ڈاکٹر شکیل احمد سے اچانک اظہارِ بیزاری کیوں؟

غفران ساجد قاسمی
سیاست بھی عجیب چیز ہے، کب کیا موڑ لے لے کوئی نہیں جانتا، اس وقت عام انتخابات 2019 کا زمانہ ہے، حالانکہ انتخابات تو عام ہیں یعنی لوک سبھا کا ہے، جسے پورے ملک میں منعقد ہونا ہے اور پورے ملک کی عوام کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنا ہے، لیکن پتہ نہیں کیوں، ہمارے بعض احباب نے پورے انتخابات کو تین چار سیٹوں پر ہی محدود کردیا ہے، ایسا باور کرایا جارہا ہے کہ اگر یہ تین چار سیٹیں نہیں جیتی جا سکیں تو شاید پورا انتخاب ہی بیکار ہے، ان سیٹوں میں سرفہرست کشن گنج کی سیٹ ہے جہاں نوجوان دلوں کی دھڑکن اخترالایمان صاحب امیدوار ہیں، اخترالایمان صاحب جیسے بیباک، جرآت مند اور حق کی آواز بلند کرنے والے شخص کو پارلیمنٹ ضرور پہونچنا چاہیے یہ ان کا حق بھی ہے اور ہم سب ان کے لیے دل سے دعا گو بھی ہیں لیکن جس انداز میں تشہیر کی گئی وہ انداز حکمت و مصلحت اور دور اندیشی کے خلاف تھا، بہرحال کشن گنج کا الیکشن ختم ہوتے ہی وہاں کا شور تھم چکا ہے اور اب قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے، اللہ کرے کہ نوجوان دلوں کی امید بر آئے اور بھائی اخترالایمان صاحب پارلیمنٹ پہونچنے میں کامیاب ہو جائیں، اسی طرح دوسری سیٹ بیگوسرائے کی ہے جہاں سے جے این یو کے سابق طلبہ لیڈر کنہیا کمار میدان میں ہے، یہ شخص بھی اس لائق ہے کہ اسے پارلیمنٹ پہونچنا چاہیے تاکہ وہاں مظلوموں کی آواز بن سکے، ان دونوں سیٹوں کے علاوہ سوشل میڈیا پر جو سب سے زیادہ ہنگامہ جس آخری سیٹ کے سلسلے میں ہے وہ متھلانچل کا دل کہا جانے والا مدھوبنی، مدھوبنی پارلیمانی سیٹ کی تاریخ رہی ہے کہ وہاں سب سے زیادہ مرتبہ کانگریس نے جیت درج کی ہے اس کے بعد کمیونسٹ اور بی جے پی نے، اس وقت بھی وہ سیٹ بی جے پی کے قبضے میں ہے، 2019 کے الیکشن میں مہا گٹھ بندھن نے عجیب کھیل کھیلا اور مدھوبنی سیٹ کو ایک ایسی پارٹی کی جھولی میں ڈال دیا جس نے ابھی مدت رضاعت بھی پوری نہیں کی ہے، ایسے میں وہاں کے پرانے لیڈر کو ٹھیس پہونچنا یقینی تھا، اور بالآخر انہوں نے وہی کیا جو ایسے وقت میں ایک زخم خوردہ انسان کرتا ہے.
جو لوگ ڈاکٹر شکیل احمد سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ڈاکٹر شکیل صاحب کبھی بھی پارٹی لائن سے ہٹ کر کوئی قدم نہیں اٹھاتے، پھر اتنا بڑا قدم اٹھانا جس میں خطرہ ہے کہ ان کا پورا سیاسی کیریئر ہی داؤ پر لگ جائے، بغیر کسی منصوبے اور بغیر کسی اشارے کے ڈاکٹر صاحب سے امید نہیں ہے، یقیناً ڈاکٹر صاحب نے اتنا بڑا قدم اٹھانے سے قبل اپنے حامیوں، اپنی پارٹی کے سینئر لیڈروں اور سیاست کے چانکیہ لوگوں سے ضرور مشاورت کی ہوگی، بغیر مشاورت کے اور بغیر کسی مضبوط منصوبہ بندی کے ڈاکٹر شکیل احمد ایسا نہیں کر سکتے ہیں، ڈاکٹر شکیل احمد تین پشتوں سے کانگریسی ہیں، دادا، باپ اور اب خود، وہ ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ میں کانگریسی تھا، کانگریسی ہوں اور کانگریسی ہی رہوں گا، کانگریس جیسی ملک کی سب سے قدیم پارٹی اور ملک پر سب سے زیادہ دنوں تک حکومت کرنے والی پارٹی کے برے دن بھی آئے اور اتنے برے دن آئے کہ بہت سارے کانگریسی لیڈران نے وفاداری بدلنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی، لیکن ڈاکٹر شکیل احمد نے ان برے دنوں میں بھی کانگریس کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا، انہیں زیادہ دنوں تک ایم پی بنے رہنے کا موقع تو نہیں ملا لیکن بسفی اسمبلی حلقہ سے وہ تین بار ایم ایل اے رہے، بہار حکومت میں وزیر بھی رہے، ایک دور میں بہار کانگریس کے صدر بھی رہے، ایم پی رہتے ہوئے کئی وزارت سنبھالی اور وزارت داخلہ کی ذمہ داری بھی سنبھالنے کا موقع ملا جب کہ عموماً اس وزارت کی کرسی سے مسلمان کو دور ہی رکھا جاتا ہے، 2009 اور 2014 کا الیکشن ہارنے کے باوجود بھی پارٹی میں بڑے عہدوں پر فائز رہے، پارٹی کے ترجمان رہے، جنرل سیکرٹری کا عہدہ سنبھالا، اور کئی ریاستوں کے انچارج کی ذمہ داری بھی بہتر طریقے سے سنبھالی.
