‘‘کئی زبانوں کے ایک انسان ’’ کی رحلت کا سانحہ

بدر الحسن القاسمی
(کویت)
‘‘سمیر عبد الحمید’’ یا ‘‘سمیر نوح’’ ایک ایسا نام ہے جسے اردو زبان واد ب کے غیر ملکی عاشقین میں سرفہرست ہونا چاہئے۔
انہوں نے اردو زبان وادب کی بے مثال خدمت انجام دی ہے، متعدد ادبی ثقافتی اور دینی کتابوں کو عربی زبان میں منتقل کیا ہے شعری دیوان اردو کے سفرنامے اور بعض ناول وافسانے بھی انہوں نے عرب قارئین تک پہنچائے ہیں۔
افسوس ہے کہ اردو زبان اور ثقافت کا یہ عاشق زار، درجنوں کتابو ں کا مصنف محمد بن سعود یونیورسٹی میں لسانیات کا سابق پروفیسر اور جاپان کی ایک اہم یونیورسٹی کا استاذ ‘‘سمیر عبد الحمید ابراہیم نوح’’ اپنے کمالات اور تمام خصوصیات کے ساتھ ہم سے رخصت ہوگیا اور جاپان سے اس کے اچانک انتقال کی خبر آگئی اس طرح ‘‘کئی زبانوں کا ایک انسان’’ ہم سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگیا۔ اور وفات بھی اپنے وطن سے دور ایسی جگہ ہوئی جو ہماری نظرون میں دیار غیر ہے لیکن خود اس نے اسے بھی اپنا وطن هي بنا لیا تھا۔
سمیر عبد الحمید عجیب وغریب خصوصیات کے مالک اور اجنبی زبانوں پر جلد قابو پالینے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے تھے جس طرح اردو ادب پر انہوں نے دسترس حاصل کرلی تھی اسی طرح جاپانی زبان اور جاپانی تہذیب وثقافت سے مانوس ہوکر کئی کتابیں لکھ ڈالیں ۔
انگلش اور بعض دوسری زبانوں سے بھی واقف تھے اس لئے ان کا اچانک اس دنیا سے رخت سفر باندھ لینا ایک سانحہ سے کم نہیں ہے ۔
مصائب اور تھے پر ان کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے
ان کے نام سے آشنا تو اس وقت سے تھا جب وہ ریاض میں مقیم تھے اور جامعۃ الامام میں لسانیات کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ اور اردو کی کئی کتابیں عربی میں منتقل کرکے شہرت حاصل کرچکے تھے اور غیر عربوں کو عربی زبان سکھانے سے متعلق ادارہ میں کام کررہے تھے لیکن غالباً ان سے پہلی ملاقات حج کے موسم میں سعودی وزارت حج کی طرف سے مدعو مہمانوں کے ساتھ مکہ مکرمہ کے ایک کانفرنس ہال میں ہوئی تھی۔
ان کی پیدائش مصر کے مشرقی صوبہ میں فلاحوں یا کاشتکاروں کے ایک خاندان میں ہوئی تھی تعلیم کے مراحل قاہرہ میں پورے کئے چنانچہ بی اے اور ایم اے کی ڈگری قاہرہ یونیورسٹی سے حاصل کی لیکن ڈاکٹریٹ کی ڈگری ۱۹۷۸ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ان کو ملی۔
اپنی زندگی کا بڑا حصہ انہو ں نے اردو زبان وادب کی خدمت میں گزار دیا اردو کتابوں کے ترجمہ کے علاوہ اردو سیکھنے کے قواعد لکھے اور اردو میں استعمال ہونے والے عربی کے الفاظ کی ڈکشنری بھی تیار کی اور اردو کے سفرنامے مکتوبات اور شاعری، ناول، افسانے سبھی کے نمونے عربی میں پیش کئے۔
بعد میں جب جاپان منتقل ہوگئے تو بھی اردو ادب سے ان کی شیفتگی برقرار رہی، اور ان کی نگارشات کے نمونے سامنے آتے رہے۔
انہوں نے اقبال کے دیوان ‘‘ارمغان حجاز’’ کا ترجمہ کیا ‘‘اسرار خودی اور رموز بیخودی’’ کا تعارف ‘‘الأسرار والرموز’’ کے نام سے کرایا اور اس کی تشریح کی، اقبال کے فکر وفلسفہ اور ادب کا بھی تعارف کرایا ۔
مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی ‘‘مقام صحابہؓ’’ کا ترجمہ کیا، منظور نعمانی صاحب کی ‘‘ایرانی انقلاب’’ کا ترجمہ ‘‘الثورۃ الإیرانیۃ فی المیزان’’ کے نام سے کیا اس کے علاوہ مودودی صاحب اور وحید الدین خاں صاحب کی بھی متعدد کتابیں انہوں نے عربی میں منتقل کیں۔
