دنیا سے ہم نے کیالیا؟ دنیا کو کیا دیا ؟ (اداریہ)

از:۔مدثراحمد،ایڈیٹر،روزنامہ آج کاانقلاب،شیموگہ،کرناٹک
امت مسلمہ میں اس بات کا بڑا شکوہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان قائدین کی کمی ہے ۔ یہ شکایت صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی کی جاتی ہے۔ یہ وہی مسلمان ہیں جو فتح مکہ کے بعد دنیا کے ایک چوتھائی حصے پر اسلامی سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ عرب سے لیکر سندھ تک ، چین سے لیکر آفریقہ تک اسلامی سلطنت قائم تھی، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سلطنتیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھوٹنے لگیں۔ اورمسلمان چند ممالک کو اپنے ہاتھوں میں لئے آج حکومتیں کررہے ہیں۔ مسلمانوں کی اس بدحالی کے تعلق سے جب تذکرے کئے جاتے ہیں تو اہل علم کے درمیان یہ بات واضح کی جاتی ہے کہ مسلمان اسلام سے دور ہورہے ہیں اس وجہ سے وہ ذلیل وخوار ہورہے ہیں ۔ ہوسکتا ہے اہل علم کی یہ بات درست ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اہل علم حضرات کونسے اسلام کی بات کرتے ہیں ؟ کیونکہ اسلام نے تو پورا ضابطہ حیات ہے اوراسلام پر چلنے والے ہمیشہ کامیاب رہینگے۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے کہی ہے۔ مگر ہم جس اسلام پر چل رہے ہیں وہ ہماری نظر میں مکمل اسلام نہیں ہے بلکہ ہم مسلمانوں نے اسلام کے چند مخصوص عبادتوں کو تھامے رکھا ہےجس کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی زندگی کے چالیس سال کے دوران دنیا کو انسانیت کا پیغام دیا اور ان چالیس سالوں میں انہوں نے امین وصادق بن کر دنیا کے سامنے دنیا داری کے طریقے بتائے۔ لین دین ، وعدہ کو پورا کرنا، تجارت کےا صول،ایمانداری، سچائی، عریانیت سے پاک، والدین کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، خویش واقراباءکے حقوق، اہل وعیال کے حقوق کے علاوہ زندگی کے ہر لمحے کو کس طرح سے گذارنا چاہئے اسکی تربیت آپ ﷺ نے دی۔ آپ ﷺ نے اپنے چالیس سال کے طویل عرصے میںانسانیت کا درس دیا ۔ اس کے بعد 23 سال کے رسالت کے دور میں آپ ﷺ نے اسلام کی تبلیغ کی ، حقوق اللہ کا پیغام عام کیا ، حقوق اللہ کی تربیت دی۔ مگر آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم مسلمانوں نے حقوق اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھا ہے اور حقوق العباد کو نظرانداز کرنا شروع کیا ہے۔ جس دور سے حقوق العباد کو نظرانداز کرنے کا سلسلہ شروع ہوا وہیں سے مسلمان ذلیل وخوار ہونےلگے۔ آج ہمارا دین صرف نماز، روزہ، حج، عمرہ وزکوۃ پر محدود ہوچکا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جہاں مسلمانوں کو آخرت میں کامیاب ہونے کیلئے طریقے بتائے تھے وہیں دنیا پر حکومت کرنے کیلئے بھی تربیت دی تھی۔ لیکن ہم نے اس تربیت کو نظرانداز کردیا ہے۔ جب تک امت مسلمہ اپنے درمیان قائدین پیدا نہیں کرتیں ،اس وقت تک مسلمانوں کا وجو دخطرے میں ہی رہے گا۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ سارے کے سارے مسلمان الیکشن میں حصہ لے لیںبلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی قیادت ہر معاملے میں اورہرشعبہ میں ہو۔ ہندوستان کی بات کی جائے تو آج تجارت کے معاملے میں مارواڑی اور گجراتی طبقہ قیادت کررہا ہے۔ شیئر مارکیٹ میں جائیںتو وہاں پر بھی دیکھیں گے کہ گجراتی بنیوں کا دبدبہ ہے۔ سرکاری محکموں کا جائزہ لیں تو ان محکموں میں برہمنوں اوردلتوں کا قبضہ ہے۔ کاشت کاری ، جانوروں کی تجارت کے معاملے میں بھی مسلمان پیچھے ہیں ، تعلیمی میدان میں مسلمانوں کا وجود ہی نہیں ہے۔ ہندوستان بھر میں سوائے تین چار یونیورسٹیوں میں مسلمانوں کے ماتحت ایک بھی یونیورسٹی بھی نہیں ہے۔ بھلا ہو سرسید احمد خان کا جنہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیادرکھتے ہوئے مسلمانوں کےلئے تعلیم کا ادارہ قائم کیا تھا۔ جامعہ ملیا اسلامیہ جیسے تعلیمی ادارے کی وجہ سے ہماری ناک کٹتے کٹتے رہ گئی۔ وہیں دوسری جانب نظریں دوڑائیںتو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں عیسائی مذہب کے ہزاروں تعلیمی ادارے ہیںجہاں پر عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ عیسائی مشنیریوں کا کام بھی ہورہا ہے۔ اسپتالوں کے شعبے میں دیکھیں تو اس شعبے میں بھی غیروں کا عالم لہرارہا ہے۔ وہاں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹروں کے اعدادوشمارات نکالیں جائیں گے تو اس بات کا احساس ہوگا کہ ایک فیصد سے کم تعداد میں ڈاکٹر ، پیارامیڈیکل اسٹاف مسلمانوں میں سےہے۔ بڑے بڑے کارخانے کمپنیاں آج غیروں کے پاس موجود ہیں۔ مگر ہم مسلمان اپنے محدود طریقوں پر عمل کرتے ہوئے 70 سال پہلے جہاں تھے وہیں ہیں۔ آزادی سے پہلے مغربی بنگال ، برمااور انڈومان ونکوبار جیسے علاقوں میں مسلم تاجروں کی طاقت اس قدر مضبوط تھی کہ وہ آزاد ہند فوج کیلئے کروڑوں روپئے چندے کے طور پر دیا کرتے تھے۔ لیکن آج بد قسمتی یہ ہے کہ آج ہم اپنے لئے چندے اکھٹاکرنے کیلئے مجبور ہیں۔ ہماری بیماریوں کیلئے ہمیں چندہ کرنا پڑرہا ہے، ہماری تعلیم کیلئے چندہ جمع کرنے کی نوبت آرہی ہے، ہمارے روزگار کیلئے سود کی بنیاد پر قرضے لینے کی حالت پیدا ہوئی ہے۔ ہماری بچیوں کی شادیوں کیلئے حکومتوں سے امداد کی آس لگائے ہوئے ہیں۔ یہ سب بدحالی صرف حقوق اللہ میں کمی کرنے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ حقوق العباد میں لاپرواہی برتنے کا نےنتیجہ ہے۔ رمضان قریب ہے رمضان میں صاحب استطاعت مسلمان اپنے مالوں کا زکوۃ نکالتے ہیں ، ایک اندازے کے مطابق ہندوستان بھر میں رمضان کے مہینے میں اوسطاً 3 ہزار کروڑ روپیوں کا زکوۃ نکالتے ہیں ۔ اسی طرح سے ہرسال مسلمانوں کی بڑی تعداد عمرہ کی ادائیگی کےلئے جاتا ہے۔ ایک این جی او کی جانب سے کئے جانے والے سروے میں یہ بتایا گیا ہے کہ تقریباً 16 ہزار کروڑ روپئے سالانہ عمرہ کی ادائیگی کیلئے لوگ خرچ کرتے ہیں ان میں سے ایک حصہ ہی وہ مسلمان ہوتے ہیں جو ایک بار زندگی میں اللہ کے گھر کی زیارت کرنا چاہتے ہیں ۔ بقیہ تین تہائی لوگ ہر سال یا دو سال میں کم ازکم ایک دفعہ عمرہ کیلئے جاتے ہیں۔ یقینی طور پر اللہ کے گھر کا دیدار کرنا چاہئے،لیکن موجودہ حالات کے تنازل امت مسلمہ کے کیا حالات ہیں اس پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ان حالات پر نظرڈالنے والے لوگ بھی ہمارے قائد ہیں انکی جانب سے اگر ایک فرد کی فلاح کیلئے ہی کام کیوں نہ ہو وہ انجام دیا جاتا ہے تو یقینی طور پر اسکا اثر پورے سماج پر پڑنے لگے گا۔ آج ہم انقلاب لانے کی بات کرتے ہیں انقلابات لانے کیلئے گروہ کی ضرورت نہیں پڑتی ایک فرد کافی ہوتا ہے انقلاب لانے کیلئے، جب ایک ایک فرد سے ہر شعبے میں انقلاب آنے لگے گا تو اس کا اثر پورے سماج ہی نہیں معاشرے پر پڑے گا۔ ہماری کوشش ہونی یہ چاہئے کہ ہم نے دنیا کو کیا دیا، بلکہ یہ نہیں ہونی چاہئے کہ دنیا نے ہمیں کیا دیا۔ بقول شاعر حفیظ میرٹھیؔ
یہ بھی تو سوچئے کبھی تنہائی میںذرا
دنیا سے ہم نے کیالیا؟ دنیا کو کیا دیا ؟
(بصیر ت فیچرس)

Comments are closed.