علامہ اقبال :وقت کافاتح

سمیع اللہ ملک
یہ دور ہمارے عروج و اقبال کا دور نہیں، بدبختی و ادبار کا دور ہے۔ ہم پاتے کم ہیں، کھوتے زیادہ ہیں۔ اونچے درجے کے اشخاص ہم میں اولاً تو پیدا نہیں ہوتے اور اگر دوچار پیدا ہوتے ہیں تو قبل اس کے کہ ان کے جا نشین پیدا ہوں، وہ اپنی جگہ خالی چھوڑ کرچل دیتے ہیں۔ اپنی قوم کے ان لوگوں کی گنتی کریں جن کے دم سے آج ہماری آبرو قائم ہے اور پھر دیکھیے کہ ایک ایک کر کے ان کی صف کس طرح ٹوٹتی جارہی ہے اور کوئی نہیں جوان کی جگہ لینے کیلئیآگے بڑھے، قوموں کے مرنے اور جینے کا ایک اصول ہے جو ہمارے موجودہ فلسفہ قلت و کثرت سے بالکل مختلف ہے۔ ہم صرف سروں کو گننے کے عادی ہو رہے ہیں حالانکہ زندگی سروں سے نہیں بلکہ دماغوں اور دماغوں سے زیادہ دلوں سے ہے۔
مجھے یہ ڈر ہے دلِ زندہ تو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے
جن لوگوں کے سامنے معاملے کی یہ حقیقت، اپنی پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہے، کون بتا سکتا ہے کہ علامہ اقبال کی موت نے ان کے دلوں کا کیا حال کیا! دنیا تقدیر سے شکوہ سنج ہوتی ہے تو سر پیٹتی ہے، اور دشمن کی چیرہ دستیوں سے چڑتی ہے تو انتقام لیتی ہے، لیکن اقبال کا نوحہ خواں کیا کرے وہ تو صرف خدا ہی سے شکوہ کر سکتا ہے۔ قال ا ِنما اشکو بثِی و حزنِی ِل اللہِ انہوں نے کہا کہ میں اپنے غم واندوہ کا اظہار خدا سے کرتا ہوں۔(سور یوسف۔86)
غالبا 1916 یا 1917 کا واقعہ ہے۔ استاد مرحوم مولانا عبدالرحمن نگرامی، طلبہ کی مجلس میں اقبال کا شکوہ پڑھ رہے تھے۔ یہ پہلی مجلس تھی جس میں مسلمانوں نے شعر کے اثر کو آنکھوں سے دیکھا۔ آنکھوں سے اس لیے کہ اس وقت تک لوگوں کے دماغ میں شعر کی خوبیوں اور نزاکتوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں پیدا ہوئی تھی۔لوگوں کاایک سیلاب مجلس میں بیٹھا ہوا صاف سن رہا تھا کہ اقبال کے شعروں کی صدائے بازگشت در و دیوار سے بلند ہو رہی ہے اور آنکھوں سے علانیہ مشاہدہ بھی کر رہے تھے کہ آسمان سے کوئی چیز برس رہی ہے اور ساری زمین ہل رہی ہے۔ تاریخ شاہدہے کہ آج تک کوئی مجلس اتنی پر اثر نہیں دیکھی اور اس زمانے میں کئی دانش وبیناکی صلاحیتوں کے مالک افرادنے کلام اقبال کی ایک ایسی تاثیر دیکھی کہ سب کے دلوں نے اقبال جیساشاعربننے کی آرزوکی لیکن یہ آرزو اس لئیپوری نہیں کہ اقبال صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ آج علامہ اقبال کوہم سے بچھڑے 81برس بیت گئے اورہم ان کی آج بھی دلگدازاورخودی سے منورمجالس اورفلسفے کویادکرکے مجالس کاانعقادکرتے ہیں مگران کی اس مجلس کی لذیذ یاد پر رونا بھی آتا ہے اور ہنسی بھی!!ہنسی قوم کی اس سادہ لوحی پر کہ خودی کادرس سمجھناتو درکنار اقبال کے شعروں کو سمجھنے کی اہلیت بھی پیدا نہیں ہوئی اور رونا اس لیے کہ وہ عظیم الشان ہستی آج ہی کے دن اٹھ گئی تھی جو حوصلوں اور ولولوں کو دعوتِ رفعت و سبقت دینے کیلئے ایک نشان پرواز اور دماغوں کی رہنمائی و قیادت کیلئے ’’پہاڑی کا چراغ‘‘ تھی۔
