Baseerat Online News Portal

خواب خرگوش، وقتی بیداری اور مسلمان

 

ذوالقرنین احمد

ملک میں جاری لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر ہر طرف ایک عجیب بے چینی پورے ملک میں دیکھنے مل رہی ہیں۔ اس سے قبل انتخابات میں اتنا ڈر و خوف کا ماحول شائد ہی کسی نے دیکھا ہوگا۔ گزشتہ حکومت کے ۵ سالہ اقتدار میں ملک کو کافی نقصان پہنچا ہر طرح ملک کی سلامتی ،جمہوریت، معیشت، اور عوام کی امیدوں کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا۔ موجودہ انتخابات اس ملک عزیز کے لئے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ملک کے مستقبل کے اچھے اور برے ہونے کا عکس ثابت ہوگا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے پاس مضبوط قیادت نہ ہونے کی بنا پر وہ آج اپنے آپ کو بکھرے موتیوں کی طرح محسوس کر رہے ہیں۔ جب تک یہ موتی ایک مالا میں نہیں پورئے جائینگے تب تک مسلمانوں کی حالت بہتر نہیں ہوسکتی۔ چند مفاد پرست سیاسی لیڈران اپنے فائدے کیلئے قوم کا سودا کرتے ہیں۔ اور ملت کو اور پستی میں ڈھکیل دینے کا کام کرتے ہیں۔ آج ہندوستان کے مسلمانوں میں جاری انتخابات کو لیکر اتنی بے چینی ہے کہ جیسے ملک کی سلامتی کی ساری فکر انہیں لگی ہے ضروری بھی جمہوریت کی بقاء کی فکر کرنا لیکن جمہوریت کی بقاء تو اس وقت ممکن ہوگی جب خود اپنے تشخص ،شعار ،وقار تہذیب شریعت پر باقی رہے گے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ فرقہ پرست سیاسی جماعت بی جے پی کا ڈر وخوف دیکھا کر کانگریس نے ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا۔ اور آج پھر وہی پالسی کے زریعے کانگریس اقتدار میں آنا چاہتی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ آزادی کے بعد سے کانگریس نے نا انصافی کی انہیں سیاست میں حصے داری سے دور رکھا ، اور صرف جھوٹے خواب دیکھائے گئے۔ آج ملک کے مسلمان پھر اسی موڑ پر کھڑے ہے۔ کہ کسے اپنا ووٹ دے۔کسی اپنا رہنما تسلیم کریں۔ اکثر ریاستوں میں تو مسلمان متحد نہیں ہے۔ اور جہاں پر ہے وہاں بغیر کسی اپنے منشور کے سیکولر پارٹیوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ اپنے آپ کی موجودگی کو منوانے کی کوشش تک نہیں کی جارہی ہیں۔ مسلمانوں کا ووٹ اتنا سستا ہوچکا ہے۔ کہ مسلمان کانگریس کو اس وجہ ووٹ دینے پر مجبور ہے کہ وہ اپنی جان کی امان چاہتے ہیں۔اس لیے مجبوراً سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دینے کیلئے تیار دیکھائی دے رہے ہیں۔ کم و بیش ۲۵ کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کے ووٹ صرف ووٹ بینک بن کر رہ جاتے ہیں۔ اگر اتنی بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ تو مسلمان اپنی سیاسی جماعت کو مضبوط کیوں نہیں کرتے، جہاں ہماری آبادی زیادہ ہے۔ جہاں سے ہمارا امیدوار جیت کر آنا یقینی ہے، تو وہاں کیوں کسی اور سیکولر پارٹی کو ووٹ دیکر اپنی اہمیت کو گنوا رہے ہیں، جہاں ہماری آبادی کم ہے جہاں سے ہمارا امیدوار نہیں جیت سکتا وہاں ہم اپنا منشور سیکولر پارٹی کے سامنے رکھے کہ ہماری یہ تمام باتوں کو آپ پورا کرنے کیلئے تیار ہے تو ہم آپ کو سپورٹ کریگے۔ ویسے بھی مجبوراً مسلمانوں کو سیکولر پارٹیوں کو ہی ووٹ دینا ہے۔ ملک کے مسلمان اتنے فکر مند نظر آرہے ہیں جیسے ہر ریاست میں انکے ۴، ۵ امیدوار کھڑے ہوئے ہے، سوشل میڈیا سے لیکر ہوٹلوں چوک چوراہوں پر ہر طرف انتخابات کی باتیں شروع ہے۔اور مسلمانوں کو صلاح مشورے دینے میں لگے ہوئے ہیں کہ مسلمان سیاسی شعور بیدار کرو، سیاسی شعور کیا انتخابات کے ۸، ۱۵ دنوں میں بیدار ہوجائے گا۔ گلے پھاڑ کر چلانے سے سیاسی شعور بیدار نہیں ہونے والا۔ سب سے پہلے مسلمانوں کو زمینی سطح پر کام کرنا ہوگا بچوں نوجوانوں، خواتین، کی اصلاح کرنی ہوگی، انکی صحیح تربیت کرنی ہوگی، انہیں ذہین نشین کرانا ہوگا شریعت کی حفاظت کیسے ہوگی ان باتوں کو کھول کر بیان کرنا ہوگا ۔ فرداً فرداً فرداً اور تحریکی جماعتوں کے زریعے گلی کوچوں میں بیداری پیدا کرنی ہوگی۔ اور آئیندہ انتخابات کیلئے لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ اپنی قیادت کو مضبوط کرنے کیلئے متحد ہوکر فرقہ پرست عناصر کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ مسلمانوں کو اب فکر لاحق ہورہی ہے۔ کہ جاری انتخابات میں اگر بی جے پی جیت جاتی ہے تو مسلمانوں کیلئے ہندوستان کی زمین تنگ کردی جائے گی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے۔کہ مسلمان آئیندہ انتخابات کیلئے اپنا پلٹ فارم تیار کریں۔ مسلسل محنت جاری رکھیں۔ کیونکہ مسلسل کوشش ہزار کرامات سے بہتر ہے۔ تب جاکر تبدیلی ممکن ہوگی ورنہ وقتی طور پر شور شرابے کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ زمینی حقائق کو جانے بغیر کسی بھی پارٹی کو ووٹ دینا بے وقوفی ہے سیکولر امیدوار کو ووٹ ضرور دیں، لیکن اپنی موجودگی اور اکثریت کا احساس ضرور ان لیڈران کو دلائے جو یہ سمجھتے ہے کہ مسلمان صرف ووٹ بینک ہے۔ ورنہ غیر محسوس طریقے سے مسلمانوں کے ووٹوں کا استعمال ہوتا رہے گا اور مسلمان پستی و ذلت کے عمیق گہرائیوں میں جا گرینگے۔ اور آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ اس لیے سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں کسی بھی پارٹی کے امیدوار سے پیسہ لیکر جھوٹی گواہی نہ دیں کیونکہ یہ ایک امانت ہے۔ اور اس کی پوچھ کل قیامت میں ہوگی۔

Comments are closed.