شعبان کی پندرہ تاریخ

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
بلیاپور، دھنباد
اللہ تعالیٰ خالق ہے، اس نے آسمانوںاورزمینوںکوپیداکیا، دریاؤوںاورپہاڑوںکی بنایا، پودوںاوردرختوںکوزمین کے اندرسے نکالا، پھل اورپھول اگائے، پتھروں کاخالق بھی وہی ہے،سیاروں کوپیداکرنے والی ذات بھی اسی کی ہے، جانوروں اورانسانوںکی تخلیق بھی اسی نے کی ہے،بارش بھی وہی برساتاہے، ہوائیںبھی وہی چلاتاہے، رات کی تاریکی بھی وہی لے کرآتاہے،دن کااجالابھی اسی کی کرشمہ سازی ہے، غرض کائنات کے ذرہ ذرہ کی تخلیق اسی کی قدرت ِ کاملہ کانتیجہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات جب ہرچیزکاخالق ہے تواپنی تخلیق کردہ اشیاء میںجس طرح کی خصوصیات چاہے رکھ سکتاہے، جس طرح انسان اپنی اختراع کے اندرخصوصیات رکھتا ہے، اس اعتبارسے اللہ تعالیٰ نے دن ورات اوران کے اوقات کے بعض حصوںمیںکچھ خصوصیتیںرکھیںہیں؛ چنانچہ ہفتہ کے سات دنوںمیں’’جمعہ‘‘ کویک گونہ فضیلت حاصل ہے، اس دن کو’’سیدالأیام‘‘ یعنی ’’دنوںکاسردار‘‘ کہاگیاہے، اللہ کے رسولﷺ کاارشادہے: جمعہ کادن دنوںکاسردارہے، اسی دن آدم(علیہ السلام) کی تخلیق ہوئی، اسی دن انہیں جنت میںداخل کیاگیا، اسی دن جنت سے نکالاگیا…(المستدرک للحاکم، کتاب الجمعۃ، حدیث نمبر: ۱۰۲۶)، پھرجمعہ کے پورے دن میںایک وقت ایسابتلایاگیا، جس میں دعاردنہیںہوتی، اللہ کے رسولﷺ کاارشادہے: وفیہ ساعۃ لایسأل عبدفیہااللہ شیٹاً؛إلاآتاہ إیاہ(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، باب فی الجمعۃ وفضلہا، حدیث نمبر: ۲۹۹۵)’’اس میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ اس میںاللہ سے جوکچھ بھی مانگتاہے، اللہ تعالیٰ اسے عطاکرتاہے‘‘۔
مہینوںمیںرمضان المبارک کوسردارقراردیاہے، حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کی موقوف روایت ہے: سیدالشہورشہررمضان(کنزالعمال، حدیث نمبر: ۲۳۷۳۵) ’’مہینوںکاسرداررمضان کامہینہ ہے‘‘، ٹھیک اسی طرح شعبان کی پندرہ تاریخ بھی کئی خصوصیات کاحامل ہے، آیئے انہیںجانتے چلیں:
پندرہ تاریخ کی فضیلت
شعبان کی پندرہ تاریخ کے سلسلہ میںمختلف قسم کی فضیلتیںمنقول ہیں، وہ بے اصل نہیںہیں، مجموعۂ احادیث سے اس کاثبوت ملتاہے، محدث مبارکپوری ؒ نے اپنی کتاب ’’تحفۃ الأحوذی‘‘ میںلکھاہے: ’’نصف شعبان کی فضیلت کے سلسلہ میںمتعدد احادیث وارد ہوئی ہیں، جن سے معلوم ہوتاہے کہ ان کی اصل ہے‘‘(تحفۃ الأحوذی:۶؍۴۶۵)، اس تاریخ کی خاص فضیلتیں درج ذیل ہیں:
