2019 کا الیکشن اور ہدف کا تعین

(بیگوسرائے اور کنہیا کے تناظر میں)
احمد نور عینی
کسی بھی منصوبہ میں کامیابی کے لیے تین باتوں کا واضح ہونا بہت ضروری ہے: وژن ، مشن اور گول (ہدف)۔ 2019 کے لوک سبھا الیکشن کے لیے ہمارا وژن تو بہت واضح ہے اور وہ ہے مودی کو اقتدار سے بے دخل کرنا، مگر گول (ہدف) مبہم ہے، گول کے مبہم ہونے کی وجہ سے ہمارا مشن بھی کنفیوژن کا شکار ہے۔ بیگو سرائے کے تناضر میں سوشل میڈیا کے کمنٹس اور اسٹیٹس پڑھنے کےبعد اندازہ ہوتا ہے کہ سوشلستان کے متفسبکین کے نزدیک مجموعی اعتبار سے درج ذیل تین باتیں گول(ہدف)ہوسکتی ہیں:
1- پارلیمنٹ میں مسلم ممبران کاتناسب بڑھانا
2- مسلم مسائل کی نمائندگی اور مسلم پرسنل لاز کا تحفظ کرنا
3- عوامی مسائل کی نمائندگی کے ساتھ ہندوتو کی بخیہ ادھیڑنا
ان تینوں اہداف کا بالترتیب تجزیہ کرنے کے بعدہم اس نتیجے پر پہنچیں گے بیگوسرائے میں کس کو ووٹ دینا بہتر ہوگا۔
1- پارلیمنٹ میں مسلم ممبران کا تناسب بڑھانا
اس سلسلہ میں درج ذیل نقاط قابل ذکر ہیں:
• یہ اپنے آپ میں سرے سے کوئی ہدف ہی نہیں؛ بل کہ مذکورہ بالا بقیہ دو اہداف تک پہنچنے کا ایک وسیلہ وذریعہ ہے۔
• مسلم ممبران کی کثرتِ تعداد یقینا خوش آئند ہے لیکن اگر لبوں پر تالے ہوں اور زبانِ حق پر چھالے ہوں تو یہ کثرت شرمندگی کا باعث بھی بن جاتی ہے۔
• نیشنل پارٹیوں سے جیت کر ایوانوں میں جانے والے مسلم ممبران کے نزدیک پارٹی کے مفادات مقدم ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے مفادات کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے ۔
• کسی بھی مسئلہ پر آواز اٹھانے کے لیے مسلم قائدین اپنی پارٹی کی پالیسی کے تا بع ہوتے ہیں، تین طلاق کے مسئلے میں ہم نے اس کا مشاہدہ کر لیا ہے۔
¤ مذکورہ بالا نقاط سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلم ممبران کی کثرتِ تعداد یقینا خوش آئند ہے ؛ لیکن اس کو ہدف اساسی بنالینا مناسب نہیں۔
2- مسلم مسائل کی نمائندگی اور مسلم پرسنل لاز کا تحفظ
اس سلسلے میں درج ذیل نقاط قابل ذکر ہیں:
• مسلم پرسنل لاز میں وہ قوانین آتے ہیں جن پر عمل کر نا مسلمانوں پر بہرحال ضروری ہے ، خواہ اسلامی حکومت ہو یا غیر اسلامی ، اس لیے ان قوانین کی حفاظت از حد ضروری ہے۔
• مسلم پرسنل لاز کی اہمیت کے پیش نظر یقینا یہ بات ہمارے مقاصد میں ہونی چاہیے؛ لیکن کیا ملک کے حالیہ چناؤ میں اسے ہدف اساسی بنانا ضروری ہے؟ اس کے جواب کے لیے درج ذیل نقاط پر غور کرنا ہوگا:
• مسلم پرسنل لاز میں دخل اندازی در اصل ایک بڑے منصوبہ کا حصہ ہے، اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ ہندوستان کو غیر ملکی سنسکرتی (تہذیب) سے پاک کیا جائے اور ہندوستان کے سیکولر دستور کو مسخ کیا جائے تاکہ آگے کی راہ ہم وار ہوسکے۔
• ہندوتو کی بیخ کنی کو ہدف اساسی بنانے سے دستور کا تحفظ ہوگا اور دستور کے تحفظ سے مسلم پرسنل لاز کا تحفظ بھی آسان ہوگا۔
= مسلم پرسنل لاز کے تحفظ کو ہدف اساسی بنانے میں درج ذیل خدشات ہیں:
• مسلم امت کا کردار محدود ہوجائے گا وہ انسانیت کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہے گی۔
• ہماری سیاسی پالیسی برادران وطن کی دلچسپیوں سے خالی ہوجائے گی جس کے نتیجہ میں برادران وطن کے ساتھ مل کر کوئی مشرکہ محاذ بنانا مشکل ہوگا۔
