتباسات کو جمع کر کے مسلمانوں کو ووٹ دینے سے روکنے کی نا سمجھی کی جارہی ہے۔ یاد رکھیں جس طرح کافر ریاست کو قرآن و سنت کی روشنی میں علما نے غیر اسلامی ریاست/ غیر اسلامی حکومت کہا ہے اور خالص غیر اسلامی ریاست ہونے کے باوجود وہاں مذہب، جان، مال، معاش اور نسب کے تحفظ کی صورت میں مسلمانوں کو رہائش کی اجازت؛ بلکہ دعوتی مواقع ہوں تو وہاں دعوت کے لیے رہنا ضروری قرار دیا ہے۔ اسی طرح جمہوری حکومت بھی غیر اسلامی ہے؛ علما نے یہی بیان کیا ہے؛ لیکن خالص غیر مسلم حکومت کی بہ نسبت یہاں تو کہیں زیادہ سہولیات حاصل ہوتی ہیں؛ اس لیے یہ طرز حکومت غیر اسلامی ہونے کے باجود اسلام اور مسلمانوں کےلیے مفید ہے۔ خاص طور پر انتخابِ امیر کے لیے ووٹنگ میں رائے دہی تو اسلامی مزاج سے ہم آہنگ پروسیزر ہے۔
جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لیے تین دن اور تین رات تک ہر قسم کے لوگوں کی آرا معلوم کی گئی تھیں۔ ووٹنگ میں بھی امیدوار کے لیے اسی طرح ووٹر کی رائے معلوم کی جاتی ہیں۔

ووٹ کی شرعی حیثیت اور اہمیت

شریعت کی نظر میں ووٹ کی بیک وقت تین حیثیتیں ہیں:
1۔ سفارش
امیدوار کے لیے سفارش؛ اگر امیدوار بہتر ہے تو اس کو ووٹ دینا باعث ثواب ہے اور اگر برا ہے تو اس کو ووٹ دینا معصیت ہے۔
جیسا کہ صحیح اور غلط سفارش کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"جو شخص کوئی اچھی سفارش کرتا ہے، اس کو اس میں سے حصہ ملتا ہے، اور جو کوئی بری سفارش کرتا ہے اسے اس برائی میں سے حصہ ملتا ہے اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے۔” (سورۃالنساء، الآیۃ: ۵۱)

2. گواہی
کسی امیدوار کو ووٹ دینے میں اس کی لیاقت کی گواہی دی جاتی ہے۔ لائق مند آدمی کی لیاقت کی گواہی دینا ضروری ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"اے ایمان والو ! ایسے بن جاؤ کہ اللہ ( کے احکام کی پابندی ) کے لیے ہر وقت تیار ہو (اور) انصاف کی گواہی دینے والے ہو، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ناانصافی کرو۔ انصاف سے کام لو، یہی طریقہ تقوی سے قریب تر ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ یقینا تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے” ۔(سورۃالمائدۃ، الآیۃ: ۸)

"اے ایمان والو ! انصاف قائم کرنے والے بنو، اللہ کی خاطر گواہی دینے والے، چاہے وہ گواہی تمہارے اپنے خلاف پڑتی ہو، یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔ وہ شخص (جس کے خلاف گواہی دینے کا حکم دیا جا رہا ہے) چاہے امیر ہو یا غریب، اللہ دونوں قسم کے لوگوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے، لہذا ایسی نفسانی خواہش کے پیچھے نہ چلنا جو تمہیں انصاف کرنے سے روکتی ہو۔ اور اگر تم توڑ مروڑ کروگے (یعنی غلط گواہی دو گے) یا (سچی گواہی دینے سے) پہلو بچاؤ گے تو (یاد رکھنا کہ) اللہ تمہارے کاموں سے پوری طرح باخبر ہے ۔” (سورۃالنساء، الآیۃ: ۱۳۵)
"اور گواہی کو نہ چھپاؤ، اور جو گواہی کو چھپائے وہ گنہگار دل کا حامل ہے، اور جو عمل بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے”۔ (سورۃالبقرۃ، الآیۃ: ۲۸۳)

"اور وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہم اس گواہی کے بدلے کوئی مالی فائدہ لینا نہیں چاہتے، چاہے معاملہ ہمارے کسی رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو، اور اللہ نے ہم پر جس گواہی کی ذمہ داری ڈالی ہے، اس کو ہم نہیں چھپائیں گے، ورنہ ہم گنہگاروں میں شمار ہوں گے” (سورۃالمائدۃ، الآیۃ: ۱۰٦)

3. امیدوار ووٹرس کی طرف سے خطہ، سماج اور پورے ملک میں وکیل ہوتا ہے؛ یعنی سماج ملک کی تعمیر اور امن و انصاف کے قیام کے لیے ووٹر امید وار کو اپنا وکیل بناتا ہے۔ ایسی صورت میں بھی لائق مند کا انتخاب شرعی طور پر لازم ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں ہر مذہب اور طبقہ کے لوگوں کو الیکشن میں امیدوار بننے کا حق حاصل ہے؛ لیکن عموما مسلمان امیدوار کم کھڑے ہوتے ہیں اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ ہر ہر خطے میں مسلم امیدوار کو الیکشن میں کھڑا ہونا یا ماہر مسلم پولیٹیشین کے مشورہ سے کسی دوسرے طبقہ سے ایسے امیدوار کھڑا کرانا جو امن، انصاف، تعمیر و ترقی کی ذمے داری ادا کرسکے اور قانون و مسلمانوں کو تحفظ دے سکے، ہر خطے کے مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے۔

یاد رکھیں! امن و انصاف اور تعمیر و ترقی اور تحفظ کے لیے غیر مسلموں سے مدد لینا جائز اور سنت سے ثابت ہے۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر میں بنی قینقاع کے یہودیوں کی مدد لی اور غزوہ حنین میں صفوان بن امیہ جیسے مشرک سے مدد لی۔ (الردالمحتارمع الدرالمختار ج: ٦، ص: ۲٤٢و۲٤٤، زکریا)

ان تفصیلات سے معلوم ہوا کہ جمہوری ملک میں جہاں ہمیں مذہب، جان، مال، معاش اور نسب کے تحفظ کے ساتھ مذہب کی تبلیغ کی آزادی حاصل ہے، وہاں اپنے ان حقوق و مراعات کو باقی رکھنے اور عملی طور پر ان کے اجرا کے لیے ووٹ کے ذریعے ایسے ممبران کا انتخاب کرنا ضروری ہے جو قانونی مراعات و تحفظات سے ہمیں بہرہ مند کرسکے۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی ایک تحریر پر اپنے مضمون کو بند کرتا ہوں:
"سچی شہادت کا چھپانا از روئے قرآن، حرام ہے؛ اس لیے آپ کے حلقہ انتخاب میں اگر کوئی صحیح نظریے کا حامل و دیانت دار نمائندہ کھڑا ہے تو اسی کو ووٹ دینا ہیں، کوتاہی کرنا گناہ کبیرہ ہے۔” (جواہر الفقہ، ج: ۲، ص: ۲۹۵)

اگر آپ کے حلقہ انتخاب میں تمام امیدوار کرپٹڈ اور غلط ہیں تو آپ کسی کو ووٹ نہ دیں؛ بلکہ نوٹا دبا کر اس حلقہ انتخاب کے تمام امیدواروں کی نا اہلی کی گواہی دیں؛ لیکن ووٹ ضرور ڈالیں ورنہ گناہ گار ہوں گے۔

Comments are closed.