امریکی استثنیٰ بیکار

سمیع اللہ ملک
ایران کو مزید بیلسٹک میزائل تجربات سے روکنے کے لیے امریکی طیارہ بردار بحری بیڑے جان سی سٹینس کی خلیج آمد سے امکان ہے کہ چاہ بہار بندرگاہ کو امریکی پابندیوں سے استثنی دلانے کی بھارتی امیدیں دم توڑ جائیں گی۔ اس بندرگاہ نے وسط ایشیائی ریاستوں اور بھارت کے مربوط معاشی روابط میں معاون کا کردار ادا کرنا تھا یہ بحری بیڑہ ایسے وقت خلیج پہنچا جب ٹرمپ انتظامیہ 2015 کی نیوکلیئر معاہدہ سے علیحدگی کے بعد ایران پر سخت معاشی پابندیاں عائد کر نے کے ساتھ ساتھ ایرانی قومی فوج کودہشتگردقراردے دیاہے، جس سے ممکنہ فوجی محاذ آرائی کا خطرہ بہت بڑھ چکا ہے۔ بیڑے کی دو ماہ کے لیے آمد کے ساتھ ہی چاہ بہار میں پاسداران انقلاب کے ہیڈکوارٹر پر خودکش حملہ ہوا جس میں 2/افراد ہلاک 40 زخمی ہوئے۔ سعودی اور ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی سنی جہادی گروپ انصار الفرقان نے حملے کی ذمہ داری قبول کی، ایران دعویٰ کرتا ہے کہ اس گروپ کو سعودی عرب کے علاوہ امریکا اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے۔
سعودی اخبار شرق الاوسط نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ حملہ ایرانی حکومت کے خلاف بلوچ اقلیت کے بڑھتے غصے کا عکاس ہے کیونکہ ایرانی حکومت نے چاہ بہار سے ہزاروں بلوچ خاندان بے دخل کر کے وہاں فارسی بولنے والے آباد کیے تاکہ آبادی کا تناسب تبدیل کیا جا سکے۔ علاوہ ازیں، ایرانی حکومت شام اور عراق میں لڑنے والے افغان شیعوں کو شہریت دے کر چاہ بہار میں آباد کر رہی ہے۔ اخبار نے دعویٰ کیا کہ ایران مخالف بلوچ تحریکوں نے تہران کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں، جوکہ بلوچوں کی آبائی علاقوں سے بے دخلی اور تنہائی کا شکار بنائے جانے کا منصوبہ روکنے کی ایک کوشش ہے۔سعودی عرب جوکہ ایران کے ساتھ محاذ آرائی کی امریکی پالیسی کا حامی ہے، شیعہ مخالف انتہا پسند سنی تنظیموں اور پاکستانی بلوچستان کے سرحدی اور ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان جہاں چاہ بہار واقع ہے، کے ایران مخالف مدرسوں کو بھاری فنڈنگ کرتا رہا ہے۔
جنگجوؤں کے مطابق اس فنڈنگ کا مقصد لسانی اقلیتوں میں بے چینی پیدا کر کے ایران کو غیر مستحکم کرنا تھا۔ امریکی حکام کے مطابق بحری بیڑے کی خلیج موجودگی ایرانی بیلسٹک میزائل تجربات کا جواب ہے۔ امریکی پابندیوں کی ایک وجہ ایران کو بیلسٹک میزائل تجربات سے باز رکھنا ہے۔ ایرانی حکام کا اصرار ہے کہ ان کا میزائل پروگرام دفاعی نوعیت کا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے مطابق ڈیٹرنس بحال کرنے میں ناکامی خطے میں کشیدگی کو بڑھانے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔طیارہ بردار امریکی بیڑے کی آمد اور ایران میں سعودی امریکی سرپرستی میں سیاسی تشدد کے امکانات کے باعث خلیج میں فوجی کشیدگی کا خطرہ ہی نہیں بڑھا، بلکہ افغانستان کی پیچیدہ سیکورٹی صورتحال کے باعث چاہ بہار کی بھارتی سرمایہ کاری کو ایران کے خلاف پابندیوں سے استثننیٰ ملنے کا امکان بہت معدوم ہو گیا ہے۔ ایرانی اور بھارتی حکام کو خدشہ ہے کہ امریکا کی بڑھتی فوجی موجودگی اور کشیدگی میں اضافے سے چاہ بہار کو بھارت اور وسط ایشیا کے مابین تجارتی مرکز میں تبدیل کرنے کی کوششیں بری طرح متاثر ہو سکتی ہیں، یہاں تک کہ امریکی استثنیٰ بھی بیکار ہو جائے گا۔
یہاں یہ جاننابھی ضروری ہے کہ اگرامریکااوردیگرایٹمی قوتیں میزائل ٹیکنالوجی رکھنے کاحق رکھتی ہیں توایران پرکس منہ سے پابندی لگانے کامطالبہ کرتے ہیں۔ اس وقت اسلحوں سے متعلق ایک امریکی تحقیقی ادارہ کے مطابق دنیا میں اس وقت بارہ ہزارسے زائد جوہری اسلحے ہیں۔ ان میں سے تین ہزار اسلحوں کے علاوہ یہ تمام اسلحے تسلیم شدہ جوہری قوتوں کے پاس ہیں۔ واشنگٹن کے آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے اندازہ کے مطابق چھ ہزار امریکا کے پاس پانچ ہزارروس کے پاس،350فرانس کے پاس،300چین کے پاس اور 220سے کچھ کم برطانیہ کے پاس ہیں۔ یہ پانچوں ممالک1968 میں جوہری عدم توسیع کے معاہدے(این پی ٹی)کے تحت جوہری قوت تسلیم کیے گئے تھے۔ امریکا نے 1945 میں ہی جوہری صلاحیت حاصل کرلی تھی جبکہ روس نے1949 میں،برطانیہ نے 1950 میں،فرانس نے 1960میں اور چین نے 1964 میں حاصل کی تھی۔ امریکا کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس تین ہزارجوہری وار ہیڈز ریزرو میں ہیں جبکہ روس کے پاس گیارہ ہزار کے قریب نان آپریشنل اسلحوں کا ذخیرہ ہے۔
امریکا کے جوہری پروگرام پر حال ہی میں منعقدہ سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے اوہیو سے ریپبلکن امریکی کانگریس مین ڈیوڈ ہوبسن نے کہا کہ جب ہم ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ جوہری اسلحوں کو ترقی دینے کے اپنے پروگرام سے باز آجائیں تو امریکا کی جانب سے نئے جوہری اسلحوں کی آزمائش کے اقدامات ایک منافقانہ حرکت ہو گی۔ دی آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کا اندازہ ہے کہ بھارت 45سے95کے درمیان،پاکستان 30سے 50 کے درمیان اور اسرائیل 75سے 200کے درمیان نیوکلیئر وارہیڈز رکھتا ہے۔ سی آئی اے کا کہناہے کہ شمالی کوریا،جس نے اس ہفتہ یہ اعلان کیا کہ وہ ایٹمی جوہری سرگرمیوں سے متعلق کثیرالملکی مذاکرات سے الگ ہو رہا ہے،کے پاس ایک یا دو جوہری بم ہیں۔ اے سی اے کا کہنا ہے کہ پیانگ یانگ کے پاس اسپینٹ نیوکلیئر ایندھن بھی کافی مقدار میں موجود ہیں جس سے وہ کم از کم چھ جوہری بم تیار کر سکتا ہے۔
بروزجمعرات ۲۰شعبان المعظم۱۴۴۰ھ۲۵/اپریل۲۰۱۹ء
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.