• ہندوتو وادیوں کو یہ موقع ملے گا کہ وہ خالص اسلامی ایشوز چھیڑکر ہندو مسلم سیاست کے خاکے میں اپنی پسند کا رنگ بھر سکیں۔
• مسلم قوم دفاعی پوزیشن میں آجائے گی ۔
= مسلم پرسنل لاز کا تحفظ درج ذیل طریقوں کو اپنا کر کیا جاسکتا ہے:
• ایسے وکلا تیار کیے جائیں جو مسلم پرسنل لاز کی حقانیت وافادیت اور اہمیت وضرورت کو قانونی زبان میں عقلی ومنطقی دلیلوں کے ساتھ ثابت کر سکیں۔
• ایسے ممبران کو ایوانوں تک پہنچایا جائے جو سنگھی نظریات کی سنگینی کو سمجھتے ہوں، بھارتی دستور پر یقین رکھتے ہوں، گنگا جمنی تہذیب کو ملک کی زینت سمجھتے ہوں اور ان سب کے ساتھ اپنےمنہ میں زباں رکھتے ہوں۔
• ڈبیٹ کے ایسے ماہرین تیار کیے جائیں جو میڈیا پر جاکر الزامی اور تحقیقی جواب دے کر سنگھیوں کو خاموش کرسکیں اور اسلام کی حقانیت کو ثابت کر سکیں۔
• سماجی سطح پر مسلم پرسنل لاز کے تعلق سے شعور بیدار کیا جائے تاکہ حکومت عوام کو ان مسائل میں الجھا کر اصل مدوں سے توجہ نہ ہٹاسکے۔
مسلم پرسنل لاز کے تحفظ کے لیے اوپر ذکر کیے گئے طریقے اپنا کر مقصد تک پہنچنے کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، سر دست ہم مختصر مدتی منصوبہ بندی کی بات کر رہے ہیں اس لیے دونوں کو آپس میں گڈ مڈ نہ کیا جائے۔
¤ مذکورہ بالا نقاط سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلم پرسنل لاز کا تحفظ ہماری شریعت کا تحفظ ہے اس لیے اسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ؛ لیکن ہندوستان کی سیاست میں اسے ہدف اساسی نہیں بنایا جاسکتا۔
3- عوامی مسائل کی نمائندگی کے ساتھ ہندوتو کی بخیہ ادھیڑنا:
اس سلسلے میں درج ذیل نقاط قابلِ ذکر ہیں:
• عوامی مسائل کا لفظ عام ہے، مسلم وٖغیر مسلم سب کے مسائل اس میں شامل ہیں۔
• ہندوتو کا موضوع ایک ایسا فکر ی اور نظریاتی موضوع ہے کہ اس کے سمجھنے کے لیے ساورکر ، گولوالکراور ہیڈ گوار وغیرہ کو پڑھنا اور سمجھنا ہوگا۔
• ہندوتو کے مفکرین اور سنگھی مصنفین کو پڑھ لینے اور سمجھنے لینے کے بعد اندازہ ہوگا کہ سنگھی نظریات اس ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
• ہندوتو کے خطرے کا ادراک ہوجانے کے بعد سارے ایشوز پھیکے نظر آتے ہیں اور الیکشن کے لیے طے کیے دیگر اہداف ثانوی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔
• ہندوتو کی ذہنیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، یہاں تک کہ بہت سی سیکرلر سمجھی جانے والی پارٹیاں بھی اس سے متاثر ہورہی ہیں ، جس کو نرم ہندوتو سے تعبیر کیا جارہا ہے۔
• ہندوتو کی ناکامی میں دستور کا تحفظ ہے، دیگر مذاہب کی تہذیبوں کی بقا ہے، ہندو مسلم منافرت کا خاتمہ ہے، مذہب پر عمل کرنے کی آزادی کی ضمانت ہے، ہندوستان کے سیکولر ڈھانچے کا استحکام ہے، امن وسلامتی کی ماحول سازی ہے۔
¤ مذکورہ بالا نقاط سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہندوتو والا پہلو اس قابل ہے کہ اسے ہدف اساسی بنایا جائے، اس کو ہدف اساسی بنانے میں دیگر اہداف کا حصول بھی آسان ہوجاتا ہے۔
اب تک کے تجزیہ کے بعد درج ذیل ترتیب کی بنیاد پر الیکشن میں امیدوار کو ترجیح دینا مناسب ہوگا۔
• عوامی مسائل کی نمائندگی کے ساتھ ہندوتو کی بخیہ ادھیڑنا
• مسلم مسائل کی نمائندگی اور مسلم پرسنل لاز کا تحفظ کرنا
• پارلیمنٹ میں مسلم ممبران کاتناسب بڑھانا