قاضی سلیمان منصورپوری کی مشہور کتاب ‘‘رحمۃ للعالمین’’ کا ترجمہ بھی انہوں نے کیا ہے۔
دیگر ادبی کتابوں میں مولانا عبد الماجد دریابادی کا سفر نامہ حج خواجہ حسن نظامی کا سفر نامہ اور مولانا مسعود عالم ندوی کی كتاب‘‘چند ماہ دیار عرب میں’’ کے ترجمے بھی ان کی تصنیفات میں شامل ہیں۔
ان کی بعض کتابوں اور مقالات کے عنوانات اس طرح ہیں:
• أدب الرحلات فی الہند
• اتجاھات الترجمۃ والتفسیر القرآنی بالأردو
• تعلیم اللغۃ العربیۃ لغیر الناطقین بھا
• معجم الألفاظ العربیۃ فی الأردو
• الأدب الأردی
• القواعد الأساسیۃ لدراسۃ الأردیۃ
• تعبیرات المحادثۃ العربیۃ
• الأدب النسائی فی الہند
• رمضان فی أدب شبہ القارۃ الہندیۃ
• مکۃ المکرمۃ وأثرھا فی فکر الشیخ رحمۃ اللہ الکیرانوی
جاپان منتقل ہوجانے کے بعد جاپان کی تہذیب وثقافت اور وہاں کے باشندوں سے روابط قائم کرنے اور برقرار رکھنے کے اصول وآداب پر بھی انہوں نے متعدد کتابیں لکھی ہیں جن میں سے ایک کویت کی وزارت اوقاف نے ‘‘روافد’’ کے ادبی وثقافتی سلسلہ وار پروگرام کے ضمن میں شائع کی ہے۔
سمیر عبد الحمید دنیا کے مختلف ملکوں میں ہونے والے ثقافتی سمیناروں اور کانفرنسوں میں بھی برابر شریک ہوتے رہے۔
کویت میں جب ‘‘عالم اسلام اور مسلم اقلیات’’سے متعلق انسائیکلوپیڈیا کا پروگرام شروع ہوا تو میں نے جاپان کی ‘‘مسلم اقلیت’’ کے بارے میں آرٹیکل لکھنے کے لئے ان کا نام پیش کیا تھا چنانچہ کویت میں ان کی آمد ورفت کا سلسلہ شروع ہوا اور متعدد سمیناروں اور ورکشاپوں میں شریک ہوئے اور میری تنقیدوں کو بڑے حوصلہ سے سنتے اور جواب دینے کی کوشش کرتےرہے، انہوں نے مراجع ومصادر نہ ہونے اور مذہب کی بنیاد پر اعداد وشمار فراہم نہ ہونے اور مساجد وغیرہ کا مستند ریکارڈ نہ ہونے کے باوجود دو ڈھائی سو صفحات پر مشتمل بہترین آرٹیکل لکھا جس سے ان کی سلیقہ مندی اور جدید فنی خصوصیات (رسوم بیانیہ) یا “Statistics” وغیرہ كيساتھ تحریر لکھنے کا ہنر ظاہر ہوتا ہے۔
ان کی شخصیت کے امتیازی پہلو کا جائزہ لیا جائے تو ہر معاشرہ میں گھل مل جانے کا مزاج نئی زبانوں پر جلد قدرت حاصل کرلینے کی صلاحیت اور اپنے خیالات کو مؤثر طور پر اور خوبصورتی سے پیش کرنے کا سلیقہ کہا جاسکتا ہے۔
ریاض میں رہے تو ایک اچھے استاذ اور قابل مصنف کی حیثیت سے اپنی شناخت برقرار رکھی اور اردو سے عربی میں ترجمہ ان کا امتیاز سمجھا جاتا رہا۔
جاپان گئے تو وہاں بھی اپنے حق میں ماحول کو سازگار بنالیا اور جاپانی کلچر سے خود کو ہم آہنگ کرلیا۔ اور ایک جاپانی خاتون سے شادی بھی کرلی۔
وہ مصریوں میں مصری، جاپانیوں میں جاپانی، اور اردو کے ادبی حلقوں میں برصغیر کی ثقافت کے دلدادہ نظر آتے تھے اور اپنے اخلاق اور سلیقہ مندی سے بہت جلد لوگوں کو گرویدہ بنا لیتے تھے۔
اردو، عربی، انگلش، جاپانی سبھی زبانوں سے مناسبت کی وجہ سے خیال ہوتا ہے کہ ‘‘کئی زبانوں کا ایک انسان’’ اس دنیا سے رخصت ہوگیا ہے اور ایک بڑا خلا چھوڑ کر گیا ہے، جلد مانوس ہوجانے والی مومنانہ خاصیت ان میں بھرپور تھی اور ‘‘المؤمن ألف مألوف’’ کا مصداق تھے اس لئے دعا ہے کہ :
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.