Baseerat Online News Portal

امیر کے لئے لازمی صفات

پروفیسر محسن عثمانی ندوی
دنیا کی تاریخ میں بہت سے حاکم ظالم بہت سے امیر بے ضمیر بہت سے اولو الامر صاحبان جورر وجبر گذرے ہیں لیکن اسلام نے حاکم اور امیر کی صفات متعین کردی ہیں۔ دین اسلام اجتماعی زندگی کا دین ہے ،یہ بھکشووں ، جوگیوں،راہبوں اور سنیاسیوں کا دین نہیں ہے، یہ صحراء ، جنگل ، بیابان اور پہاڑوں کے غار میںانفرادی زندگی گذارنے کی تلقین نہیں کرتا ہے یہ آبادی کے اندر منظم زندگی گذارنے کی تلقین کرتا ہے ، اس دین میں اجتماعی زندگی کے احکام قدم قدم پر ملیں گے یہاں تک کہ عبادات میںبھی اجتماعی زندگی کی شان پائی جاتی ہے ، امامت صغری( نماز باجماعت) سے لے کر امامت کبری( حکومت وخلافت ) تک ڈسپلن کے ساتھ زندگی گذارنے کے آداب اس دین میں نظر آتے ہیں ۔ امام یعنی امیر کے بغیر زندگی گذارنا ممنوع ہے ۔ سیاسی طاقت ہو جب بھی امیر ضروری ہے سیاسی طاقت نہ ہو جب بھی امیر کے بغیر چارہ کار نہیں ۔ دو چار آدمی بھی کہیں مل کر جائیں تو سفر میں ان کا ایک امیر ہونا چاہئے ۔ قرآن ، سنت نبوی اور خلفائے راشدین کے تعامل سے ان اوصاف کا تعین ہوتا ہے جن سے ایک امیر کو متصف ہونا چاہئے ،اسلامی ریاست کا امیر ہو یا کسی تنظیم اور جماعت کا ا میر ہو اس کو ان صفات سے لازما متصف ہونا چاہئے ۔ یہاںذمہ داریوں کا اور ان صفات کا تذکرہ کیا جاتا ہے جن سے مزین ہونا ہر امیر کے لئے ضروری ہے۔تاکہ اس کسوٹی پر ہر امیر اور حکمراں جانچا جا سکے ۔ امیر کی ذمہ داریاں جب ذکر کی جائیں گی تواس سے حکومت اور ارباب حکومت کی ذمہ داریاں مرادہوں گی کیونکہ کوئی بھی حاکم تمام کام خود تنہا انجام نہیں دیتا ہے بلکہ وہ منتظمین کی جماعت کے ذریعہ انجام دیتا ہے جن کے مجموعہ کانام ارباب حکومت ہے تمام ارباب حکومت کو اس معیار پر پورا اترنے کی کوشش کرنا چاہئے ۔
۱۔امیر اور امام اور خلیفہ کی اولین ذمہ داری اللہ تعالی کے احکام اور قوانین کو نافذ کرنا ہے ، جن میں سب سے اہم اقامت صلاۃ ہے ۔ اسلامی ریاست کی یہی سب سے اہم داخلہ پالیسی ہے ،خلیفہ کا کام اسلام کو دنیا میںپھیلانا ہے ، اسلام کے تعارف اور تبلیغ کے لئے دعوت کے نظام کو مستحکم کرنا ہے ، یہ اسلامی ریاست وامارت کی اہم ذمہ داری ہے ، اوریہی ریاست کی سب سے اہم خارجہ پالیسی ہے ۔امیر سربراہ حکومت ہے اور سربراہ امارت ہے اور مالک کائنات نے نیابت اور خلافت و امارت کا تاج امیر کے سر پراسی مقصد سے رکھا ہے، اگر اسے اپنی ذمہ داریوں کا خیال نہیں ہے اگر وہ غیر مسلموں میں اسلام کی دعوت کے کام کے لیے متحرک نہیں ہے تو وہ اسلامی ریاست وامارت کے مقصدکونظرانداز کرنے والا اور اپنی ذمہ داری کو فراموش کرنے والا ہے۔بہت زمانہ سے مسلم تنظیموں نے اس بنیادی کام سے غفلت برتی ہے ۔ گویا گاڑی اب پٹری سے اتر گئی ہے ۔
