مہاراشٹر کی سیاست میں دبے پاؤں سے ایک انقلاب کی آہٹ ہے ، اورنگ آباد پارلیمانی چناؤ اس کی پہلی سیڑھی ثابت ہوگا

یا دوسری سرخی بھی لی جاسکتی ہے
اورنگ آباد پارلیمانی چناؤ میں دلت مسلم اتحاد ایک سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوگا ،انشااللہ
ایم آئی ایم سربراہ اسد الدین اویسی کی سحر انگیز شخصیت نے دلتوں اور مسلمانوں کو ان کا گرویدہ بنادیا
اظہر الدین۔۔۔۔۔۔ اورنگ آباد
اورنگ آباد پارلیمانی چناؤ میں دلت اور مسلم اتحاد تاریخ کے صفحات پر سنہری لفظوں میں تحریر کیا جائیگا ،چناؤ کے نتائج کیا رہینگے اس سے قطع نظر مسلمانوں اور دلت بھائیوں نے آپسی اتحاد کی جو مثال پیش کی ہے
اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی، ان گنہگار آنکھوں نے اتحاد کا ایسا منظر اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا ،ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کو میری یہ بات ہضم نہ ہو لیکن یہ تلخ حقیقت ہے، عموماً دلت بھائیوں کے تعلق سے یہ کہا
جاتا ہیکہ وہ پیسوں کے سیوا کسی کے نہیں ہوتے دلت بھائیوں نے اپنے عمل سے اس غلط فہمی کو نہ صرف دور کیا بلکہ سچے بھیم سینک کی حیثیت سے وہ تاریخی کردار ادا کیا ہے جس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے ،
تین سال پہلے جب میں اورنگ آباد پہنچا تھا اس وقت شہر کی فضاؤں میں جے بھیم جے میم کے نعرے گونج رہے تھے ، مجھے وہ نعرے مضحکہ خیز لگتے تھے کیونکہ چند ایک نوجوان جمع ہوکر یا کسی چھوٹے موٹے جلسے
میں یہ نعرے لگائے جاتے تھے ، اس وقت میری نظر میں اس نعرے کی وقعت روایتی کھوکھلے نعرے سے بڑھ کر نہیں تھی کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ اس نعرے میں زمینی حقیقت دور دور تک نہیں ہے، یہ صرف
دلتوں کو ایم آئی ایم سے جوڑنے کی ایک علامتی کوشش ہے ،لیکن یہ کسے پتہ تھا کہ پارلیمانی چناؤ آتے آتے دلت مسلم اتحاد ایک سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوگا اور یہی نعرہ جو کبھی بے معنی نظر آتا تھا ایسا انقلابی
ثابت ہوگا کہ مخالفین کی نیندیں حرام کردے گا پارلیمانی چناؤ سے پہلے ایم آئی ایم سربراہ اسد الدین اویسی کا ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر سے اتحاد کرنا پھر پرکاش امبیڈکر کو بڑے بھائی کا
درجہ دینا گزرتے وقت کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب آنا یہ سب کچھ اتنے سلیقے سے ہوا کہ ریاست مہاراشٹر کی سیاست میں سُورما کہلانے والے سیاسی بازیگر ،دبے پاؤں سے آنیوالے اس انقلاب کی آہٹ
کا اندازہ بھی لگا نہیں پائے یہی وجہ رہی کہ جب ونچت بہوجن اگھاڑی نے کانگریس این سی پی سے اتحاد کی پہل کی تو ونچت کی اس پہل کو سرد خانے میں ڈالدیا گیا بظاہر کانگریسی لیڈروں نے پرکاش امبیڈکر سے
