Baseerat Online News Portal

اسوئہ یوسفی اور ہندوستانی مسلمان

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل
حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے اپنے باپ کو دھوکہ دے کر محض اس اندیشے میں کہ ان کے رہتے وہ لوگ اپنے باپ کی نظروں میں سرخرو نہیں ہوسکتے ایک اندھے کنویں میں دھکیل دیا اور ایک جھوٹی کہانی بناکر جانورکے خون میں سنا یوسف ؑکا پھٹا کرتا دکھا کرباپ کو بتایا کہ یوسف جنگلی جانور کا شکار بن گئے۔ اس طرح یوسف ؑ کواپنے راستے سے ہٹانے کی ایسی پلاننگ کی جس سے یوسفؑ کا قصہ بھی تمام ہوجائے اور کسی کو ان پر شک بھی نہ ہو۔لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ابھی یہ لوگ اپنی سازشی مہم کو پوراکرکے گھر لوٹے ہی تھے کہ ایک قافلہ جنگل کے اس راستے سے گزرا۔ کنواں دیکھ کر ٹھہر گیا اور ڈول ڈالا کر پانی نکالنا چاہا کہ حضرت یوسفؑ نے ڈول پکڑ لیا۔ قافلہ والوںنے انہیں کنویں سے باہر تو نکال دیا مگر ان کو آزاد کرنے کے بجائے اپنا غلام بنالیا اور ان کو پکڑ کر اپنے ساتھ مصر لے گئے، جہاں انھوںنے غلاموں کے بازاروں انہیں بیچ دیا۔ عزیز مصر کے درباریوںنے انہیں خرید کر بادشاہ کو تحفتاً پیش کردیا۔ اس طرح وہ اندھے کنویں سے شاہی محل تک پہنچ گئے۔ مگر ابھی ان کی آزمائشوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ ان کی جوانی اور حسن و جمال کو دیکھ کر شاہی محل کی بیگمات ان پر فریفتہ ہوگئیں اور انہیں اپنے دام میں پھنسانے کی چالیں چلنے لگیں۔ جب یوسفؑ نے اپنی دامن عفت بچاتے ہوئے گناہ میں ملوث ہونے سے انکار کردیا تو وہ ذلت برداشت نہ کرسکیں اور یوسفؑ پر زیادتی کرنے کا الزام لگادیا۔ ظاہر ہے شاہی بیگمات تھیں لہٰذا بغیر کسی تحقیق جرم کے یوسفؑ کو جیل میں ڈال دیا گیا اور یوسفؑ جیل میں اپنی پاک دامنی کی سزا کاٹتے رہے کہ اچانک ہاتف تقدیر نے حالات ایسے بدلے کہ مصر کو یوسفؑ کے علم و تفقہ کی ضرورت محسوس ہوئی پھر ان کا ٹرائل ہوا گواہوں اور ثبوتوں کی بنیاد پران کی پاک دامنی ثابت ہوئی اور نہ صرف یہ کہ وہ باعزت جیل سے رہا کیے گئے بلکہ مصر میں در آئی قحط سالی سے بچنے کے لیے انہیں مصر کے خزانے کی چابی سونپ دی گئی اور انھوںنے اپنی حکمت و دانائی سے نہ صرف مصر بلکہ آس پاس کے علاقوں کو قحط سے محفوظ رکھنے کا پختہ انتظام کیا۔ لہٰذا اندھے کنویں سے مصر کے تحت تک پہنچنے میں انہیں نہ معلوم کتنے سال لگے اور کیسے کیسے آزمائشی حالات سے گزرنا پڑا۔ لیکن ان تمام آزمائشی حالات میں جن چیزوں نے حضرت یوسفؑ کو ٹوٹنے نہیں دیا بلکہ ہمت کے ساتھ انہیں تھامے رکھا اور بالآخر کامیاب و بامراد کیا۔ اس میں پہلی چیز اللہ پر غیر متزلزل ایمان تھا، دوسری چیز صبر و استقامت تھی، تیسری چیز ان کے کیریکٹر کی مضبوطی تھی، اور چوتھی اور آخری چیز علم و حکمت،دانائی، معاملہ فہمی اور وقت کے حالات اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت تھی۔ یہی وہ عوامل تھے جنھوں نے انہیں آزمائشوں کے آگ کے دریا سے باہر نکال کر سرخرو اور سرفراز کیا۔
میں نے یہ قصہ آپ کو محض لطف بیان اور تفریح طبع کے لیے نہیں سنایا ہے۔ اگر آپ تھوڑا غور کریں گے تو حضرت یوسفؑ کے قصہ میں ایک عام ہندوستانی مسلمان کی جھلک ملے گی۔ اس لیے میں نے یہ قصہ بطور یاددہانی اور نصیحت کے لیے سنایا ہے۔