< کسی امیدوار کے ذریعہ اگر مذکورہ بالا تینوں امور پورے ہوسکتے ہوں تو اسے ووٹ دیا جائے
< اگر ایسا کوئی امیدوار نہ ہو تو پھر اس امیدوار کو ووٹ دیا جائے جس کے ذریعہ پہلی اور دسری باتیں پوری ہوسکتی ہوں
< اگر ایسا کوئی امیدوار نہ ہو تو پھر اس امیدوار کو ووٹ دیا جائے جس کے ذریعہ پہلی بات پوری ہوسکتی ہو
¤ ترجیح کی ان تینوں صورتوں میں ہدف اساسی حاصل ہورہا ہے۔
< اگر ایسا کوئی امیدوار نہ ہو تو پھر اس امیدوار کوووٹ دیا جائے جس کے ذریعہ دوسری اور تیسری باتیں پوری ہوسکتی ہوں
< اگر ایسا کوئی امیدوار نہ ہو تو پھر اس امیدوار کو ووٹ دیا جائے جس کے ذریعہ دوسری بات پوری ہوسکتی ہو
< اگر ایسا کوئی امیدوار نہ ہو تو پھر اس کو ووٹ دیا جائے جس کے ذریعہ صرف آخری بات پوری ہوسکتی ہو
< اگر ایسا بھی کوئی امیدوار نہ ہو تو پھر کسی ایسے امیدوار کو ووٹ دیا جائے جس کا نقصان اس کے فائدے سے کم تر ہو
ترجیحات کی مذکورہ بالا ترتیب پر اگر غور کیا جائے تو کنہیا کمار دوسرے نمبر پر آتے ہیں جب کہ تنویر صاحب اگر آواز اٹھاتے ہیں تو چوتھے نمبر پر اور اگر آواز نہیں اٹھاتے ہیں تو چھٹے نمبر پر آتے ہیں_
* اس پورے تجزیہ کا ماحصل یہ ہے کہ بیگوسرائے میں کنہیا کو ووٹ دینا زیادہ بہتر ہوگا۔
سوشل میڈیا پر ایک بڑا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ کنہیا کو ووٹ دینے سے مسلم قیادت کا بحران اور بڑھ جائے گا اس لیے مسلم قیادت کے بقا کے لیے تنویر صاحب کو ووٹ دینا چاہیے، درج ذیل نقاط پر غور کرنے سے یہ اعتراض دور ہوسکتا ہے:
• مسلم قیادت کا ایشو طویل مدتی منصوبہ بندی سے تعلق رکھتا ہے، جب کہ بیگوسرائے میں کس کو ووٹ دیا جائے اس کا تعلق مختصر مدتی منصوبہ بندی سے ہے، دونوں کو خلط ملط کرنا کسی طور مناسب نہیں۔
• تنویر صاحب اگر مسلم قیادت کے’’ آئی کون‘‘(Icon) ہوتے تو یقینا کنہیا پر انھیں ترجیح حاصل ہوتی۔
• ترجیحات کی ترتیب میں ہم نے کنہیا کو دوسرے نمبر پر رکھا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ کنہیا مسلم قیادت سے فائق نہیں ہے۔
کنہیا سے کچھ صاف صاف باتیں
ہم آپ کو آپ کے اس ماضی کی وجہ سے ووٹ دے رہے ہیں جس میں آپ نے مودی لہر کی ہوا اکھاڑ کے رکھ دی ، آپ نے دلائل کی بنیا د پر ہندوتو اور سنگھ وادکی بنیادیں ہلادیں، آپ نے بی جے پی اور سنگھ کے نمائندوں کو ناکوں چنے چبوادیے۔ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کا مستقبل آپ کی ماضی سے مختلف نہیں ہوگا، آپ کم زوروں کی آواز بنیں گے، مظلوموں کی فریاد بنیں گے، دستور کی حفاظت کریں گے ، ہندوتو کی بخیہ ادھیڑیں گے،اپنے کسی بھی تبصرے سے بھارت کے کسی بھی سماج کا دل نہیں دکھائیں گے، اپنے مخصوص کمیونسٹ نظریہ کی بنیاد پر اگر مسلم پرسنل لاز کی حقانیت کو ثابت نہیں کرسکتے تو الزامی جواب دے کر معترضین کو لاجواب کر دیں گے، رفاہی اور فلاحی کام کریں گے ، روزی روٹی کپڑا مکان کے مسائل کو آپ اپنی ترجیحات میں رکھیں گے ظالموں کی کلائیاں موڑیں گے، نفرت کی دیواریں توڑیں گے اور حاکم وقت کے گریبانوں سے کھیلیں گے، آپ سے امید کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم آپ کے محتاج ہیں، ہم برابری کی سطح پر آپ سے یہ امید کرتے ہیں، اگر آپ ہماری امید پر پورے نہیں اترے تو ہمارا ہاتھ بھی آپ کے گریبان سے دور نہیں ہوگا :
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
Comments are closed.