ملاقاتیں کیں لیکن ونچت اگھاڑی کو عظیم اتحاد میں شامل کرنا ان کا منشی کبھی نہیں رہا اس لیے جب ونچت اگھاڑی کانگریس کے ساتھ نہیں گئی تو کانگریس لیڈروں نے اوٹ پٹانگ الزامات عائد کرنا شروع کردیئے
کانگریس این سی پی نے ونچت اگھاڑی کو کمتر ظاہر کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی کیا کچھ بہتان تراشیاں نہیں کی گئی سب جانتے ہیں ، پھر چناؤ کے دوران یہ نظارہ بھی دیکھنے کو ملا کہ کانگریس ، بی جے پی اور شیوسنا
سب مل کر ایک سُر میں ونچت اگھاڑی کو کوستے نظر آئے سیاسی تگ بندیاں اپنی جگہ لیکن مجلس اتحاد المسلمین کے قائد اسدالد ین اویسی نے دلت مسلم اتحاد کے تصور کو عملی جامہ پہنا کر نہ صرف مظلوموں کو
متحد کرنے کا کام کیا بلکہ دلت بھائیوں کو بھی یہ احساس دلایا کہ دلتوں کا حقیقی خیرخواہ ، کوئی اور نہیں بلکہ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کا خون اور اُن کا پوتا پرکاش امبیڈکر ہے اس لحاظ سے نہ صرف دلت مسلم اتحاد کی
بنیاد ڈالی بلکہ دلت بھائیوں کو بھی پرکاش امبیڈ کر کی قیادت کو تسلیم کرنے پر مجبور کردیا ان معنوں میں برملا طور پر یہ کہا جاسکتا ہیکہ پرکاش امبیڈکر کو اگر آج حقیقی معنوں میں دلتوں کا لیڈر تسلیم کیا جارہا ہے تو
دلتوں میں اس شعور کو بیدار کرنے کا سہرہ بیرسٹر اسدالدین اویسی کے سر جاتا ہے ، اسد الدین اویسی نے ہی کانگریس لیڈروں کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ونچت بہوجن اگھاڑی کے صدر اور ڈاکٹر بابا صاحب
امبیڈکر کے جانشین پرکاش امبیڈکر کو مہاراشٹر کی سیاست میں ان کے شایان شان مقام دیدو ایم آئی ایم پارلیمانی چناؤ میں اپنا ایک بھی امیدوار کھڑا نہیں کریگی بلکہ کانگریس کے حق میں تشہیری مہم چلائے گی اسد
اویسی کے اسی بیان کے بعد کانگریس کے رویے میں پرکاش امبیڈکر کے تعلق سے نمایاں تبدیلی دیکھی گئی اور پچھلے پارلیمانی چناؤ میں پرکاش امبیڈکر کی شکست کا سبب بننے والی کانگریس اس مرتبہ آکولہ میں
پرکاش امبیڈکر کے خلاف اپنا امیدوار کھڑا نہ کرنے کا اعلان کرنے پر مجبور ہوئی یہ اور بات ہیکہ اس پر کانگریس نے عمل نہیں کیا لیکن اس سے پرکاش امبیڈکر کا ہی قد اونچا ہوا اور اس کا کریڈٹ بھی اسد اویسی کو
ہی جاتا ہے ، دراصل پرکاش امبیڈکر اور اسد الدین اویسی نے مل کر دلت مسلم اتحاد کی جو بنیاد رکھی ہے اس کے دور رس نتائج ظاہر ہونے والے ہیں اور سیاسی مخالفین اس بات کو بخوبی جانتے ہیں یہی وجہ رہی کہ
کانگریس نے آکولہ میں پرکاش امبیڈکر کے خلاف ایک مسلمان کوٹکٹ دیا یعنی ایک تیر میں دو نشانےسادھنے کی کوشش کی وہ اس طرح کہ ایک طرف مسلمانوں پر احسان کردیا اور دوسری جانب اگرخدا نہ