ہندوستانی مسلمان اس وقت حالات کے جس اندھے کنویں میں ڈال دیے گئے ہیں اور جس طرح سربازار نیلام کیے جارہے ہیں، ان پر جس طرح کے الزامات لگائے جارہے ہیں اور رکیک حملے کیے جارہے ہیں۔ جس طرح ہر طرف سے انہیں مارو، کاٹو، بھگاؤ اور مٹاؤ کی سیاست کی جارہی ہے، ملک میں بے وزن، بے وقعت، ذلیل اور رسوا کیا جارہا ہے، یوسفؑ کے بھائیوں کی طرح ہمارے ملکی بھائی نت نئی سازشیں رچ کر ہمیں اپنے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ کیا یوسف علیہ السلام کااسوہ ان حالات میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ یقینا کرتا ہے اور ہمیں اس کی پیروی کرنی چاہیے ۔حضرت یوسفؑ کے اسوے سے جو ہمیں سبق ملتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) ہمیں اللہ پر غیر متزلزل یقین پیدا کرنا چاہیے۔ وہی اصل حاکم اور کارساز ہے۔ وہی آزمائشوں میں ڈالتا بھی ہے اور نکالتا بھی ہے اور وہی ان حالات سے ہمیں نکالے گا بھی۔ (انشاء اللہ)
(۲) ہمیں تقدیر کے بھلے اور برے پر پورا یقین رکھنا چاہیے اور ہر وقت اور ہر حال میں اللہ سے ہی مدد مانگنی چاہیے اور دعا کرنی چاہیے کہ ہم پر ایسی آزمائش نہ ڈال جس کو ہم سہار نہ سکیں۔
(۳) حالات چاہے نرم ہوں یا گرم صبر و استقامت کا دامن کبھی ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہیے اور اپنے ایمان و اقدار پر مضبوطی سے جمے رہنا چاہیے۔
(۴) اپنے نفس و جذبات کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہیے اور چاہے جیسی بھی ترغیب ہو اپنے کریکٹر پر آنچ نہیں آنے دینا چاہیے۔ کسی کبیرہ گناہ میں ملوث ہونے سے بہتر ہے جرم بے گناہی میں ہر آزمائشی مرحلہ کو خندہ پیشانی سے قبول کرلینا چاہے وہ قید و بند ہی کیوں نہ ہو یا اور کوئی آزمائش۔
(۵) ہمیشہ اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ اپنے علم و حکمت اور دانائی میں اضافہ کرنا چاہیے اور خود کو ایسی خوبیوں سے مزین کرنا چاہیے جو وقت اور سماج کی ضرورت بن جائے اور مسائل حیات کے حل کے لیے لوگوں کے لیے ہماری شرکت و شمولیت ایک مجبوری بن جائے۔
جس زمانے میں رام جنم بھومی تحریک اپنے شباب پر تھی اس وقت ہندوستان کے شہروں اور گلیوں میں ایک نعرہ سننے کو ملتا تھا مسلمان کا دو استھان، قبرستان یا پاکستان۔ اس وقت جارج فرنانڈیز نے پوچھا تھا کہ کیا آپ میزائل مین اے پی جے عبدالکلام کو بھی پاکستان بھیج دیں گے۔ دنیا نے دیکھا کہ انہیں پاکستان بھیجنے کے بجائے انہی لوگوں نے ملک کا صدر بنادیا۔ یہ ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ ان کی عبقری صلاحیت کی وجہ سے تھا۔ پس یہ ثابت ہوا کہ اگر آپ اپنی اہلیت اور صلاحیت کا لوہا منوالیں گے تو وہ لوگ جو آپ کی جان کے دشمن ہیں یوسفؑ کے بھائیوں کی طرح پشیمان ہوکر معافی مانگنے پر مجبور ہوں گے اور اس وقت آپ عزت و اختیار حاصل ہونے کے بعد کہیں گے جاؤ! آج کسی پر کوئی گرفت نہیں، سبھی کو معافی دی جاتی ہے۔ اگر ہم مندرجہ بالا خوبیوں سے متصف ہوجائیں تو وہ دن دور نہیں جب ہم لوگوں کی ضرورت بن جائیں۔ (انشاء اللہ)

Website: abuzarkamaluddin.com
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.