۱- اللہ تعالیٰ کاآسمانِ دنیاپراترنا: آج کی تاریخ کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرشِ بریںسے پہلے آسمان پراترآتے ہیںاوراللہ تعالیٰ کایہ اترنااپنے بندوںکے محبت اورتعلق کوجتلانے کے لئے ہوتاہے، حدیث شریف میںہے: إن اللہ عزوجل ینزل لیلۃ النصف من شعبان إلی السماء الدنیا( سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۷۳۹) ’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کوآسمانِ دنیاپراترتاہے‘‘، اب ہمیںخوب غورکرلیناچاہئے کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان دنیاپرنزول اجلال فرماتے ہیںتواس رات ہمیںاس کاکتناخیال رکھناچاہئے، ہمیںہراس کام باز آجاناچاہئے، جواسے ناراض کرنے والاہواورایسے امورکی طرف توجہ دیناچاہئے، جواسے خوش کرنے والا ہو۔
۲- عمومی مغفرت کرنا: اس تاریخ کی دوسری بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑی تعدادمیںاپنے ان بندوںکی بخشش کرتاہے، جومستحق جہنم ہوچکے ہوتے ہیں، حضرت عائشہؓ کی حدیث میںہے: فیغفرلأکثرمن عددشعرغنم کلب، وزادرزین: ممن استحق النار(جامع الأصول من أحادیث الرسول لابن الأثیر، حدیث نمبر: ۶۸۶۸) ’’بنوکلب کی بکریوںکے بال سے بھی زیادہ تعدادمیںمعاف کرتاہے، اوررزین میںاضافہ ہے کہ : جومستحق جہنم ہوچکے ہوتے ہیں‘‘۔
۳- دعاؤوںکاقبول ہونا: شعبان کی پندرہ تاریخ کی رات ان راتوںمیںسے ہے، جن میںدعاقبول ہوتی ہے؛ چنانچہ ایک روایت میںہے کہ : پندرہویںشعبان کی رات ایک منادی ندالگاتاہے : ہل من سائل فأعطیۃ؟ ہے کوئی سائل، جسے میںعطاکروں؟پھرجوبھی شخص سوال کرتاہے، اس کی مانگ پوری ہوتی ہے(صحیح وضعیف الجامع للألبانی، حدیث نمبر: ۶۵۳)، اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرؓ کاایک اثربھی ہے: خمس لیال، لایردفیہن الدعاء: لیلۃ الجمعۃ، وأول لیلۃ من رجب، ولیلۃ النصف من شعبان، ولیلتاالعید(شعب الإیمان للبیہقی، حدیث نمبر: ۳۷۱۳) ’’پانچ راتیںایسی ہیں، جن میںدعا رد نہیںہوتی، ایک جمعہ کی رات، دوسرے ماہ رجب کی پہلی رات، تیسرے پندرہ شعبان کی رات اورعیدن(عیدالفطروعیدالاضحی) کی دوراتیں‘‘۔
پندرہ تاریخ کوشب بیداری اور عبادت
جب یہ رات فضیلت والی ہے توظاہرہے کہ اس رات میںعبادات کاخاص اہتمام ہوناچاہئے، سلف صالحین کے بارے میںیہی منقول ہے کہ وہ اس رات جاگاکرتے تھے اورنوافل، ذکرواذکار، اورادوظائف، تلاوتِ قرآن اورتسبیح ودعامیںمشغول رہاکرتے تھے(اخبارمکۃللفاکہی:۵؍۲۳)؛ البتہ عبادات میںتعدادمقررکرنانادرست ہے کہ اس سلسلہ میںکوئی اصل موجودنہیںہے، نہ کتاب میں، نہ سنت میں اورناہی اسلاف کے عملی نمونوںمیں؛ اس لئے یہ جوعوام میںمشہورہے کہ اس رات سورکعت پڑھناچاہئے، اس کابہت ثواب ہے، ایک بے اصل بات ہے، اس بچناضروری ہے۔
پندرہ ویںشب کومانگی جانے والی خاص دعا
