عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے

از:۔مدثراحمد،ایڈیٹر،روزنامہ آج کاانقلاب ،شیموگہ،کرناٹک:۔
بنگلور پولیس کو ایک شخص نے فون پر بتایا تھا کہ جسطرح سری لنکا میں حملے کئے جارہے ہیں اسی طرح سے جنوبی ہند کے 8 ریاستوں میں بھی حملے ہونگے۔ پولیس کنٹرول روم کو ملنے والی اطلاع پر پولیس نے فوری طور پر حرکت کرتے ہوئے تمام ریاستوں کی سیکوریٹی ایجنسیوں کو الرٹ کردیا اور دہشت گردانہ حملوں سے نمٹنے کیلئے تیار رہنے کی ہدایت جاری کی۔ دریں اثناء پولیس نے ایک شخص فرضی حملوں کی اطلاع دینے اور دہشت پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا ۔ اس شخص کا نام سوامی سندرا مورتی بتایا گیا ہے ۔ پوچھ تاچھ کے بعد پولیس نے اس بات کی اطلاع دی ہے کہ سندرا مورتی نشے کی حالت میں تھا اوراس نے نشے میں ہی پولیس کو یہ فون کال کیا تھا ۔ حالانکہ اب بھی سندر مورتی پولیس کی حراست میں ہے ، غور طلب بات یہ ہے کہ سندر مورتی سابق فوجی ہے اوراس کے بیٹے بھی فوج سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس فون کال کو انجام دینے والے سندرمورتی کے تعلق سے بتارہی ہے کہ سندر مورتی نشے میں تھا ۔ اگر یہی فون کال کسی مسلمان کی جانب سے کیا جاتا تو اس مسلمان کو انڈین مجاہدین، آئی ایس آئی ایس آئی ، لشکر طیبہ یا پھر حزب المجاہدین جیسی تنظیموں سے جوڑ دیا جاتا ،صرف اس شخص کو ہی مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاتا بلکہ اس کے رشتہ داروں ، اسکے خاندان والوں کو یہاں تک کہ اس کے محلے والوں کو بھی دہشت گردوں سے جڑے ہونے کا ٹھپہ لگادیا جاتا ۔ بھگت میڈیا اس شخص کو ایسے ایسے تصاویر کے ساتھ پیش کرتی مانو کے کابل یا بغداد سے ابھی ابھی دہشت گردی کی ٹریننگ لیکر آیا ہے۔ اس شخص کی شخصیت کو اس قدر متاثر کردیا جاتا کہ وہ عدالت سے رہا ہونے کے بعد بھی لوگوں کے درمیان دہشت گرد کے طور پر دیکھا جاتا ۔ عدالت میں فیصلہ ہونے سے پہلے اس مسلمان کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیتی ۔ لیکن کل فون کرنے والا سندرمورتی اورسندر مورتی کا تعلق اسلام سے نہیں ہے تو میڈیا سندر مورتی کو بائولا ، شرابی، یا پاگل قرار دے رہی ہےاور بار بار اس بات کا حوالہ دے رہی ہے کہ سندر مورتی سابق فوجی ہے۔ ویسے ملک میں دوغلی پالیسی کی بات نئی نہیں ہے۔ ماضی میں بھی مسلمانوں کو پٹاخے پھوڑنے پر بھی دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔ وہیں پرگیہ ٹھاکر جیسی بم بلاسٹ کی ملزمہ کو آج بی جے پی رکن پارلیمان بننے کا موقع دے رہی ہے۔ وہیں میڈیا پرگیہ کے گن گانے سے فرصت نہیں لے رہا ہے۔ ملک میں جو زہریلی سوچ پنپ رہی ہے اس سوچ کو ختم کرنے کیلئے اگر اس ملک کے دانشور طبقے کی جانب سے پہل نہیں کی جاتی ہے تو یقینی طور پر ملک میں فرقہ پرستوں کا راج ہوگا۔ اس کے علاوہ ملک میں امن وامان قائم کرنے کیلئے مسلمانوں کی جانب سے بھی پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی دہشت گردانہ حملے یا فرقہ وارانہ فسادات کے بعد اکثر ہماری تنظیمیں وجماعتیں مذمتی بیانات جاری کرتی ہیں ۔ اس کے علاوہ مسلم تنظیموں واداروں کی جانب سے ریالیاں،کینڈل مارچ اوراحتجاج بھی کئے جاتے ہیں۔ اگر ملک میں اپنے وجود کو ثابت کرنا ہے اورحقیقی طور پر ان حرکتوں کی مذمت کرنا ہے تو مسلمانوں کو صرف کینڈل مارچ کرنے اور مذمتی بیانات جاری کرنے علاوہ دوسرے طریقے سے بھی آگے آنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی نسلوں کو سرکاری محکموں میں خدمات پر مامور کروائیں، عدالتوں ، پولیس محکموں اور جانچ ایجنسیوں میں روزگار حاصل کرنے کیلئے نمائندگی کریں۔ جب ان شعبوں میں مسلمانوں کی قیادت بڑھنے لگے گی تو یقینی طور پر مسلمانوں پر ہونے والی الزام تراشیاں بھی کم ہوجائیں گی۔ جسطرح سے آج گودی میڈیا فرقہ پرستوں کی تائید اور حق پرستوں کی مخالفت کررہا ہے اس میڈیا میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی ضروری ہے۔ آج ہماری نسلیں صرف ڈاکٹر اورانجینئربننے کا ارادہ ظاہر کرتی ہیں اورانہیں ان شعبوں میں خدمات انجام دیتے ہوئے راتوں رات امیر بننے کی چاہ ہوتی ہے۔ لیکن ذرا سوچئے کہ جب ہمارا وجود ہی خطرے میں ہوتو ہماری امیری کس کام کی؟ ۔ سال 2002 میں گجرات میں ہونے والے فسادات کے دوران ہزاروں مسلمان شہید ہوئے ، ان مسلمانوں میں اکثر لوگ مالدار گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ لیکن انکی حفاظت کیلئے جو پولیس محکمہ موجود تھا اس میں 0.1فیصد سے کم پولیس اہلکار مسلمان تھے۔ اگر ایک فیصد بھی مسلمان ہوتے تو شاید کچھ نہ کچھ مسلمانوں کی حفاظت انکے ذریعہ سے ممکن ہوتی۔ گجراتی مسلمان سرکاری ملازمت کو عیب سمجھتے تھے۔ آخر میں یہی سرکاری اہلکاروں نے انکا اور انکے خاندانوں کا صفایا بڑے ہی دلیری کے ساتھ انجام دیا ۔ ہم سندر مورتی کی سوچ کے خلاف نہیں بلکہ اس کی سوچ کو مثبت طریقے سے پیش کرنے والی میڈیا اورپولیس کے رویہ کے خلاف ہیں۔ کہاوت ہے کہ وہ کریں تو چمتکار ۔ہم کریں تو بلاتکار، چونکہ یہ کام سندر مورتی نے کیا ہے اسلئے یہ چمتکار کہلائے گا ۔ اگر مسلمان کیا ہوتا تو بلاتکار بن جاتا
شاعر اسطرح کے حالات پر کہتا ہے ۔
عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں خود کشی کی ہے
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.