حکومت سازی یا خود سازی

تحریر: محمد وجہ القمر
موبائل: 7654746192
2019 لوک سبها انتخابات کے پیش نظر قبل سے ہی تمام قومی و صوبائی پارٹیوں کی منصوبہ بندی بہتر طور پر ہونے لگی تهی اور اسے جگہ بہ جگہ ماڈل کی صورت میں پیش کرکے کامیاب بهی ہوئے تهے لیکن جیسے ہی لوک سبها انتخابات کا بگل بجا، وہ اتحاد سراب کی مانند عوام کے خوابوں کو چکنا چور کرتا نظر آرہا ہے. اتحادیوں کے گٹهبندهن میں کن پارٹیوں کو شامل ہونا ہے اور کون کون سے امیدوار میدان میں اتارے جامے ہیں اس کی بہتر منصوبہ بندی نہ تو بند کمرے میں صحیح ہوسکی اور نہ ہی سر بزم- اسی وجہ سے اب تک مہا گٹهبندهن کے امیدواروں کی کهینچا تانی اور پارٹیوں کی رسہ کشی اب بهی جاری ہے بلکہ اس میں مزید تیزی آگئی ہے خاص طور پر یوپی اور بہار جسے ہندوستانی سیاست کی شاہراہ تسلیم کیا جاتا ہے. بہتر منصوبہ بندی بہتر نتیجہ کا پیش خیمہ ہوتا ہے اسی فارمولہ کے تحت NDA گٹهبندهن نے عمل کرتے ہوئے تمام پارٹیوں کو متحد کیا اور امریکہ دوار کو میدان میں اتارنے میں ذات، برادری، علاقہ اور لیڈرشپ پر خاص توجہ مرکوز کیا جس کے سبب ان کی اکثر نشستیں نکلتی ہوئی نظر آرہی ہیں جب کہ مہا گٹهبندهن غلطاں و پیچاں اپنے امیدواروں کے درمیان ہی الجه کر رہ گئی ہے.
یوپی میں سپا اور بسپا نے کانگریس کو ساتھ نہیں رکها تو بہار میں بهی راجد اور کانگریس نے سی پی آئی کو شامل نہیں کیا جب کہ کانگریس کا ساتھ پارلیمنٹ میں ہر سطح پر سی پی آئی دیتی رہی ہے اسی وجہ سے کنہیا کمار جیسے بے باک اور نوجوان لیڈر کو سی پی آئی کے ٹکٹ سے بی جے پی اور راجد کے امیدواروں سے لوہا لینا پڑرہا ہے جب کہ وہ سیدھے طور پر بیگو سرائے کے بیٹا کی حیثیت سے کامیابی کے دوراہے پر کهڑا نظر آرہا ہے حالانکہ تیجسوی یادو کو نوجوان پیڑهی کا سپہ سالار بن کر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی ضرورت تهی مگر…. وہیں مدهوبنی سیٹ پر بهی مہا گٹهبندهن کے امیدوار کو کانگریس اور راجد کے اکثر کارکن نے اندرونی مخالفت کا جال بچها کر پسپائی میں ڈالنے کا کام کررہے ہیں. اس لئے کانگریس کے سینئر لیڈر و قومی ترجمان ڈاکٹر شکیل احمد نے بهی آزاد امیدوار کی حیثیت سے پرچہ نامزدگی داخل کرکے عوام الناس کی مشکلیں بڑها دی ہیں جب کہ کانگریس نے صاف طور پر انهیں گٹهبندهن کےلئے کام کرنے کا اشارہ کیا تها. علاقہ کا جائزہ لیں تو معلوم پڑتا ہے کہ شکیل صاحب نے اپنے دور اقتدار میں کوئی خاص کام نہیں کیا ہے جس کہ وجہ سے انهیں پہچان مل سکے سوائے اس کے کہ کانگریس نے آبائی کارکردگی اور تنہا مسلم چہرہ کا خیال رکهتے ہوئے انهیں عروج بخشا تها. اب جب کہ انهوں نے اپنے عہدہ سے برخواستگی کا اعلان کردیا ہے عوام میں چہ می گوئیاں شروع ہوگئی ہیں کہ اب شکیل صاحب کا کوئی وجود نہیں اس وجہ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انهیں کوئی خاص فائدہ نہیں مل رہا. دوسری بڑی وجہ یہ بهی رہی کہ جب وہ پارٹی سے آتے تهے تب بهی انهیں مدهوبنی کی عوام نے دو مرتبہ کامیابی کا سہرا نہیں پہنایا تها پهر اب جب کہ مرکزی سطح پر لڑائی چل رہی ہے تو اب کچھ بهی کہنا ممکن نہیں ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف خود سازی کے جال میں پهنسے ہوئے ہیں. دوسری طرف علی اشرف فاطمی جنہیں راجد نے انتخاب سے قبل مدهوبنی علاقہ میں کام کر ے کے لئے بهیج دیا تها اور پهر ان کا ٹکٹ بهی کاٹ دیا گیا تو وہ اپنے آپ کو ٹهگا ہوا محسوس کرتے ہوئے بی ایس پی سے امیدوار بن کر آگئے ہیں جب کہ انهیں بهی خاموشی اختیار کر لینی چاہئے تهی تاکہ عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ نہ ہو اور وہ آنے والے وقت میں اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کرسکیں. فاطمی نے چونکہ دربهنگہ کو ادارہ جاتی حیثیت سے قومی و بین الاقوامی سطح پر پہچان دی ہے اس وجہ سے ان کی دعویداری مدهوبنی کے لئے بہترمعلوم پڑتی ہے تاکہ وہ مدهوبنی کو بهی ادارہ جاتی ترقیوں کا محور بنا سکیں اور قومی و بین الاقوامی سطح پر شناخت قائم کراسکیں. ابهی دو دن قبل فاطمی صاحب کے حق میں امیر شریعت نے بهی اپیل کیا ہے جس سے ان کی شخصیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے. ان تمام باتوں کے مد نظر عوام الناس سے اپیل ہے کہ مدهوبنی کی بہتر ترقی کو سامنے رکھ کر یک طرفہ بہتر امیدوار کے انتخاب کے لئے کوشاں رہیں.
Comments are closed.