۲۔ امیر ہونے کیلئے پہلی شرط اور پہلی صفت یہ ہے کہ اسے امیر کے منصب کا حریص نہیں ہونا چاہئے ۔ اگر کوئی شخص اس منصب کا حریص ہو اور اس نے خود یا اپنے ماننے والوں کے ذیعہ اور’’ روڈ شو‘‘ کے مظاہرہ سے اسے حاصل کرنے اور اس منصب پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہو تو وہ امیر کے منصب کا اہل نہیں ہے ، بخاری اور مسلم کی حدیث ہے (انا واللہ لا نولی علی عملنا ہذا احدا سألہ او حرص علیہ ) رسول اللہ۰ﷺ نے فرمایا بخدا ہم کسی ایسے شخص کو اپنی حکومت کے منصب پر مقرر نہیں کرتے ہیں جس نے اس کی درخواست کی ہو یا جو اس کا حریص ہو۔دوسری حدیث ابوداؤدکی ہے ان اخونکم عندنا من طلبہ یعنی ہمارے نزدیک تم میں سے بڑا خائن وہ ہے جو خود اس کا طالب ہو ۔آپ ﷺ نے حضرت ابو ذر کو منصب طلب کرنے پر یہ نصیحت کی تھی یا اباذر انک ضعیف وانہا امانۃ وانہا یوم القیامۃ خزی وندامۃ اے ابو ذر تم کمزور ہو اور یہ منصب امانت ہے اور قیامت کے روز وہ رسوائی اور ندامت کا موجب ہوگا ، ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’جو شخص امیرکے منصب پرفائز ہوا اس کو سب سے بھاری حساب دینا ہوگا اور وہ سب سے زیادہ عذاب کے خطرہ میں مبتلا ہوگا ‘‘۔ان حدیثوں کو سامنے رکھئے تو محسوس ہوگا کہ مبارکباد کا مستحق وہ نہیںہے جو امیر ہوگیا ہے بلکہ وہ شخص ہے جو امیر نہیں ہوا ہے ۔کبھی حالات کے لحاظ سے اس میں استثناء بھی ہوسکتا ہے ، کبھی قوم اور ملک کے حالات بہت دگرگوں ہوں اور ایک شخص یہ مخلصانہ طور پر یہ محسوس کرے کہ اس کے پاس ایسی صلاحیتیں ہیں جن سے وہ بگاڑ کو درست کرسکتا ہے تو وہ اپنے آپ کو عہدہ کے لئے پیش کرسکتا ہے ، سورہ یوسف میں ہے کہ مصر میں جب قحط اور خشک سالی پھیل گئی تھی او اقتصادی نظام درہم برہم ہوگیا تھا اس وقت کے پیغمرحضرت یوسف علیہ السلام نے جنہیں اللہ نے انتظام کی غیر معمولی صلاحیت عطا کی تھی یہ مطالبہ کیا تھا ’’اجعلنی علی خزائن الارض‘‘ یعنی سرزمین کا مالیاتی نظام میرے حوالہ کردو۔ہر حال میں لوگوں کو یہ جائزہ لینے کا حق ہے کہ وہ شخص امارت کا ستحق ہے یا نہیں اور وہ امیر کے مطلوبہ معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں ۔
۳۔ امیر کے لئے ضروری ہے کہ خود اسکا انتخاب بھی اہل الراے سے مشاورت کے بغیر نہ ہوا ہو اور وہ خود تمام اجتماعی معاملات میں اہل الراے سے مشاورت کا عادی ہو اور اجتماعی کام کو مشورے کے بغیر انجام نہ دے۔ {وَأَمْرُہُمْ شُورَی بَیْْنَہُمْ} ۔ ( الشوری ۳۸) وہ مجلس مشاورت کی اکثریت کی بات کو پوری اہمیت دیتا ہو کیونکہ ایک شخص کے ہاتھ میں اختیارات کا ارتکاز نفس پرستی اور مفاد پرستی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