اب جبکہ 2019 کا الیکشن جاری ہے، اپوزیشن پارٹیوں نے فرقہ پرست طاقتوں کو روکنے کے لیے پورے ملک میں اتحاد کی شکل پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکے، عظیم اتحاد کی عدم تشکیل میں بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں، یہاں وجوہات شمار کرانا میرا مقصد نہیں ہے، ہر سیاسی پارٹی کی اپنی سیاسی مجبوری ہوتی ہے،موجودہ الیکشن کو دیکھتے ہوئے البتہ اتنی بات تو اچھی طرح سمجھ میں آگئی کہ اب سیکولرازم کے نام پر کوئی اتحاد نہیں ہوتا ہے اگر کوئی اس کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹا ہے، اب صرف اور صرف ذاتی مفادات کی بنیادوں پر اتحاد کیا جاتا ہے، اس کی واضح مثال مدھوبنی کی پارلیمانی سیٹ ہے، کہ اگر سیکولرازم کو بچانے کی خاطر اتحاد کیا جاتا تو اس میں کانگریس کو نظر انداز کرکے ایسی پارٹی کو وہ سیٹ نہیں دی جاتی جس نے ابھی چلنا پھرنا تو دور کی بات رینگنا بھی نہیں سیکھا ہے، اسی طرح دوسری سیٹوں کو بھی مثال میں پیش کیا جا سکتا ہے، ہم دور کیوں جائیں صرف بہار کا ہی جائزہ لیں تو یہ بات سمجھ میں آجائے گی، مثلاً بیگوسرائے میں نوجوان دلوں کی دھڑکن کنہیا کمار، اگر سیکولرازم کی حفاظت مقصود ہوتی تو عظیم اتحاد کو چاہیے تھا کہ وہ وہاں سے کنہیا کمار کے مقابلے میں اپنا امیدوار نہ اتارے، اسی طرح کشن گنج میں اخترالایمان کے خلاف بھی اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کرنا چاہیے، یہ ایک حقیقت ہے جس سے آپ منھ نہیں پھیر سکتے ہیں، لہذا ہم یہ صاف طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اب اتحاد سیکولرازم کے نام پر نہیں ہوتا بلکہ ذاتی مفادات کی وجہ سے ہوتا ہے، جیسے یوپی میں کانگریس الگ ہے، بنگال میں الگ ہے، آسام میں الگ ہے اور اسی طرح دہلی میں بھی کوئی اتحاد نہیں ہوسکا ہے، تو جب آپس میں اپوزیشن پارٹیاں ہی سیکولرازم کے نام پر متحد نہیں ہیں تو ووٹر بیچارے کیا کریں گے، تو اب اگر ڈاکٹر شکیل احمد نے ایسے اتحاد کے خلاف بغاوت کیا ہے تو یقیناً ان کی بغاوت سو فیصد درست ہے، کیوں کہ ڈاکٹر شکیل احمد کو معلوم ہے کہ اتحاد کا جو امیدوار میدان میں ہے اسے کوئی دور دور تک جانتا بھی نہیں ہے، جب کہ ڈاکٹر شکیل احمد کو علاقے کا بچہ بچہ جانتا ہے، اور ہر فرد کی زبان پر ڈاکٹر شکیل احمد کا نام ہے.
