علاقائی سپرپاوربننے کاخواب چکناچور

سمیع اللہ ملک
اس سے قبل27فروری کو پاکستان سے عسکری سطح پرمناقشے کے نتیجے میں دوبھارتی دولڑاکا طیاروں کی تباہی اورایک پائلٹ کی گرفتاری نے اقوام عالم کے سامنے علاقائی سپرپاور ہونے کاسارابھرم ختم ہوہی چکاتھا ،عالمی برادری کے سامنے شرمندگی کابوجھ ابھی ختم نہیں ہواتھاکہ امریکاکی طرف سے ایف سولہ طیاروں کے بارے میں بھارت کا ایک اورجھوٹ دنیاکے سامنے آگیاجس کے بعدخودبھارت کے تجزیہ کاراورصحافی یہ کہنے لگے ہیں کہ بھارت کوعلاقے میں جوبالادستی کسی نہ کسی طورمیسرتھی،مودی کی حماقت سے اس کابھی جنازہ نکل گیاہے۔ وہ ختم ہوتی جارہی ہے۔بھارت کو اپنے پڑوسیوں کا وہ اعتماد حاصل نہیں رہاجو چندبرس پہلے تھااور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ خطے میں بہت کچھ تبدیل ہو چکاہے اوران تبدیلیوں کامقابلہ کرنے میں مودی کو رسوائی کے سوااورکچھ نہیں ملا۔
دو تین برس سے معاملات کچھ عجیب شکل اختیار کرگئے ہیں۔ خطے میں چین کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک میں چینی قیادت کے نقوشِ قدم آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چین نے خود کو بڑے پیمانے پر منوانے کی بھرپورتیاری کررکھی ہے۔وہ غیرمعمولی حد تک فعال ہوچکاہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں علاقائی سپرپاورکی حیثیت سے بھارت کی موت واقع ہوچکی ہے اوررہی سہی کسرحالیہ پاک بھارت معرکہ آرائی سے سامنے آگئی ہے جس کے بعدعسکری لحاظ سے ایک نیاطاقتور پاکستان سامنے آیاہے جس نے خودکونہ صرف ساری دنیاکے سامنے خودکو منوا لیاہیبلکہ بھارت کوخاصاعبرتناک سبق بھی سکھادیاہے۔اس حقیقت سے بھی انکارممکن نہیں کہ بھارت کے پڑوس بنگلادیش،سری لنکا،نیپال،بھوٹان اورمالدیپ میں رونماہونے والی تبدیلیوں نے ملاجلاماحول پیداکردیا ہے۔ بنگلادیش میں بھارت نوازحکومت ہے،نیپال کے بارے میں ایسانہیں کہاجاسکتا۔جس طرح پاکستان نے سری لنکامیں دہشتگردی ختم کرنے میں اس کی مددکی ہے اس کے بعدسے سری لنکاکامعاملہ بھی نمایاں طورپربھارت کے حق میں نہیں ۔ مالدیپ میں صدرعبداللہ یامین نے اپوزیشن سے تعلقات کشیدہ ہوجانے پرہنگامی حالت نافذ کررکھی ہیاور سب سے بڑھ کر یہ کہ بھوٹان میں اب ایک انتہائی تواناآوازاٹھ رہی ہے کہ بھارت پرانحصارکم کیاجائے۔
مودی کی انتخابات جیتنے کیلئے میڈیامیں اربوں روپے کی سرمایہ کاری بھی پسپائی اختیارکرتی جارہی ہے اوراب پرنٹ،ٹی وی اورآن لائن (سوشل میڈیا)سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ بھارت اپنے پڑوسیوں سے(یعنی ان کی حمایت اورمحبت)محروم ہوتا جارہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تاثربھی تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے کہ جہاں چین ہرمعاملے میں بھارت سے کہیں زیادہ طاقتورہے،اب وہاں خطے میں پاکستان پربھی غیرمعمولی حدتک بھروساکیاجاسکتا ہے۔مین اسٹریم اورسوشل میڈیا میں کچھ لوگوں کی باتوں سے یہ تاثربھی سامنے آرہا ہے کہ بھارت گِھرتا جارہا ہے،ڈوب رہا ہے اوریہ کہ چین اورپاکستان کااشتراک ہرمعاملے میں اس سے بازی لے جاتا دکھائی دے رہا ہے۔