اس رات میںمانگی جانے والی دعاقبول ہوتی ہے؛ اس لئے اس کااہتمام ہوناچاہئے؛ البتہ اس دعاکاخاص اہتمام کیاجاسکتاہے کہ آںحضرتﷺ سے منقول ہے؛ چنانچہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیںکہ شعبان کی پندرہ تاریخ کی رات کواللہ کے رسولﷺ حالت ِسجدہ میںدعاکیاکرتے تھے اورکہاکرتے تھے: اَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ، وَاَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ،جَلَّ وَجْہُکَ’’میںتیری بخشش کے ذریعہ تیری سزاسے پناہ مانگتاہوں، میںتیری رضاکے ذریعہ تیری ناراضگی سے پناہ مانگتاہوں اورمیںتجھ سے تیری پناہ مانگتاہوں، تیری ذات بلندہو‘‘(کنزالعمال ، حدیث نمبر: ۳۸۲۹۰)۔
پندرہ تاریخ کاروزہ
اس تاریخ کے ایک عمل کے طورپرروزہ کوبھی جاناجاتاہے، اس سلسلہ میںدراصل ایک حدیث واردہوئی ہے، حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: إذاکان لیلۃ النصف من شعبان، فقوموا لیلتہا وصوموایومہا(شعب الإیمان للبیہقی، حدیث نمبر: ۳۸۲۲) ’’جب شعبان کی پندرہ تاریخ ہوتواس کی رات قیام کرواوردن میںروزہ رکھو‘‘، سندی اعتبارسے اس حدیث پرکلام کیاگیاہے، اس کی سندمیںایک راوی’’ابوبکربن ابوسبرۃ‘‘ ہیں،محدثین اورائمۂ جرح وتعدیل انہیں ’’وضاع‘‘(حدیث گڑھنے والا) قراردیتے ہیں، (جامع الأحادیث للسیوطی:۳؍۴۸۳، تحفۃ الأحوذی:۶؍۴۶۸)۔
ان راوی کی وجہ اس دن کے روزہ کوبعض حضرات کم از کم مستحب کہتے ہیں اوریہی دارالعلوم دیوبندکافتوی ہے، ایک سوال کے جواب میںلکھاگیاہے: ’’پندرہویں شعبان کاروزہ نہ توفرض ہے، نہ واجب، نہ سنت مؤکدہ ہے، زیادہ سے زیادہ یہ مستحب ہے، اس سلسلے میںحدیث آئی ہے: قوموالیلہاوصومونہارہا، یہ حدیث چوںکہ ضعیف ہے اورضعیف فضائل اعمال میںتمام محدثین کے نزدیک قابل عمل ہوتی ہے؛ اس لئے اگرروزہ رکھناچاہے تورکھ سکتاہے…‘‘ (www.darulifta-deoband.com, Fatwa ID: 699-699/B=9/1437جواب نمبر: ۶۸۱۴۱)۔
جب کہ بعض حضرات نے سنت یامستحب مانتے ہوئے اس دن روزہ رکھنے کونا درست قراردیاہے، ان علماء میںایک نمایاںنام عالم اسلام کی مشہورفقیہ حضرت مولانامفتی تقی عثمانی صاحب دامت برتہم کابھی ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’سارے ذخیرۂ حدیث میںاس روزہ کے بارے میںصرف ایک روایت ہے کہ شب براء ت کے بعدوالے دن روزہ رکھو؛ لیکن یہ روایت ضعیف ہے، لہٰذا اس روایت کی وجہ سے خاص اس پنرہ شعبان کے روزے کوسنت یامستحب قراردینابعض علماء کے نزدیک درست نہیں؛ البتہ پورے شعبان کے مہینے میںروزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہے…دوسرے یہ کہ یہ پندرہ تاریخ ایام بیض میںسے بھی ہے اورحضورﷺ اکثرہرماہ کے ایام بیض میںتین دن روزہ رکھاکرتے تھے…اگراس نیت سے روزہ رکھ لے توان شاء اللہ موجب اجرہوگا؛ لیکن خاص پندرہ تاریخ کی خصوصیت کے لحاظ سے اس روزہ کوسنت قراردینابعض علماء کے نزدیک درست نہیں‘‘(اصلاحی خطبات:۴؍۲۶۷-۲۶۸)
قبرستان جانا
