ماں کے پیروں تلے جنت ہے

محمد نظام الدین ندوی
الھدی اردو لائبریری چک پہاڑ، سمستی پور بہار
فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کاتقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے محسن کے ساتھ حسن سلوک کا برتائو کرتا ہے اوراس کا احسان مانتا ہے ،اس کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی کا معاملہ کرتاہے ،خواہ وہ معمولی احسان کیوں نہ ہو ؟اگر وہ کسی درس گاہ میں تعلیم حاصل کرتا ہے تو اسے ــ’’مادر علمی‘‘ کا سنہرا نام دے کر احسان شناسی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سرزمین میں اسکی پیدائش ہوتی ہے اور اپنے بچپن کے ایام گذارتا ہے اسے’’ مادر وطن‘‘ کا لقب دیا جاتاہے اور اس پر محبت و عقیدت سے سرشار ہو کر جان بھی نچھاور کرنے سےدریغ نہیں کرتا،جس دنیا میں اس نے آنکھیں کھولی ہیں اسے کبھی’’ مادر گیتی‘‘ کا عظیم الشان خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ان سب مصنوعی اور مجازی ماؤں کے حقوق تسلیم کئے جاتے ہیں،ان کی حفاظت کے لئے جان و مال اور قیمتی وقت خرچ کئے جاتے ہیں،ان سے اپنی نسبت پر فخر بھی کیا جاتا ہے،لیکن اصل اور حقیقی ماؤں کی پر خلوص محبت و شفقت اورایثار و قربانی کو اکثر بھولا دیا جاتا ہے۔
اللہ تعالی نے انسان کو اس دنیا میں وجود عطا کرنے سے کے لئے والدین کو ذریعہ اور سبب بنایا ہے ،اس لئے اس نے سب سے پہلے ماں اور باپ کی مشترکہ حیثیت کو تفصیل سے بیان کیا ہے ،انکی عزت وخدمت ،اطاعت و فرماں برداری کو اولاد پر ضروری قرار دیا ہے اور اپنے حق کے بعد انسان کے باہمی حقوق پر والدین کے حقوق کو ترجیح دی ہے،ان کی خوشنودی میں اپنی رضامندی بتلایا ہے اور ان کی ناراضگی میں اپنی ناراضگی اور غیظ و غضب کا اظہار فرمایاہے ۔ماں اور باپ میں بھی سب سے بڑا درجہ ماں کو دیا ہے کیوں کہ صنف نازک فطری طور پر کمزور ہے ،وہ الفت و مودت ،ہمدردی و غمخواری، حسن سلوک کا مستحق ہے۔ لیکن اللہ تعالی نے ایک عورت کے اندر بے پناہ محبت و شفقت ،حمل،وضع حمل اور تربیت اولاد کی جانگسل تکالیف کو ہنسی خوشی برداشت کر نے کی وہبی قوت عطا فرمائی ہے، اسی لئے اللہ تعالی نے اس کے ساتھ نرمی،بھلائی،خیرخواہی کا خصوصی معاملہ کر نے کا حکم فرمایاہے۔’’اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ،اسکی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میںرکھا اور تکلیف برداشت کرکے جنا،اسکے حمل کا اور اسکے دودھ چھڑانے زمانہ تیس مہینے کا ہے‘‘۔(سورۃ الاحقاف آیت نمبر ۱۵)
نبی کریمﷺ کے ارشادات و فرمودات میں بھی اس کی تاکید ملتی ہے۔ایک شخص خدمت اقدس میں آکر دریافت کیا یا رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ میرے حسن سلوک کا مستحق کو ن ہے؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تیری ماں، اس نے عرض کی پھر کون؟آپ ﷺ ارشاد فرمایا تیری ماں، پھر اس نے پوچھا کون؟ارشاد فرمایا تیری ماں، تین دفعہ آپ ﷺ نے یہی جواب دیا، چوتھی دفعہ پوچھنے پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاتیرا باپ ۔ایک دن آپ ﷺ نے چار بڑے بڑے گناہوں کا ذکر کیا اور سر فہرست ماںکی نافرما نی کو قرار دیا اورفرمایا کہ تمہارے خدا نے ماؤں