۴۔ عدل وانصاف کا قیام {وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ }النساء ۵۸ یعنی جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔اور حدیث میں ہے (امرت لاعدل بینکم) یعنی مجھے حکم دیاگیا ہے کہ میںتمہارے درمیان عدل کروں۔ آیت میں حکم اور حکومت کے الفاظ کے ساتھ عدل کا لفظ آیا ہے حدیث میں امر وامارت کے اشتقاق کے ساتھ عدل کا لفظ آیا ہے ،معلوم ہوا کہ حکومت اور امارت کے ساتھ عدل وانصاف کی صفت لازم وملزوم ہے عدل وانصاف امیر کی سب سے اہم صفت ہے یعنی لازما امیر کو اس صفت سے متصف ہو نا چاہئے ۔ اب اگر کوئی امیر اپنے مامور کارکنوں کو ۶۰ سال کی عمر میں رٹائرمنٹ کا حکم دے اور خود ۹۰ سال اور ۱۰۰ سال کی عمر میں بھی رٹائرڈ نہ ہو تو یہ عدل و انصاف کے خلاف ہے کیونکہ قانون سب کے لئے یکساں ہونا چاہئے ۔ حدیث میں ہے لا یؤمن أحدکم حتی یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ یعنی تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی نہ پسند کرے جو وہ خود اپنے لئے پسند کرے ۔ اب اگر کسی ریا ست کا امیر اپنے لئے رٹائرمنٹ پسند نہیں کر تا ہے تو اسے مامور اور ماتحت کے لئے بھی پسند نہیںکرنا چاہئے ۔ سب سے بڑا دستور قرآن مجید ہے ۔خلافت راشدہ کا عہد بھی اسوہ ہے ۔ اگر اس عہد میں یہ اسوہ ملتا ہے کہ حکومت کے کاکن اور عہدہ دار کو کسی عمر میں رٹائرڈ کردیا جاتا تھا اور امیر المومنین اس قانون سے مستثنی ہوتا تھا تب تو اس پر عمل ممکن ہے ۔ اور اگر اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ یہ اجتہادی مسائل میں سے ہے اور اس میں خلافت راشدہ کے زمانہ کے اسوہ کی دلیل نہیں لائی جاسکتی ہے توپھر اپنے اجتہاد کی علم الحیات کے حوالہ سے یہ عقلی دلیل ہر حال میںدینی ہوگی کہ عام لوگ اور حکومت کے کارندوں کے حواس۶۰کی سال کی عمر میں مختل او ران کے قوی مضمحل ہوجاتے ہیں اس لئے اس عمرکو پہونچ کر ان کے لئے ریٹائرمنٹ ضروری ہوتا ہے لیکن جہاں تک امیر کا تعلق ہے اس پر اللہ کا خاص فضل ہوتا ہے اس کے سر پر سرخاب کا پریا بال ہما ہوتا ہے ۔وہ ارذل العمر کو پہونچ کر بھی جوان رعنا ،تندرست وتوانا اور پیر برنا ہوتا ہے وہ ’’ اس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب ‘‘ کا مصداق ہوتا ہے اس لئے رٹائرمنٹ کے قانون کا اطلاق اس پر نہیں ہوسکتاہے ۔نہ وہ معزول ہوسکتا ہے نہ کسی کے سامنے جواب دہ ۔
