Baseerat Online News Portal

روزہ اور حواس خمسہ

ڈاکٹر سلیم خان

نبی کریم ﷺ نے فرمایا روزہ ڈھال ہے۔ وہ روزے دار کے پورے وجود یعنی سارے حواس خمسہ کی حفاظت کرتا ہے لیکن کچھ اعمال ایسے ہیں جو انہیں سوراخوں سے اس ڈھال میں چھید کردیتے ہیں مثلاً ارشاد نبوی ﷺ ہے نظر ِبد شیطان کا زہر سے بجھا ہوا تیر ہے ۔ شہوت کی نظر سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لیے لازم ہے دورانِ روزہ اور ویسے بھی انسان نظر نیچی رکھے،ان چیزوں پر نگاہ نہ ڈالے جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے، دل بھٹکتا ہے اور جو اللہ کی یاد سے غافل کرنے والی ہیں ۔ موبائل کے دور پرفتن میں واٹس ایپ ، فیس بک اور یو ٹیوب پر جانے انجانے کیا کیا نہیں دیکھنا پڑتا اس سے نہ صرف روزہ خطرے میں پڑ جاتا ہے ایمان کی اس حلاوت سے بھی مومن محروم ہوجاتا ہے جو نظرِ بد سے بچنے کا صلہ ہے۔

قرآن حکیم میں غیبت کو مرےہوئے بھائی کے گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ روزے کے دوران حلال رزق سے پرہیز کرنے والے کا اپنے مردہ بھائی کا گوشت نوش کھانا کس قدر بدنصیبی کی بات ہے۔ غیبت کے حوالے سے ایک حدیث یہ بھی ہے کہ ’’غیبت کرنے والا اور سننے والا دونوں گناہ میں برابر کے شریک ہیں‘‘۔ اس لیے کہ اگر سامع انکار کردے توبولنے والے کی زبان پر اپنے آپ قفل لگ جائےگویا ذوق و شوق سے غیبت سننے والے عملاً اس برائی کا ارتکاب کرنے والوں کو ترغیب دیتے ہیں ۔اس طرح آنکھ، کان اورزبان تینوں سے تو روزے کی اس ڈھال کوخطرہ ہے لیکن ان میں زبان کا معاملہ زیادہ سنگین ہے۔ اس سے محفوظ رہنے کے لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو فحش نہ بکے،نہ بدکلامی اور فضول گوئی کرے، چیخے نہ چلاّئے اور اگر کوئی گالی دے یالڑنے پر اترآئے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں‘‘ ۔

روزوں سے متعلق ایک اور اہم حدیث ہے ’’جس کسی نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا ہی نہ چھوڑا تو اس کا کھانا پینا چھڑ ادینے کی اللہ کو کوئی حاجت نہیں‘‘۔ جھوٹ بولنے کو ہر کوئی برا سمجھتا ہےلیکن پھر بھی بحالتِ مجبوری بولنا پڑجاتا ہے ۔ روزہ اس مجبوری پر قابو پانے اور جھوٹ سے مکمل اجتناب کی تربیت دیتا ہے ۔ ایک ماہ تک مسلسل اس برائی سے پرہیز کرنے والا اگر چاہے تو زندگی بھر اس سے بچ سکتا ہے ۔ جھوٹ بولنا کیا ہے یہ ہر کوئی جانتا ہے لیکن یہاں تو جھوٹ پر عمل کرنے کی بھی ممانعت ہے۔ جھوٹ پر عمل کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک تو نادانستہ اس کو سچ سمجھ کر جھانسے میں آجانا اور دوسراجانتے بوجھتے کسی نقصان سے بچنے کی خاطریا کوئی فائدہ حاصل کرنے کے لیے اس کی پیروی کرنا ۔ مذکورہ حدیث پر عمل کا پہلا تقاضہ تو یہ ہے کہ انسان کسی بات پر عمل کرنے سے قبل جانچ پھٹک کر دیکھ لے کہ کہیں وہ جھوٹ تو نہیں ہے ۔ بفرضِ محال پتہ چل جائے کہ یہ کذب بیانی ہے تو اس سے کنارہ کش ہوجائے ۔ یعنی نہ تو اس کے مطابق خود کو ئی اقدام کرے اور نہ اس کو پھیلانے کی غلطی کرے، چاہے ایساکرنے سے کتنا بھی بڑا فائدہ کیوں نہ وابستہ ہو۔ اس لیے کہ رمضان کے روزے کو گنوانے کا عذاب بہر حال متوقع مفاد سے فروتر ہے ۔

فرمان نبی ﷺ ہے ’’ کسی انسان کے جھوٹا ہونے کیلئے کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے‘‘۔ سماجی رابطے کے ذرائع کی مدد سے اسلام کی تبلیغ کرنے والوں اور سوشیل میڈیا پر انتخابی مہم چلانے والوں کو اس بابت احتیاط کرنا چاہیے ۔ معاشرے میں جھوٹ کا چلن اتنا عام ہےکہ سیاستداں بے تکان جھوٹ بولتے ہیں لیکن سرزنش نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بلاخوف و خطر بولے جانے والےجھوٹ پر بغیر سوچے سمجھے یقین کر لیا جاتا ہے اور اسے بلاتکلف پھیلا یا جاتا ہے۔ حدیث میں منافقین کی جو صفات بیان ہوئی ہیں وہ بیشتر سیاسی رہنماوں پر صادق آتی ہیں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ’ (منافق)بات کرے تو جھوٹ بولے۔ وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۔ عہد کرے تو توڑ ڈالے۔ امانت دار سمجھا جائے تو خیانت کرے۔جھگڑے تو بد زبانی کرے‘۔ کہیں جھوٹ پر عمل والی حدیث کا اطلاق ایسے لوگوں کو اقتدار سے نواز دینے پر تو نہیں ہوتا ؟

Comments are closed.