شاید وکٹر ہیوگو نے کہا ہے زندگی کتنی ہی شاندار اور عظیم الشان ہو لیکن تاریخ اپنے فیصلہ کیلئے ہمیشہ موت کا انتظار کرتی ہے۔ دنیا کیلئے ممکن ہے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہو۔لیکن اقبال کیلئے تاریخ نے اپنے اس کلیہ کو توڑ دیا۔ اقبال کی عظمت کی گواہی دلوں نے ان کی زندگی میں دے دی، اب تاریخ کیلئے صرف یہ باقی رہ گیا ہے کہ وہ دلوں کے تاثرات کو محفوظ اور قلم بند کر لے۔اقبال اس بزم میں یا تو بہت بعد میں آئے تھے، یا بہت پہلے۔ اتنے بعدکہ اہلِ مجلس کے دماغوں اور دلوں میں ان خیالات و افکار کیلئے ایک چھوٹے سے نقطے کے برابر بھی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی، یا اتنے پہلے کہ جس صبح صادق کے وہ مبشر تھے نہ صرف یہ کہ افق میں ابھی اس کی صبح کاذب کا کوئی نشان بھی نمودار نہ ہوا تھابلکہ دنیا پر ابھی نصف شب کی ہولناک تاریکی چھائی ہوئی تھی لیکن اقبال کو اللہ تعالی نے تسخیرِ قلوب و ارواح کیلئے اس نفوذ میں سے ایک حصہ عطا فرمایا تھا، جسے وہ صرف اپنے ان بندوں کو مسلح فرماتا ہے جو وقت کی فاتحیت کا تاج پہن کر آتے ہیں۔ چنانچہ تھوڑے ہی دنوں میں دنیا نے دیکھا کہ جس شخص کی باتیں اہلِ مجلس کیلئے اتنی بیگانہ تھیں کہ ایک شخص بھی ان کو سمجھنے والا نہ تھا، اب اتنی مانوس و محبوب ہوگئی کہ ہر بزم و انجمن کا افسانہ ہیں اور کوئی دل ایسا نہیں ہے جو اقبال کی عظمت کے آگے جھک نہ گیا ہو۔
اقبال نے جس جرات کے ساتھ ہمارے علم و عمل کے ایک ایک گوشے پر تنقید کی اورجس بے خوفی کے ساتھ اپنی دیکھی ہوئی راہوں پر چل پڑنے کی دعوت دی، اس میں پیغمبرانہ عزیمت کی نمود ہے۔ جہاں تک جرح و تنقید کا تعلق ہے، مولانا حالی کی زبان بھی تیغ و سناں سے کم نہ تھی، ان کا تیشہ بھی ہمارے عمل و اعتقاد کے ہر گوشے کیلئے بے امان تھا۔ اس وقت سوسائٹی جن عناصر سے مرکب تھی ان میں سے ایک ایک کو چن کر حالی نے پکڑا اور قوم کی عدالت میں مجرم ٹھہرا کر ان کو بے دریغ سزا دے دی اپنی بے پناہ قوت سے ہمارے تمام اعمال و معتقدات کو ایک نئی راہ پر لگا دیا لیکن حالی کا کام آسان تھا۔ وہ قوم کو زمانے کے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔”چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی”اور زمانہ اپنی تمام رعنائیوں اور دلربائیوں کے ساتھ ان کی رفاقت کیلئے آمادہ کار ہو چکا تھا۔ ان کو جودیواریں ڈھانی تھیں وہ خود متزلزل ہو چکی تھیں اور جو عمارت بنانی تھی اس کیلئے دستِ غیب خود چونا اور گارا مہیا کر رہا تھا۔ وہ خزاں کی بلبل ضرور تھے مگر موسمِ گل کی آمد آمد ان کو شہ بھی دے رہی تھی۔مگر اقبال۔۔۔ اللہ اکبر! اس کی سطوت و جلالت کا کون اندازہ کر سکتا ہے وہ زمانے سے جنگ کرنے کیلئے آیا تھا۔’’زمانہ باتو نسازد تو با زمانہ ستیز‘‘۔
ان کو جو پیغام دینا تھا، نہ صرف یہ کہ زمانہ اس سے آشنا نہیں رہ گیا تھا بلکہ وقت کی ذہنیت بالکل اس سے مختلف قالب پر ڈھل چکی تھی اور اس کائنات کی تمام قوتیں ہم کو ایک نئی سمت میں کھینچ لے جانے کیلئے نہ صرف پوری طرح طاقتور ہو چکی تھیں بلکہ ہم نصف سے زیادہ منزل اس راہ کی طے بھی کر چکے تھے مگر اقبال تسخیر قلوب و ارواح کی ایک غیبی طاقت سے مسلح ہو کر آیا اور اس نے ہم کو ایک بڑے خطرہ سے بچا لیا اوریقینا یہ اسی کی برکت ہے کہ ہم جو ہر شکل و ہئیت کو قبول کر لینے کیلئے موم کی طرح نرم ہو چکے تھے، گو چٹان کی طرح سخت نہ ہو چکے ہوں لیکن اتنی صلابت ہم میں ضرور آچکی ہے کہ ہر انگلی ہم پر تصرف نہیں کر سکتی۔ یہ خودی کا وہی احساس ہے جس کو اقبال نے پوری قوت سے جھنجوڑ کر بیدار کرنے کی کوشش کی۔
اقبال کے فلسفے پر غور کرنے والے، اس کا سراغ نٹشے اور برگساں میں لگانا چاہتے ہیں یہ اس لیے کہ ہماری منفعل اورمرعوب ذہنیت تصور بھی نہیں کر سکتی کہ یہ بادی تند مشرق کے کسی میکدہ کی ہو سکتی ہے۔ حالانکہ اقبال کے خیالات کا اصلی مصدر قرآن ہے۔ یوں تو اقبال نے کلمہ حکمت جہاں پایا اس کو لیا لیکن اس لیے کہ وہ اپنی چیز تھی ورنہ جو خود کوہِ نورکی دولت کا مالک ہو وہ فقیروں کی کوڑیوں پر کیا نگاہ ڈالتا!