۵۔ امیر کی اہم ترین صفت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی جان ومال اور آبرو کی حفاظت سے ذرا غافل نہ ہوحجۃ الوداع کے خطبہ میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا (فان دمائکم واموالکم واعراضکم حرام کحرمۃ یومکم ہذا ) یعنی تمہاری جانیں اور تمہارا مال اور تمہاری آبرو ویسی ہی محترم ہیں جیسے آج حج کا یہ دن محترم ہے ۔دنیا میں کہیںبھی مسلمان مظلوم اور ستم رسیدہ نہ ہوں ان کی سرزمین پر کسی دوسرے کا قبضہ نہ ہوکوئی ان پر حملہ آور نہ ہو یہ سب دیکھنا مسلمان حاکم اور امیر کی ذمہ داری ہے۔ اس کے حدود امارت میں کسی مسلمان کے ساتھ کوئی نا انصافی نہ ہو اس کا خیال کرنا امیر کی ذمہ داری ہے، مسلم کی ایک اور حدیث ہے کہ کوئی حاکم اور امیر جو مسلمانوں کی حکومت کاکوئی منصب سنبھالے پھر اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے کیلئے جان نہ لڑائے اور خلوص کے ساتھ کام نہ کرے وہ مسلمانوں کے ساتھ جنت میں قطعا دا خل نہ ہوگا۔امیر کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے فرائض وفاداری اور مستعدی کے ساتھ انجام دیتا ہو ۔ امیر کو یہ جاننا چاہئے کہ امارت اس کے دستار کی کلغی نہیں ہے یہ لائق فخر تمغہ نہیں ہے ۔ یہ کانٹوں کی سیج ہے ، یہ ذمہ داری کا بوجھ ہے۔
۶۔ امیر کی ایک اہم صفت یہ ہے کہ وہ اپنے اردگرد خوشامدی اور چاپلوس لوگوں کی بھیڑ نہ لگائے ۔کنزالعمال کی حدیث ہے (من ارضی سلطانا بما یسخط ربہ خرج من دین اللہ ) جس نے کسی حاکم اور امیر کو راضی کرنے کے لئے وہ بات کی جو اس کے رب کو ناراض کردے تو وہ اللہ کے دین سے نکل گیا ۔
۷۔کسی علاقہ کے امیر اور حاکم کی بہت اہم صفت یہ ہے کہ وہ تنقید کو نہ صرف یہ کہ برداشت کرے بلکہ اس کا خیر مقدم کرے ۔جو امیرآتش مزاج ہو تنقید کو سن کر برافروختہ ہوجائے وہ جز بز ہوجائے، اس کے ماتھے پر بل آجائے، اس کی نگاہ خشمگیں ، اس کا چہرہ غضب آلود، اس کی جبین پر شکن ہوجائے یعنی وہ طیش میں آجائے وہ ہرگز امارت کا اہل نہیں ہے ،وہ امیر نہیں آمر ہے ، ظالم اور جابر ہے ۔حضرت عمر نے اپنی مجلس مشاوت میں یہ فرمایا تھا کہ آپ میں سے جس کا جی چاہے مجھ سے اختلاف کرے اور جس کا جی چاہے اتفاق کرے۔ میں نہیں کہتا کہ آپ میری رائے کا ساتھ دیں ۔ حضرت ابوبکرنے عام بیعت کے بعد لوگوں کے سامنے کہا تھا کہ ’’اگر میں ٹیک کام کروں تو میری مدد کیجئے اور اگر غلط کام کروں تو مجھے سیدھا کردیجئے ۔‘‘خلافت راشدہ کے زمانہ میں تنقید اور اظہار رائے کی پوری آزادی تھی اور خلفاء ہر وقت اپنی قوم کے دسترس میں ہوتے تھے۔ حضرت عمرنے ایک بار اپنی مجلس میں پوچھا اگر میں بعض معاملات میں غلط یا ڈھیلا رویہ اختیار کروں تو تم کیا کروگے ایک صحابی نے جواب دیا ہم آپ کو تیر کی طرح سیدھا کردیں گے یہ سن کر حضرت عمر نے کہا ’’تب تم لوگ کام کے آدمی ہو‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر تنقید کا خیر مقدم کرتے تھے انہوں نے امیر کے لئے معیار قائم کردیا، جو امیر اس اسوہ پر عمل نہ کرے وہ امیر ہونے کا اہل نہیں ۔حضرت عثمان نے کبھی کس کا منہ زبردستی بند کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ اعتراضات اور تنقیدوں کے جواب میںبرسر عام اپنی صفائی پیش کی ۔خلیفہ اور رعایا میں کسی معاملہ میں اختلاف ہو تو قرآن وحدیث کو حکم بنانا ضروری ہے
