Baseerat Online News Portal

کشن گنج پارلیمانی حلقہ؛ جہاں انتخاب سے ایک دن قبل رائے دہندگان کے رجحان امیدوار کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں

نورالسلام ندوی،پٹنہ

بنگال،نیپال اور بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل خوبصورت وادیوں کو سمیٹے کشن گنج لوک سبھا سیٹ کا انتخاب اس بار کافی دلچسپ ہوگا۔کشن گنج پارلیامانی سیٹ پر انتخاب سے ایک دن قبل رائے دہندگان کے رجحان پر امیدواروں کی جیت منحصر ہوتی ہے۔ساڑھے چھ لاکھ ووٹروں و الی اس سیٹ پر ستر فیصدی مسلم رائے دہندگان ہیں،محض تیس فیصدی غیر مسلم ووٹرس ہیں۔ایسے میں سارا دارومدار مسلم ووٹروس پر منحصر کرتا ہے۔تقریباً تین لاکھ ووٹرس سرجا پوری برادری سے آتے ہیں۔ سرجا پوری اکثریتی علاقہ ہونے کی وجہ کر سبھی امیدواروں کی نظر اس برادری پر رہتی ہے۔سرجا پوری برادری کے رائے دہندگان امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں، کانگریس کاگڑھ سمجھی جانے والی اس سیٹ پر 2009 اور 2014 کے انتخاب میں کانگریس امیدوار مولانا اسرار الحق قاسمی نے جیت درج کی تھی،مولانا اسرار الحق قاسمی بھی سرجا پوری برادری سے تعلق رکھتے تھے۔اس حلقہ سے بی جے پی امیدوار محض ایک بار کامیاب ہو ئے ہیں۔1999 میں بی جے پی کے ٹکٹ پر سید شاہنواز حسین نے کامیابی حاصل کی تھی، تب پہلی بار بھاجپا کا یہاں سےکھاتا کھلا تھا۔شہنواز حسین نے راجد کے قدآور لیڈر محمد تسلیم الدین کو شکست دے کر اٹل کابینہ میں وزیر بنے تھے۔مودی لہر میں بھی یہاں سے بھاجپا امیدوار کامیاب نہیں ہو سکے۔اس سیٹ پر سب سے زیادہ بار جیت درج کرنے کا ریکارڈ کانگریس کے محمد جمیل الرحمن اور راجد کے محمد تسلیم الدین کے نام ہیں۔ جنہوں نے تین تین بار اس حلقہ سےکامیابی حاصل کی ہے۔

اس بار کشن گنج حلقہ سے کل 14 امیدوار میدان میں ہیں،اس بار یہاں کا جو انتخابی ماحول ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ یہاں سہ طرفہ مقابلہ ہو سکتا ہے۔کانگریس کے ڈاکٹر محمد جاوید، جدیو کے سید محمود اشرف اور ایم آئی ایم کے اختر الایمان کے درمیان مقابلہ ہوگا،کانگریس کے لئےجہاں یہ سیٹ بچانے کی چنوتی ہے وہیں جدیو ترقی کے نام پر ووٹ مانگ رہی ہے،جدیو کے لئے بھی یہ سیٹ وقار کا مسئلہ ہے۔ایسے میں ایم آئ ایم امیدوار اختر الایمان کی شناخت ایک بیباک اور قوم پرست لیڈر کے طورپر مانی جاتی ہے جنہوں نے اقلیتوں کی ہمیشہ مضبوط اور موثر نمائندگی کی ہے۔گذشتہ انتخاب میں اختر الایمان جدیو کے سمبل پر انتخابی میدان میں اترے تھے لیکن درمیان میں ہی وہ بیٹھ گئے۔اس کے باوجود انہوں نے 55 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے۔اس حلقہ کے عوام کا مزاج دوسرے حلقوں سے بالکل مختلف ہے۔یہاں انتخاب سے ایک دن قبل ووٹروں کی گول بندی ہوتی ہے۔جس امیدوار کی طرف ان کا رجحان ہوا اس امیدوار کی جیت یقینی مانی جاتی ہے۔لوک سبھا 2019 کا یہ انتخاب کشن گنج کے مسلمانوں بالخصوص سرجاپوری برادری سے تعلق رکھنے والے رائے دہندگان کی حکمت وتدبر کا امتحان ہے کہ وہ کس امیداور کو منتخب کر پارلیمنٹ بھیجتے ہیں۔

کشن گنج میں روزگار اور آمدنی کے ذرائع پیدا کرنابڑا مسئلہ ہے۔یہاں سالہا سال سے نوجوان روزگار کی تلاش میں دوسری جگہوں کا سفر کرتے رہےہیں۔اعلی تعلیم کے لئے یہاں کوئ بڑی یونیورسٹی تک نہیں ہے۔علی گڑھ مسلم پونیورسٹی کی شاخ تو قائم ہوئ لیکن فنڈ کی کمی وجہ کر کسمپرسی کے عالم میں ہے۔یہاں کے زیادہ تر لوگ روزگار کے نام پر کیھت اور چائے کے باغات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔سڑک،پانی اور بجلی جیسے بنیادی اور ضروری مسائل کا حل اس علاقہ کے عوام کا پرانا مطالبہ ہے۔یہاں کے لوگوں کا پرزور مطالبہ ہے کہ حکومت اس علاقہ پر خصوصی توجہ دے۔

Comments are closed.