ڈاکٹر شکیل احمد اپنے کارناموں کی وجہ سے کس معیار پر کھرے اترتے ہیں، اس وقت یہ میرا موضوع بحث نہیں ہے، اگر علاقے کی تعمیر و ترقی کے لئے ان کا کوئی کارنامہ نہیں تھا تو پھر تین تین بار وہ ایم ایل اے کیسے بن گئے، دو بار ایم پی کیسے منتخب ہوگئے، اگر علاقے کے افراد پہلے سے ہی اتنے باشعور تھے جتنی باشعور اور بیداری کا مظاہرہ اس وقت کررہے ہیں تو ایک سے دوبارہ کے بعد ہی علاقے سے دربدر کردینا چاہیے تھا، آخر کیوں ایسا نہیں کیا؟ ہمیشہ ڈاکٹر شکیل احمد کا ہی قصیدہ کیوں پڑھتے رہے؟ یہ اچانک سے وہی دستار وجبہ وعمامہ والے ڈاکٹر شکیل کی مخالفت میں لام بند کیوں ہوگئے کل تک ڈاکٹر شکیل کا نام لئے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا، جی ہاں یہ سیاست ہے اور سیاست صرف سیاسی افراد ہی نہیں کرتے بلکہ ہماری صفوں میں رہنے والے اہل جبہ و دستار بھی خوب سیاست کرتے ہیں اور اپنی غیر منظم اور غیر منصوبہ بند سیاست سے اپنی مٹی بھی پلید کرتے ہیں اور اپنے ساتھ اپنی صف کے تمام لوگوں کی بھی، عجیب بات ہے کہ گذشتہ دنوں مدھوبنی پارلیمانی حلقہ میں ایسی ہی سیاست ہوتی نظر آئی، ڈاکٹر شکیل احمد جو اس حلقہ سے دوبار پارلیمنٹ میں نمائندگی کر چکے ہیں وہ گٹھ بندھن کی سیاست کے شکار ہوگئے، اسی درمیان یہ شور اٹھا کہ سابق مرکزی وزیر اور راجد کے سینئر رہنما علی اشرف فاطمی مدھوبنی سے گٹھ بندھن کے امیدوار بننے والے ہیں لیکن بھلا ہو سیاست کا کہ گٹھ بندھن والوں نے یہ سیٹ ایک نوزائیدہ پارٹی کی گود میں ڈال دی، ایسے میں ڈاکٹر شکیل احمد کا مدھوبنی سیٹ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہونا تو سمجھ میں آرہا تھا لیکن علی اشرف فاطمی کا مدھوبنی سے انتخاب لڑنا حلق سے نیچے نہیں اتر رہا تھا، ڈاکٹر شکیل احمد نے اپنی پارٹی کے کارکنان کی حوصلہ افزائی پاکر پرچہ نامزدگی داخل کردیا ادھر سننے میں آیا کہ علی اشرف فاطمی صاحب بھی ہاتھی پر سوار ہو کر پرچہ نامزدگی داخل کرنے پہونچ گئے،اسی دوران حضرت امیرشریعت مدظلہ کا ایک خط وائرل کیاگیا جس میں فاطمی صاحب کو ووٹ دینے کی اپیل تھی، حالانکہ وہ خط عمومی تھا، اس میں صرف یہ لکھا گیا تھا کہ آپ لوگ علی اشرف فاطمی صاحب کو ووٹ دیں، جبکہ کسی حلقہ کا اس میں کوئی تذکرہ نہیں تھا جس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ عمومی طور پر وہ خط لکھوایا گیا تھا کہ جہاں سے یہ امیدوار ہوں وہاں کے لوگ ان کو ووٹ کریں، یہ بالکل عمومی تھا اس میں کوئی قباحت کی بات ہی نہیں تھی، لیکن حیرت اس وقت ہوئی جب اس خط کی نقل میں علاقہ کے کچھ علماء کرام نے بھی فاطمی صاحب کی حمایت میں بیان بازی شروع کردی اور ڈاکٹر شکیل احمد سے اظہارِ بیزاری کرنے لگے، اور یہ وہ لوگ تھے جو کل تک ڈاکٹر شکیل احمد کی وفاداری کو اپنے لئے جزو ایمان سمجھتے تھے، ہمیشہ ہر موقع پر ان کی مہم کا خاص حصہ ہوا کرتے تھے، علاقے کے ہر دورہ میں یہی حضرات ان کے پروگرام طیے کیا کرتے تھے، عوام کو ڈاکٹر شکیل احمد سے قریب کرنے میں ان ہی علماء کا زبردست کردار ہوا کرتا تھا، لیکن آخر ایسا کیا ہوا کہ بازی پلٹ گئی اور وہی ڈاکٹر شکیل جو کل تک محبوب تھے آج نظروں سے گر گئے، جی ہاں! اس کے پیچھے بھی لمبی کہانی ہے، اس سیاست نے ایسے ہی پلٹا نہیں مارا ہے بلکہ اس کے لیے بھی گیم پلان تیار کیا گیا ہے، میں ایک بات کہا کرتا ہوں اور اب تو میرا یقین