۸۔ عمدہ سیرت وکردار امیر کی اہم صفت ہے ،مسلمانوں کی جماعت میں ایسا شخص ہو جو بہت متقی اور پرہیزگار ہو {ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم } اللہ کے نزدیک تم میں سب سے برگزیدہ وہ شخص ہے جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔ تقوی اختیار کرنے کاایک مطلب حسن اخلاق اختیار کرنا بھی ہے جو اچھی تربیت سے حاصل ہوتا ہے جس امیر میں مذکورہ بالا صفات نہ پائی جائیں اس کا مطلب یہ ہے کہاسے اچھے لوگوں کی صحبت اور تربیت حاصل نہیں ہوئی ہے ۔امیر کو صاحب کردار اور متقی ہونا چاہیے ۔
۹ امیرکے اندر انتظامی صلاحیت بھی ہونی چاہئے ۔ یوسف علیہ السلام نے ملک کے دگرگوں حالات کو ٹھیک کرنے لئے عزیز مصر کے سامنے جو کوالیفیکیشن( صلاحیت واستعداد) پیش کیا تھا اس میں الفاظ یہ تھے ’’ انی حفیظ علیم ‘‘ یہاں اس سے مراد انتظامی صلاحیت ہے ۔
۔۱۰ ۔ مناسب ہے کہ امیر خاص مدت کے لئے امیر ہو۔آج کل کے حالات میں مدت کا تعین ضروری ہے ۔جماعت اسلامی ہند میں ہمیشہ کچھ سالوں کے بعد امیر کے لئے نیا انتخاب ہوتا ہے ابھی چند روز پہلے تک معغروف عالم مولانا جلال الدین عمری امیر تھے اب مشہور دانشور اورخاموش مزاج مصنف سعادت اللہ حسینی امیر ہیں۔ جمیعۃ علماء کے صدر کا بھی ہمیشہ انتخاب ہوتا ہے ، تبلیغی جماعت کا امیر تازندگی امیر ہوتا ہے ، امارت شرعیہ بہار واڑیسہ وجھارکھنڈ میں امیر کے لئے دستور ہے کہ جو امیر ہو گیا وہ تا زندگی امیر باقی رہتاہے خواہ وہ ارذل العمر کو بہونچ جائے ۔ امارت شرعیہ کے دستور پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ سیاست شرعیہ کے موضوع پرقدیم لکھنے والوں نے بیہ بحث نہیں کی ہے کہ امیر کی امارت کی مدت کا تعین کیا جاسکتا ہے یا نہیں ۔ لیکن شیخ یوسف القرضاوی نے اپنی کتاب’’ فقہ الدولۃ‘‘ میں اس موضوع پر گفتگو کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ امیر کو محدود مدت کے لئے امیر بنایاجاسکتا ہے اور پھر نیا انتخاب محدود مدت کے لئے ہوسکتا ہے انہوں نے اس کے لئے دلیلیں دی ہیں ( مزید تفصیلات کے لئے دیکھئے کتاب ’’ اسلام کا نظام سیاست وحکومت ‘‘ شائع کردہ کرسنٹ‘ پبلشنگ ہاوس بلی ماران گلی قاسم جان دہلی ۶ ۔یہ کتاب امیر اور مامور دونوں کو پڑھنی چاہئے )
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.