اس حوالے سے تمام معاملات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔بھارت کادعوی تھاکہ اس نے اپنے پڑوسیوں کے ہاں جمہوری روایات کو پروان چڑھانے میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ بنگلادیش میں فوجی آمریت ختم کرکے جمہوریت قائم کرنے میں مددکی لیکن بنگلہ دیش کی فوج میں "را”کی مددسے سینکڑوں بنگلہ دیش فوجیوں کی ہلاکت نے سارابھانڈہ پھوڑدیااوررہی سہی کسرحسینہ واجدکی آمریت نے پوری کردی ہے۔ نیپال میں بادشاہت کوجمہوریت میں تبدیل کرنے کیلئے بھی "را”کاخونی کردارسب کے سامنے ہے اوراب نیپال تیزی سے چین کے ساتھ اپنے روابط بڑحارہاہے جس نے مودی سرکارکوایک اورناکامی سے دوچارکردیاہے۔کل تک کئی پڑوسی ممالک بھارت نوازکہلاتے تھے،ان ممالک کی سیاست میں بھارت ایک فیصلہ کن عامل کے طورپرکارفرماتھا،بیشتر پڑوسیوں کی سیاست اور اہم سیاسی فیصلوں میں بھارت کواہم عمل دخل تھالیکن اب بھارتی پالیسیوں کومستردکرنے کاعمل شروع ہو چکا ہے۔
بھارت کے بیشترپڑوسی اپنے فیصلے اب خودکرنے کی پوزیشن میں آرہے ہیں۔ان کے بیشترفیصلوں پربھارت کااثرتقریبانہ ہونے کے برابردکھائی دے رہاہے۔اس سے قبل بہت سے فیصلے حالات کے دباواورمصلحت کے ہاتھوں مجبور بھارتی پالیسیوں سے ہم آہنگ دکھائی دیتے تھے لیکن اب یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ علاقائی معاملات میں اب چین اپناکردارکھل کر ادا کر رہا ہے۔وہ بیشترامورمیں اپنی موجودگی نمایاں طورپرثابت کرنیکیلئے کوشاں ہے۔ بنگلادیش، سری لنکااورمالدیپ کی چین نے بھرپورمالی معاونت کی ہے۔تجارت بھی بڑھائی ہے۔سرمایہ کاری کادائرہ بھی وسعت اختیارکررہاہے۔ان ممالک کو چین اسلحہ اورمتعلقہ ٹیکنالوجی بھی دے رہا ہے۔ ان تمام ممالک میں چین کے نقوشِ قدم واضح طورپردیکھے جاسکتے ہیں جس کوروکنے کیلئے مودی سرکارامریکاکے سامنے شب وروزدہائی دے رہاہے۔
بھارت کواب دوڑدوڑکرچین کے برابرآناپڑرہاہے اوربنگلادیش،سری لنکااورنیپال میں چین ہراعتبارسے بھارت کانعم البدل بن کرابھراہیجس سے بھارت بہت زیادہ خوفزدہ ہیں
جبکہ نیپال اوربھارت کے درمیان اب بھی اوپن بارڈرہے۔کم وبیش دس لاکھ نیپالی ورک پرمٹ کے بغیربھارت میں کام کررہے ہیں۔ بھارت کی حکومت اب بھی ایک لاکھ 27 ہزارگورکھا(نیپالی)سپاہیوں کوپنشن اداکررہی ہے۔بنگلادیش،سری لنکااورمالدیپ میں بھارت نے بنیادی ڈھانچے کو مستحکم بنانے والے متعدد منصوبے مکمل کیے ہیں۔ نیپال اور بھوٹان کا بھی بہت حد تک بھارت ہی پرانحصاررہا ہے اوربھارت کایہ دعویِ ہے کہ اس نے بنگلادیش سے سرحدی تنازع ختم کرلیاہے اورکم وبیش آٹھ ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کی ہے ۔سری لنکا میں ریلوے نیٹ ورک کو جدید دورکے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر غیر معمولی توجہ دی ہے اوراب بھی بنگلادیش میں توانائی کے متعدد منصوبوں پر بھی کام ہورہاہے، بنگلادیش میں بھارت کے تعلیمی اورثقافتی اثرات بھی غیر معمولی ہیں لیکن پھربھی یہ ممالک تیزی سے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کیوں بڑھارہے ہیں؟عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق1971اور1990 میں بھارتی کردارنے یہ ثابت کیاہیکہ وہ دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کررہاہے اوراس کے سرپرعلاقائی سپرپاوربننے کابھوت سوار ہے ۔ ان دوانتہاوں کے ہاتھوں خطہ عدم توازن سے دوچارہے جس کی بھارت کوبھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
بروزاتوار۲۳شعبان المعظم۱۴۴۰ھ۲۸/اپریل۲۰۱۹ء
لندن
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.