اس تاریخ کاایک عمل قبرستان جانابھی سمجھاجاتاہے، اس سلسلہ میںحضرت عائشہؓ کی روایت بھی ہے، وہ فرماتی ہیںکہ (پندرہویں شعبان کی )ایک رات میںنے رسول اللہ ﷺ کونہیںپایاتومیںتلاش نکلی توکیادیکھتاہوںکہ آپﷺ ’’جنت البقیع‘‘ میںہیں(سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۷۳۹)؛ اس لئے مسلمان بھی اس بات کااہتمام کرتے ہیںکہ اس تاریخ کوقبرستان جائیں؛ لیکن اس قبرستان جانے کوویسی ہی حیثیت دے دی گئی، جیسی حیثیت اس رات کی فضیلت کی ہے؛ حالاںکہ رسول اللہ ﷺ سے ہرسال اس تاریخ کو قبرستان جاناثابت نہیں؛ اس لئے ہمیںبھی اس عمل کااہتمام اس طرح نہیںکرناچاہئے، جس طرح اہتمام رات جاگ کرعبادت کرنے کاکرتے ہیں، اس سلسلہ میںحضرت مولانامفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ نے اپنے والدماجدحضرت مولانامفتی شفیع دیوبندیؒ کے حوالہ سے بڑے پتہ کی بات کہی ہے، وہ فرماتے ہیں: (میرے والدماجدقدس سرہ) فرماتے تھے کہ جوچیز رسول اللہ ﷺسے جس درجہ میںثابت ہو، اسی درجہ میںاسے رکھناچاہئے، اس سے آگے نہیںبڑھناچاہئے، لہٰذاساری حیات طیبہ میںرسول اللہ ﷺ سے ایک مرتبہ جنت البقیع جانامروی ہے…اس لئے تم بھی اگرزندگی ایک مرتبہ چلے جاؤ توٹھیک ہے؛ لیکن ہرشب براء ت میںجانے کااہتمام کرنا، التزام کرنااوراس کوضروری سمجھنا اوراس کوشب براء ت کے ارکان میںداخل کرنااوراس کوشب براء ت کالازمی حصہ سمجھنااوراس کے بغیریہ سمجھنا کہ شب براء ت نہیںہوئی، یہ اس کواس درجہ سے آگے بڑھانے والی بات ہے‘‘(اصلاحی خطبات:۴؍۹۵۲-۲۶۰)
شب براء ت کاحلوہ
میٹھی چیزکاپکوان فی نفسہ جائز ہے، سال کے کسی بھی دن میٹھی چیزیں پکائی جاسکتی ہیں اورکھائی بھی جاسکتی ہیں؛ لیکن اس کے لئے دن اوروقت مقررکرنادرست نہیں، اس لحاظ سے شعبان کی پندرہ تاریخ کادن طے کرنااوریہ سمجھناکہ اس تاریخ کے اعمال میںسے ایک عمل اوراس کے ارکان میںسے ایک رکن ہے تونادرست بات ہے، پھراس میںیہ عقیدہ رکھناکہ آج مرنے والوںکی عیدہے اوران کی روحیںآج اپنے گھروںمیںآتی ہیںاورحلوہ کھاکریاچکھ کرجاتی ہیں توبدعات وخرافات کاحصہ ہیں، جن سے بچناہرحال میں ضروری ہے؛ کیوںکہ اللہ کے رسول ﷺ کاارشادہے: من أحدث فی أمرناہذامالیس منہ، فہورد(بخاری، حدیث نمبر:۲۶۹۷)’’جس نے ہمارے اس دین کوئی نئی بات پیداکی تووہ قابل ردہے‘‘، لہٰذا ہمیںخاص اس دن حلوہ بنانے بالکلیہ پرہیزکرناچاہئے۔
کچھ غلط کام
ہمارے بہت سارے بھائی آج کی رات ایسے کام بھی انجام دے ڈالتے ہیں، جوسراسر خلاف شرع ہوتے ہیں، جیسے: آتش بازی، محلوںاورقبرستانوںکوبجلی اورقمقموںسے سجانا، رات بھرخوش گپیوںمیں مشغول رہ کررت جگاکرناوغیرہ ، یہ ایسے امورہیں، جوشریعت کی نگاہ میںناپسندیدہ ہیں، لہٰذا ہمیںان سے مکمل طروپرہیزکرناچاہئے، اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ ہمیںخلاف شرع امورسے بچاکرعبادات کی توفیق عطافرمائے، آمین!
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.