خواستہ پرکاش امبیڈکر کو شکست ہوجاتی ہے تو دلتوں کو یہ باور کیا جائیگا کہ دیکھو تمھارے لیڈر کو مسلمانوں نے ووٹ نہیں دیا یہ دراصل ودھان سبھا چناؤ کی تیاری ہے تاکہ ونچت اگھاڑی کو ایک طاقت بن کر
ابھرنے سے پہلے ہی اس کے پر کتر دیئے جائیں لیکن پارلیمانی چناؤ میں دلت مسلم اتحاد نے ثابت کردیا کہ مخالفین کی تمام تر چالیں الٹی پڑھنے والی ہیں اس کا بہترین نظارہ اورنگ آباد پارلیمانی چناؤ میں دیکھنے کو ملا
اورنگ آباد پارلیمانی سیٹ کے لیے جیسے ہی ایم آئی ایم کی جانب سے امتیاز جلیل کو امیدواری کا اعلان ہوا کئی برسوں سے ایم پی بننے کی چاہ میں انتھک محنت کرنے والے نام نہاد سیکولر لیڈروں کے چہرے فق ہوگئے
تھے یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ خود سیکولر ازم کے ٹھیکدار حلقوں میں یہ بازگشت نمایاں طور پر سنائی دی، پھر شروع ہوا بہتان تراشیوں کا دور، اس پر بات نہیں بنی تو ایم آئی ایم کے کارپوریٹرس اور خیر خواہوں
کو ورغلانے کی کوشش کی گئی ، یعنی حوصلہ شکنی کے لیے کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی پچھلے اٹھائیس دنوں میں سیاسی مخالفین ہر روز ایک نیا شوشہ چھوڑتے رہے اور ان کے زر خرید حواری دلت مسلم بستیوں میں گھوم
کر جائزہ لیکر اپنے آقاؤں کے کانوں کو خوش کرتے رہے ، اس کھیل میں سیاسی کارندوں کی بھاگ دوڑ اور تگ و دو تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اسے ستم ظریفی ہی کہا جائیگا کہ خود کو صحافی کہلانا پسند کرنے والے چند
نمایاں چہرے بھی دلالی کے دلدل میں پھنسے نظر آئیں ، مسلمانوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی کہ کیا تم اتنے گئے گزرے ہو کہ دلتوں کو تمھیں اپنا بھائی کہنا پڑھ رہا ہے کیا ہم پر اتنے برے دن آگئے ؟
یعنی کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ایک لیڈر نے تو شہر کے پورے گراؤنڈ بک کروانے کا ڈنکا پیٹ دیا اور اس کے حواری روز یہ ڈفلی بجاتے رہے کہ اسد اویسی اب کہا ں جلسہ کرینگے کیسے خطاب کرینگے کیا لوگ جمع
بھی ہونگے مخالفین کی سازشیں کچھ کارگر ہوتی یا اثر دکھاتی اس سے پہلے یہ اطلاع ان پر بم بن کر گری کہ ایم آئی ایم سربراہ اسد الدین اویسی تین دن اورنگ آباد میں مقیم رہینگے اور تشہیری مہم میں بھر پور حصہ
لینگے پھر چشم فلک نے وہ نظارہ دیکھا جیسے دیکھنے کے لیے قومی میڈیا بھی اورنگ آباد شہر کی خاک چھاننے پر مجبور ہوا پانچ ہزار کروڑ کی جائیداد کا مالک خاندانی رئیس حیدرآباد کی سیاست پر پچھلے چالیس برسوں سے بلا
شرکت غیرے جس کا سکہ چلتا ہے، وجیح شخصیت کا مالک جس کی خندہ پیشانی کی دشمن بھی داد دیتا ہے جس کی ایک آواز پر پوری قوم لبیک کہتی ہے ،گودی میڈیا بھی جس کی بے باکی کا قائل ہے ایسی بااثر طلسماتی