پختہ ہوگیا ہے کہ ایسے تمام مسلم لیڈران جو مختلف سیاسی پارٹیوں سے منسلک ہیں وہ کسی بھی حال میں ملت کے لیڈر نہیں ہیں وہ صرف اپنی پارٹی کے لیڈر ہیں خواہ وہ ڈاکٹر شکیل ہی کیوں نہ ہوں، یہاں بھی ایسا ہی معاملہ ہے، مدھوبنی کے چند بااثر مسلم لیڈران جو مختلف پارٹیوں سے وابستہ ہیں وہ اب نہیں چاہتے کہ ڈاکٹر شکیل کا سورج دوبارہ طلوع ہو، رہا مسئلہ کام کے اور نکمے ہونے کے تو کوئی مسلم لیڈر کام کا نہیں ہے اور مسلمانوں کے لئے تو بالکل بھی کام کا نہیں ہے، لیکن یہاں صرف اپنی ذاتی برتری کے لئے ملت کے مفاد کو قربان کیا جارہا ہے اور اس کے لئے علماء کرام کا استعمال کیا جارہا ہے اور یہ علمائے کرام اپنے مدرسوں کے لیے چند سو یا ہزار کے چندہ کے حصول کی خاطر ملت میں انتشار پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں، جن کی حمایت میں ان حضرات نے اپنی مہم چلائی وہ میدان سے ہٹ چکے ہیں، کیوں کہ ان کے سامنے اپنا اور اپنے بیٹے کا سیاسی کیریئر ہے، وہ بیک وقت اپنا اور اپنے نوجوان بیٹے کے سیاسی کیریئر کو داؤ پر لگانا نہیں چاہتے تھے لہٰذا وہ میدان سے ہٹ گئے لیکن ان کا کیا جنہوں نے عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر شکیل احمد سے اظہارِ بیزاری اور فاطمی صاحب سے اظہارِ ہمدردی جتایا، ان کے اس عمل سے کسے فائدہ پہونچا اور کسے نقصان؟ بہرحال اس وقت ان سب کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے، اس وقت ہمارے سامنے صرف ایک مقصد ہے کہ ڈاکٹر شکیل احمد کو کامیاب کرکے پارلیمنٹ تک پہونچانا، حالانکہ موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ مشکل نظر آتا ہے لیکن اگر سیکولر ووٹ کی تقسیم کو روکنے کا مضبوط لائحۂ عمل تیار کیا جائے تو ایسا کرنے میں کامیابی حاصل ہوجائے گی، یہ الگ بحث ہے کہ جب گٹھ بندھن تھا تو ایسے میں ڈاکٹر شکیل احمد کو آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑا نہیں ہونا چاہیے، لیکن کیا کریں جب گٹھ بندھن کو ٹھگ بندھن میں تبدیل کر دیا گیا تو ایسے میں ڈاکٹر شکیل احمد کا مدھوبنی سیٹ سے کھڑا ہونا ہی وقت کا اہم تقاضا تھا جسے انہوں نے پورا کیا، اب ضرورت ہے کہ مدھوبنی میں گٹھ بندھن کو نظر انداز کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر ڈاکٹر شکیل احمد کو ووٹ کیا جائے تاکہ مدھوبنی میں فرقہ پرستوں کو لگام دیا جا سکے اور ماضی میں دوبار نمائندگی کرچکے ڈاکٹر شکیل احمد ایک بار پھر سے پارلیمنٹ میں مدھوبنی کی نمائندگی کرکے اہل مدھوبنی کی شان کو باقی رکھ سکیں اور اس طرح سے آئندہ گٹھ بندھن کرنے والے بھی اس حقیقت کو سمجھ سکیں کہ سیٹوں کی تقسیم میں زمینی حقائق کو کبھی نظر انداز نہ کرسکیں، فی الحال یہی وقت کی اہم ضرورت ہے اور تقاضا بھی، آپس کے تمام اختلافات کو بھلا کر ایک مقصد کے لیے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر شکیل احمد کو کامیاب بنانے کی بھر پور کوشش کریں اگر مدھوبنی کی عوام نے اس مرتبہ حکمت عملی اور سیاسی شعور کی بیداری کا مظاہرہ کیا تو انشاءاللہ آئندہ ہمیشہ کوئی بھی پارٹی کسی بھی غیر معروف لوگوں کو امیدوار بنانے سے پہلے ہزار بار سوچے گی اور اگر ڈاکٹر شکیل احمد کامیاب ہوگئے تو سمجھ لیں کہ علی اشرف فاطمی کی قربانی بھی کار آمد ہوجائے گی ورنہ ان کی یہ قربانی بھی رائیگاں چلی جائے گی….!
Comments are closed.