Baseerat Online News Portal

منصوبہ بندی اور اہداف کے تعین کا جزو لا ینفک

ڈاکٹر سلیم خان

اس کائناتِ ہستی میں دو باتیں مختلف ہونے کے باوجود درست ہوسکتی ہیں ،یہ بات اکثر سمجھ میں نہیں آتی مثلاً مجھ جیسا عام مسافر سوچتا ہے کہ سفر کا کرایہ مسافت کے مطابق ہونا چاہیے یعنی طویل سفر کا زیادہ اور مختصر کا کم ہو۔ یہ بالکل معقول بات ہے۔اس کے علاوہ سہولیات سے بھی اس کا تعلق ہونا چاہیے یعنی اگر سفر آرام دہ ہے اور خدمت زیادہ کی جاتی ہے تو اس کی قیمت وصول کی جانی چاہیے۔ یہ بات بھی بہ آسانی سمجھ میں آجاتی ہےکہ منافع کی شرح یکساں نہیں ہوسکتی ۔ اعلیٰ معیار کی زندگی گزارنے والاشخص جس کا گھر اور دفتر شاندار ہے ۔ وہ اپنے ملازمین کو بھی زیادہ تنخواہ دیتا ہو تو لازماً اضافی خرچ کا بار مسافروں کی جیب پر پڑے گا اور قیمت بڑھ جائے گی لیکن جب مشاہدہ اس کے برعکس ہو یعنی اگرایک معمولی کمپنی، بغیرکسی خصوصی سہولت کے، کم فاصلے کا زیادہ کرایہ وصول کرے توحیرت ہوتی ہے۔ لوگ عام طور پر اس کو حماقت گردانتے ہیں اسی طرح اگر کوئی بڑی کمپنی بہترین سہولیات کے ساتھ لمبا سفر سستے میں کرواتی ہو تو اس میں سازش کی بوُ آنے لگتی ہے ۔ کبھی کبھار ایسا ہو بھی سکتا ہے لیکن ہمیشہ نہیں ہوتا ۔

کمپنی کے مالک اور مسافر نکتۂ نظرمیں چونکہ فرق ہوتا ہے۔ اس لیے یہ دونوں رویہ متضاد ہونے کے باوجود درست ہوتے ہیں ۔ہوائی کمپنی کا مالک منافع کے لیے جہاز چلاتا ہے ۔ جہازکسی سفرپر کم مسافروں کے ساتھ جائے یا زیادہ اس کا خرچ تقریباً یکساں ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی خواہیہ ہوتی ہے کہ ایک بھی نشست خالی نہ رہے۔ اس کے نزدیک زیادہ سے زیادہ مسافروں کو متوجہ کرنے کی کوشش بنیادی ہوتی ہے اور مذکورہ بالا چیزیں ثانوی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں ۔ یہاں پر رسد و طلب ( demand and supply) کا اصول کارفرما ہوتا ہے۔ جہاز جب خالی ہوتا ہے یعنی مسافر کم اور نشستیں زیادہ تو کرایہ کم ہوتا ہے۔جیسے جیسے سیٹ بھرتی جاتی ہے یعنی رسد کم ہوتی جاتی ہے کرایہ بڑھتا جاتا ہے بشرطیکہ کے طلب موجود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آخری وقت میں کسی معمولی ہوائی کمپنی کا کرایہ مسابقین کی بہ نسبت کئی گنا بڑھ جاتا ہے ۔ انہیں یقین ہوتا ہےکہ کوئی نہ کوئی مجبور مسافر پھنس ہی جائے گا۔ اس کو منافع خوری یا استحصال کا نام دیتے ہوئے مسافر بھول جاتے ہیں کہ فرد کی ضرورت اور اجتماعی تقاضے مختلف ہوتے ہیں ۔ مادہ پرست کاروباری دنیا اس لوٹ کھسوٹ پر متفق ہوگئی ہے لیکن خداترس تاجر اس سے اتفاق نہیں کرسکتا معلوم ہوا کہ حق و باطل کے اہداف یکساں نہیں ہوسکتے

اس صورتحال کے سبب ٹکٹ بنانے سے قبل موازنہ کا رحجان بڑھا ہے۔ اب تو مسافر کسی ٹراویل ایجنٹس سے رجوع کرنے بجائے خود ہی یہ کام کرنے لگے ہیں ۔ ٹکٹ بنانے کا عمل زندگی کا بڑا درس دیتا ہے۔ گوگل پر ہر ائیر لائن کے ویب پیج پر مختلف خدمات کی فہرست موجود ہوتی ہے مثلاً ٹکٹ مختص کرنا۔ اس میں تبدیلی کروانا ، بورڈنگ کارڈ بنوانا بلکہ شکایت درج کرانے کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے لیکن ٹکٹ بک کرنے والا فرد غیر متعلق صفحات کا مطالعہ کرنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے سب سے پہلے یہ دیکھتا ہے کہ اس کو جس مقام کا سفر کرنا ہے وہاں اس کمپنی کا جہاز جاتا ہے یا نہیں جاتا ؟ اگر جاتا ہے تو جس تاریخ کو سفر درپیش ہے اس دن وہ خدمت موجود ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو اس کا وقت مناسب ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو جہازمیں سیٹ خالی ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کرایہ کتنا ہے ؟ اور پھر دیگر کون سی ائیر لائن یہ کام کرسکتی ان کی بھی انہیں صفحات کو دیکھ کر موازنہ کرتا ہے۔ اس فطری ترتیب وتوجہ کا پاس و لحاظ زندگی کے دیگرکاموں بشمول تحریکی سرگرمیوں میں بھی رکھا جائے وہ تو نتیجہ خیز ہوتی ہیں ورنہ کنفیوزن کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ حکمت عملی میں کنفیوژن کے باوجودتقدیر سے تو منزل مل جاتی ہے مگرتدبیر سے نہیں ۔ منصوبہ بندی مناسب ترین تدابیر اختیار کرنے کا نام ہے۔ منصوبہ بندی کی بڑی رکاوٹ بیجا اندیشہ اورروایت پسندی ہے جو اس پر خاک ڈال دیتی ہے ۔ علامہ اقبال نےاس کا اظہار یوں کیا ہے ؎

آئین نو سے ڈرنا ، طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

Comments are closed.