کی نافرمانی تم پرحرام کی ہے۔ایک صحابی نے دریافت کیا یا رسول اللہ ﷺ!میں نے جہاد میں شرکت کا ارادہ کیا ہے اور آپ ﷺسے مشورہ چاہتا ہوں،آپ ﷺ نے فرمایاکیا تمہاری ماںہے؟انہوں نے کہا ہاں زندہ ہے،آپ ﷺنے فرمایا کہ تم ان کے ساتھ لگے رہو انکی خدمت کرتے رہوکیوں کہ جنت ان کے قدموں کے پاس ہے۔اسلام میں جہاد کی اہمیت مسلم ہے مگر والدین کی خدمت گذاری کا مقام و مرتبہ اس سے بھی بڑھ کر ہے کہ ان کی اجازت کے بغیر جہاد بھی جائز نہیںکہ جہاد کے میدان میں سر ہتھیلی پر رکھ کر جانا ہوتا ہے ،ہر وقت جان جانے کا امکان رہتا ہے ،اس لئے والدین کی اجازت کے بغیر اسے اپنے جسم وجان کھونے کا حق نہیںبلکہ اپنے کو انکی خدمت گذاری میں وقف کردینا حقیقی سعادتمندی ہے۔ ماں کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندوی تحریر فرماتے ہیں۔’’مخلوقات ِانسانی میں جنس لطیف کی ہی صنف کو سب سے بڑی برتری حاصل ہےاور یہ برتری بالکل فطری ہے،انسان سب سے زیادہ اپنے وجود میں جنکا ممنون ہے اور جو اسکی تخلیق کی مادی علت ہیں وہ خالق اکبرکی علت فاعلہ کی ذات کے بعدماں اور باپ ہیں،لیکن باپ کی مادی علیت چند لمحوں اور چند قطروں سے زیادہ نہیں،مگر ماں وہ ہستی ہے جس نے اس کی ہستی کو اپنا خون پلاپلا کربڑھایا اور نو مہینے تک اسکی مشکل سہہ کر اور سختی اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا پھر اسکے جننےکی ناقابل برداشت تکلیف کو ہنسی خوشی برداشت کیا پھر اس نو پیدا مضغہ گو شت کو اپنی چھاتیوں سے لگاکر اپنا خون پانی کر کے پلایااور اسکی پرورش اورپرداخت میں اپنی ہر راحت قربان اور اپنی ہر خوشی نثارکردی ایسی حالت میں کیا ماں سے بڑھ کر انسان اپنے وجود میں مخلوقات میں کسی اور کا محتاج ہے ؟اس لئے شریعت محمدی نے اپنی تعلیم میں جو بلند سے بلند مرتبہ اس کو عنایت کیا ہے وہ اس کی سزا وار ہے ۔(سیرۃالنبی)
اب ہم اپنا محاسبہ کریں کہ اگر ہمارے والدین زندہ ہیں تو کس قدر انکی خدمت گزاری میں اپنا وقت گزارتے ہیں ؟اپنے دوست واحباب ،بیوی بچوں کے لئے کتنا وقت اپنی مشغولیتوں سے نکالتے ہیں اور کتنا وقت اپنی ضعیف ماں کی خدمت کے لئے ؟ہم انکے حکم کی تعمیل میںکتنی مرتبہ اپنے جذبات و خواہشات کو قربان کر دیتے ہیں؟اپنے عزیزوں اور دوستوں بلکہ اجنبیوں اوربیگانوں تک کی پرواہ کرتے ہیں لیکن ایک پرواہ نہیں کرتے تو اسی ماںکی جو مامتا کی ماری اور محبت کی دیوانی ہے۔اسلام یہ تصور دیتا ہے والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے ،انکی خدمت و اطاعت کی جائے ،ان سے اف بھی نہ کہی جائے ،انکے سامنے ایک زرخرید غلام کی حیثیت سے دھیمی آواز میں گفتگو کی جائے،انکے لئے زندگی میںبھی اور موت کے بعد بھی دعائے خیر کی جائے،انکی شان میں گستاخی،انکی دل آزاری ،نافرمانی،ایذاء رسانی سے مکمل اجتناب کیا جائے، ان کے لئے سراپاخدمت گذار بننا ہی احسان شناسی ہے اور انہیں ایک بار محبت کی نظر دیکھنا بھی عبادت ہے۔
سال میں ایک مرتبہ ماں کی خدمت میں خراج عقیدت ومحبت پیش کرنا اور اسے احسان سناشی کا نام دینا کسی غیر اسلامی تہذیب و تمدن کا حصہ تو ہو سکتا ہے لیکن اسلامی تعلیمات کا نہیں۔اسلامی تصور یہ کہ ہماری دنیوی اور اخروی کامیابی والدین کی خدمت و اطاعت میں ہے،انکی خدمت و اطاعت کے بدلہ جنت اور انکی نافرمانی و دل آزاری کے بدلہ جہنم کی آگ ہے۔اللہ تعالی ہمیں والدین کی قدر وعظمت جاننے اور انکی خدمت کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
Comments are closed.