شخصیت ،نقیب ملت اسد الدین اویسی اور نگ آباد شہر کی تنگ گلیوں، اوبڑ کھابڑ راستوں پر گھر گھر جاکر لوگوں سے بڑے ادب و التماس سے ملتا ہے ، مسلمانوں سے دعاؤں کی اپیل کرتا ہے ، غیر مسلم برادران سے
خندہ پیشانی سے پیش آتا ہے ، سکھوں کو گلے لگاتا ہے ، دلت بزرگ سے سب سے پہلے ووٹ ڈالنے کی درخواست کر تا ہے سن رسیدہ خواتین اور بزرگوں کے سامنے سر جھکاکر دعاؤں کی درخواست کرتا ہے ، ملت
کی عزت دار ماؤں نے اپنے چہتے لیڈر کو نہ صرف سر آنکھوں پر بٹھایا بلکہ کھلے دل سے اس کی بلائیں لیں ، اسم اعظم باندھا اور بارگاہ الہی میں اس کی سرخروئی کی دعائیں مانگی، عثمان پورہ میں اسد اویسی ایک بڑی بی
سے دعائیں لیکر جب آگے بڑھ گئے تو میں نے جاکر بڑی بی سے پوچھا اماں کون تھا یہ، بڑی بی نے فوری کہا بیٹے اسد اویسی ہے نا ،دیکھ اللہ نے اتنے بڑے لیڈر کومیرے دروازے تک پہنچا دیا میری تو ساری مرادیں
پوری ہوگئی اللہ اسے اچھا رکھے، دلت بہنوں نے اسد اویسی کی آرتی اتاری پھول نچھاور کیے اور قدم سے قدم ملاکر سچے بھیم سینک ہونے کا ثبوت دیا چلچلاتی دھوپ میں ایم آئی ایم سربراہ اس گلی سے اس گلی پہنچتے
رہے ان کی عقابی نظریں فوری تاڑ لیتی کہ کس سے ملاقات کرنی ہے او ر وہ بھیڑ میں سے راستہ بناکر اپنے چاہنے والوں سے جاکر ملتے اسد اویسی کے اس منفرد انداز نے اورنگ آباد کی عوام کو ان کا گرویدہ بنادیا
،تین دن میں پورے شہر میں کوئی بستی ایسی بچی نہیں جہاں ایم آئی ایم قائد نہیں پہنچے روہیلہ گلی میں ایک دورویش سے سامنا ہوگیا تو برجستہ انداز میں کہا کہ دو فقیر ایک جگہ مل گئے فرق صرف اتنا ہیکہ میں
اورنگ آباد کے غیور عوام سے ووٹ کی بھیک مانگنے آیا ہوں پھر اس دوریش کو نہ صرف اپنے گلے سے لگایا بلکہ باری تعالی کی شان میں حمد پیش کرنے کی درخواست بھی کرڈالی اور ہزاروں نوجوان اس خوش کن
لمحات سے لطف اندوز ہوتے رہے اتنا ہی نہیں پھر اس دوریش کو اپنی طرف سے نذرانہ بھی پیش کیا، اسد اویسی نے منچلے نوجوانوں کو بھی مایوس نہیں کیا اور انھیں سیلفی لینے کا موقع دیا یعنی ایم آئی ایم قائد نے دل
جتینے کا کوئی موقع نہیں گنوایا دلت بستیوں میں لوگوں کے مسائل سنیں اور اپنے ساتھیوں کو اس کا نوٹس لینے کی ہدایت کی دن میں پیدل ریلیاں اور رات کے جلسوں میں اسد اویسی کی شلعہ بیانی نے وہ جوش وہ ولولہ
پیدا کیا جس کے آگے ساری سازشیں چکنا چور ہوگئی ا ور مخالفین کے سارے ہتھکنڈے اپنی موت آپ مرگئے حالانکہ ایک منجھے ہوئے سیاستداں نے اشارۃ کہا تھا کہ پہلے نقیب ملت آئیں گے ماحول گرمائیں گے
کچھ دیر تک گرمی برقرار رہے گی اور پھر گاندھی جی رات کے اندھرے میں ماحول ٹھنڈا کردینگے دعوی کرنے والوں نے تو یہاں تک دعوے کردیئے تھے کہ پولنگ کے روز امتیاز جلیل صبح دس بجے کے بعد
