مدوں سے بھٹکتا انتخاب

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل
لوک سبھا کے تیسرے مرحلے کا انتخاب مکمل ہوچکا ہے اور آدھی سے زائد سیٹوں پر امیدواروں کی قسمت ای۔وی۔ایم۔ میں بند ہوچکی ہے۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔
اب تک جو انتخابی سرگرمیاں رہی ہیں، اس نے ہر محب وطن، امن پسند، سنجیدہ مزاج اور قانون کی حکمرانی میں یقین رکھنے والے شہری کو اندر سے بے چین کررکھا ہے اور ملک کو جس سمت میں لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس سے وہ پریشانی محسوس کررہا ہے۔
جمہوریت ڈبیٹ ڈسکشن اور آزادیٔ اظہارِ خیال کا مدعی ہے۔ بولنے کے اختیار کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی کو گالی دی جائے یا کسی کے خلاف نفرت اور تشدد کا ماحول پیدا کیا جائے۔ الیکشن کمیشن جو سویا ہواشیر تھا، جس کو ٹی ان سیشن نے نہ صرف جگادیا تھا بلکہ غرانا بھی سکھایا تھا، مگر اس وقت الیکشن کمیشن ایک ایسا ہاتھی بن گیا ہے جس کے پاس نہ کھانے کے دانت ہی اور نہ دکھانے کے دانت۔ یہی وجہ ہے کہ اونچے اونچے دستوری عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے ساتھ ساتھ چھٹ بھئے ٹائپ کے سڑک چھاپ لیڈران بھی جس طرح کی زبان بول رہے ہیں اور اپنی دستوری مریادا اور بنیادی انسانی اخلاق اور شرافت کو بالائے طاق رکھ کر سربازار ننگا ناچ کررہے ہیں، اس کو سن اور دیکھ کر کسی بھی شریف اور امن پسند شہری کا سرشرم سے جھک جاتا ہے۔ اس طرح الیکشن جشن جمہوریت نہیں بلکہ ہماری قومی شرم (National Shame)کی علامت بنتا جارہا ہے۔
اس الیکشن میں عوام کی غریبی، نوجوانوں کی بے روزگاری، کسانوں کی بدحالی، عورتوں کے تحفظ ، بڑھتی نابرابری، علاقائی پچھڑا پن جیسے بنیادی مدے غائب کردیے گئے ہیں اور محض ضروری اور واقعی مسائل سے لوگوں کا دھیان ہٹانے کے لیے راشٹریہ واد ، راشٹریہ سرکچھا، ہندومسلم کشمکش جیسے غیر ضروری اور فرضی مدوں کو بنیاد بناکر لوگوں کو گول بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جہاں تک ملک سے وفاداری اور ملک کے دفاع کا سوال ہے تو بھارت میں وہ کون ہے جو ملک کا وفادار نہیں ہے یا اپنے ملک کا تحفظ نہیں چاہتا ہے۔ اب کسی کو یہ مالیخولیا ہوجائے کہ صرف وہی دیش بھکت ہے اور باقی سب دیش کے دشمن ہیں تو اسے اپنا علاج کرانا چاہیے۔
جب لوگ بھارت اور پاکستان کا مقابلہ کرتے ہیں تو ہمیں اس تقابل پر شرم آتی ہے۔ اگر محاورے کی زبان میں بات کریں تو اس کی مثال ویسی ہے کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔ بھارت اور پاکستان کا کوئی مقابلہ ہوسکتا ہے کیا؟ بھارت رقبہ میں پاکستان سے چار گنا بڑا ہے۔ آبادی میں ساڑھے چھ گنا بڑا ہے اور بھارتی معیشت ساڑھے آٹھ گنا بڑی ہے۔ظاہر سی بات ہے بھارت اور پاکستان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کی اب تک چار جنگیں ہوچکی ہیں اورہر جنگ میں پاکستان کو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے۔ جس کانگریس پر آج یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ آتنک واد کے معاملے میں نرم رویہ رکھتی ہے۔ اس نے ہی 1971کی جنگ میں پاکستان کا مشرقی بازو اس سے توڑ کر الگ کردیا تھا اور بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے نقشہ پرایک آزاد ملک بنادیا تھا اور پاکستان کی ۹۰ ہزار فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبورکردیا تھا۔ اس طرح تمام حالات اور واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اگر پاکستان نے پاگل پن یا حماقت کا مظاہرہ کیا تو اسے اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔جہاں تک نوکلیر تھریٹ کا سوال ہے تو دونوں ملکوں کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے۔ نوکلیر بم بارود کا گولہ نہیں ہے۔ جب تک کوئی حکمراں پاگل نہ ہوجائے اور خود کشی پر آمادہ نہ ہو وہ نوکلیر ہتھیار کے استعمال کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ بھارت کو باہری خطرہ نہیں ہے۔ یہ خطرہ ہے مگر یہ پاکستان سے کم اور چین سے زیادہ ہے۔ جارج فرنانڈیز جب بھارت کے وزیرِ دفاع تھے ، اس وقت انھوں نے چین کو بھارت کے لیے سب سے بڑا علاقائی خطرہ بتایا تھا کیونکہ چین بھارت سے رقبہ اور آبادی دونوں میں بڑا ہے۔ چین معاشی اور دفاعی اعتبار سے بھارت کے مقابلے بہت مضبوط ہے۔ چین کے پاس بھاری نوکلیر ہتھیار ہے اور بھارت اور چین کے درمیان سرحدی جھگڑے بھی ہیں۔ ایشیا میں چین بھارت اور جاپان کو اپنا معاشی حریف مانتا ہے۔ لہٰذا اپنی معاشی دفاعی برتری کے ساتھ اپنے لیے محفوظ بازار اس کی ترجیحات ہیں۔ اس لیے بھارت کوپاکستان کی طرف ضرورت سے زیادہ دھیان دینے کے بجائے چین کے بارے میں زیادہ سوچنا چاہیے۔ لیکن طاقت ور دشمن اور حقیقی خطرہ سے دھیان ہٹا کر کمزور دشمن اور فرضی خطرہ پر زیادہ توجہ اس لیے ہے کہ اس سے اندرونی سیاست گرمانے اور لوگوں کو گول بند کرنے میں مدد ملتی ہے۔ لہٰذا مدوں سے بھٹکانے کی ایک سوچی سمجھی رن نیتی کے تحت یہ کام کیا جارہا ہے۔
جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے تو اس وقت مسلمان سیاسی طور پر پوری طرح اچھوت بنادیے گئے ہیں۔ اس وقت لڑائی ہارڈ ہندتو اور سافٹ ہندتو کے بیچ ہورہی ہے۔ لہٰذا بی جے پی نے اس بار نام کے لیے بھی کسی ایک مسلمان کوٹکٹ نہیں دیا ہے۔ ایس پی، بی ایس پی نے گٹھ بندھن کے باوجود محض دس مسلم امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ کانگریس سے بھی کچھ گنے چنے لوگ ہی میدان میں ہیں۔ علاقائی پارئیوں نے بھی ہمت نہیں دکھائی ہے جہاں مسلمان 30-40فیصد ہیں وہیں وہ لڑرہے ہیں۔ گویا بھارت سیاسی طور پر مسلمان مکت راج نیتی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کے باوجود برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر۔ اس الیکشن میں مسلمانوںکو جیسی گالیاں دی جارہی ہیں اور ان کے خلاف جیسی زبان استعمال کی جارہی ہے وہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کے بغض اور نفرت کی علامت ہے۔ وہ تاریخ اور حقائق کو بالائے طاق رکھ کر خود کو اعلیٰ اور مسلمانوں کو باہری مانتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو کب کا دیس نکالا دے دیں۔ جبکہ Tony Josephنے اپنی نئی کتاب Early Indians: The Story of Our Ancestors and Where We Come from میں 612 کنکال جو انھوںنے وسط ایشیا سے ایران اور برصغیر ہند سے حاصل کیے تھے اس کے ڈی این اے کا مطالعہ کیا اور ان کا موازنہ جدید جنوبی ایشیا کے 246جینیٹک گروپ سے کرکے دیکھا تو معلوم ہواکہ ہندوستان میں جو لوگ آرین ہیں وہ دراصل خانہ بدوش ہیں جو بھارت میں یورپ اور روم سے وسط ایشیا کے راستے ایران ہوتے ہوئے ہندوستان آئے ہیں۔ لہٰذا آرین خالص یہیں کے باشندہ ہیں،یہ تاریخی اور سائنسی اعتبار سے غلط ثابت ہوتا ہے۔(تفصیل کے لیے سوامی ناتھن ایئر کا ۲۴؍اپریل کااکنومکس ٹائمز کا مضمون دیکھیں) اس لیے مسلمان کو محض ان کے عقیدے کی وجہ سے باہری اور ’دوسرا‘ ماننا جارح قوم پرستی اور فسطائیت ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ امید ہے کہ ملک کے الیکٹوریٹ سیاست کو حقیقی مدوں سے بھٹکنے نہیں دیں گے۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.