اقبال نے تو یہ ننگ تک گوارا نہ کیا کہ قرآنی صداقتوں اور عربی حکمتوں کو زمانے کا آب و رنگ دے کر خوشنما بنائے۔ وہی پرانا کیسہ اور وہی بے ترشے ہوئے نگینے۔ مگر جب اقبال نے اپنی ہتھیلی پر رکھ کر ان کو پیش کیا تو نگاہیں خیرہ ہو کر رہ گئیں۔ اقبال کی دنیا ہی الگ تھی۔ جب سب شفاخانہ حجاز میں زندگی ڈھونڈنے نکلے تو وہ ریگستانِ حجاز میں موت ڈھونڈتا تھا۔ جب مرمریں سلوں اور برقی قمقموں نے حرم کو جگمگادیا تو اس نے چڑ کر کہا،
میں نا خوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو
اور بے لوث صداقت کا اعجاز دیکھو کہ ہم صرف ڈھلی ہوئی ترشی ہوئی، ملمع کی ہوئی چیزوں ہی کے دیکھنے کے عادی ہیں۔ اقبال کی یہ سادگی ہم کو بھی دیوانہ بنا لیتی ہے اور باوجود یہ کہ بغیر عقل و منطق کو ساتھ لیے ہم ایک قدم چلنے کے عادی نہیں مگر جب اقبال کوئی بات کہہ دیتے ہیں تو کوئی نہیں جو ان سے دلیل مانگے، شاید یہ بات سچ ہے کہ سچائی اگر سچے کی زبان سے نکلے تو وہ اپنی حمایت کیلئیمنطق کی محتاج نہیں۔اقبال اور ان کی شاعری سے قوم کی جو خدمتیں انجام پائی ہیں ان پر غور کرنا مورخ کا کام ہے۔ ہم صرف ایک بات کا حوالہ دینا چاہتے ہیں جس کو صرف اقبال ہی نے کیا اوروہی کر سکتے تھے۔
اگر اقبال نہ پیدا ہوتے تو یقینا ہماے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعلیم ہمارے نوجوانوں کو اس طرح مسخ کر ڈالتی کہ ان کے اندر دین و ملت کیلئیحمیت و غیرت کا کوئی شائبہ باقی نہ رہ جاتا ، وہ جس طرح ظاہر میں مسخ ہوگئے ہیں اس سے زیادہ ان کا باطن مسخ ہو جاتالیکن اللہ تعالی نے اقبال کو بھیجا جو معلوم نہیں کس طرح ظلمات کے ان توبہ تو پردوں کو چاک کر کے ان کے دلوں میں بیٹھ گئے اور جب تک ان کی روح شعراس کائنات کے اندر کارفرما ہے اس وقت تک ان شاء اللہ ان میں دردکی ایک کسک باقی رہے گی، اگرچہ دلوں کی جگہ سینوں میں پتھر پیدا ہونے لگیں۔جب مایوسیاں گھیر لیتی تھیں، ہم اقبال کے شعروں میں ایک نشانِ امید دیکھتے تھے جب تاریکیاں چھا لیتی تھیں اقبال ہمارے لیے شعاعِ ہدایت بن کر چمکتے تھے۔ وہ روحوں کوگرما دیتے تھے، دلوں کو تڑپا دیتے تھے۔ ان کی زبان سے ہم مشرق کے ضمیر کی صدائیں سنتے تھے، ان کے ہندی نغموں میں حجاز کی لے مضطرب تھی۔ وہ زمین کے تھے مگر ان کی پرواز آسمان تک تھی۔ وہ شاعر تھے مگر ان کی شاعری میں علمِ نبوت کی روح کارفرما تھی۔وہ دنیاداروں کے بھیس میں قلندر اور دیوانوں کے رنگ میں دانائے راز تھے۔ خداوند! ہمارا یہ شاعر کہاں گیا! اس کی روح پر تیری بے پایاں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں!! ربنااغفِر لناولِاخوانِناالذِین سبقونابِالِایمانِ۔
بروزسوموار۱۷شعبان المعظم۱۴۴۰ھ۲۲/اپریل۲۰۱۹ء
لندن
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.