کہیں دکھائی نہیں دینگے لیکن ساری دشنام طرازیاں دھری کی دھری رہ گئی سارے دعوے ہوا ہوگئے ، پولنگ کے روز ان گنہگار آنکھوں نے اولین ووٹ ڈالنے والی ایک نقاب پوش خاتون سے جب بات کی تو
محترمہ نے برجستہ کہا کہ میں فجر کی نماز پڑھ کر سیدھا ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ بوتھ پہنچی اور بسم اللہ کہہ کر پہلا ووٹ ڈالا کیونکہ برسوں بعد اللہ نےہمیں ایک تعلیم یافتہ باصلاحیت اور سب کو ساتھ لیکر چلنے والا
امیدوار عطا کیا ہے اور اللہ کی ذات سے امید ہیکہ میں نے جیسے ووٹ دیا ہے وہ کامیاب ضرور ہوگا۔ یہ جذبہ آخری لمحات تک برقرار رہا یہ تو مسلم علاقوں کا حال تھا دلت بستیوں میں حیران کن مناظر دیکھنے کو ملے
دو ہزار چودہ میں جو منظر نامہ مسلم بستیوں میں نظر آیا تھا وہی نظارہ دلت بستیوں میں اس وقت دیکھنے کو ملا کئی بڑے لیڈروں کو الٹے پاؤں لوٹنا پڑا ، دلت بھائیوں نے ایثار اور قربانی کی جو مثال پیش کی ہے اس کی
نظیر نہیں ملتی یہاں تک کہ کچھ علاقوں میں نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے دلت کارندوں کو خاموش رہنے پر مجبور کردیا گیا اس جذبے کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے ، یہ حال کسی ایک بستی کا نہیں بلکہ کیا پارلیمانی حلقے
کے تمام علاقوں میں صرف ایک لہر چل رہی تھی اور اس لہر نے مخالفین کے چہروں پر مایوسی طاری کردی اب کٹر مخالفین بھی اس بات کا اعترف کررہے ہیں کہ دلت مسلم اتحاد کا ایسا فقید المثال مظاہرہ اس سے
پہلے کبھی نہیں دیکھا ان سب کے باوجود سیٹ کی ہار اور جیت کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے لیکن ہمارے دلت بھائیوں اور بہنوں نے جو سیسہ پلائی دیوار کی مانند ساتھ دیا اس کا سہرہ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے پوتے
پرکاش امبیڈکر کو جاتا ہے پرکاش امبیڈکر کے ایک ’’آدیش ‘‘پر پوری دلت برادری نے آپسی اتحاد کا ایسا عملی ثبوت پیش کیا جیسے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا اب مسلمانوں کی ذمہ داری ہیکہ وہ دلتوں کے اس
احسان کی پاسداری کریں کیونکہ یہ اتحاد ہی سیاست میں آپ کی حصہ داری کو یقینی بناسکتا ہے ، ورنہ ہمارے قائدین نے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے کھوٹے سے بندھ کر دیکھ لیا اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت
نہیں بس اتنا اشارہ کافی ہیکہ نہ صرف مہاراشٹر کا سیاسی منظر نامہ بدل رہا ہے بلکہ سیاست کے قومی منظر نامے میں رنگ بھرنے میں علاقائی پارٹیاں اہم کردار ادا کرنے والی ہیں ایسے میں ہمارا کردار کیا ہوگا یہ اورنگ آباد کے دلت بھائیوں اور مسلمانوں نے اپنے عمل سے ثابت کردیا اب مخالفین کو بھی ہوش کے ناخن لے لینا چاہیئے ۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.