’بی جے پی ‘ کا آپریشن جمہوریت؟

ابھیشار شرما
ترجمہ : نازش ہماقاسمی
آپ لوگوں میں سے کئی لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ صاحب ہمیشہ آپ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر ہی کیوں تبصرہ کرتے ہیں؟ آپ ہمیشہ مودی سرکار کی ہی کیوں تنقید کرتے ہیں؟ اس کاآسان سا جواب ہےکہ نمبر ایک مودی سرکار حکومت میں ہے، نمبر دو گزشتہ چار سال سے قومی میڈیا مودی سرکارسے سوال تک نہیں کرتی؟ ان کی جوابدہی طے نہیں کرتی اور یہاں پر میرا کردار آتا ہے۔ اور میں آج آپ کے سامنے یہ بات کیوں کہہ رہا ہوں؟ کیوں کہ اگر آج یہ مدعے آپ کے سامنے میں نہیں لایاتو مجھے کہنے میں اتنی سی بھی ہچکچاہٹ نہیں ہورہی کہ ہم ایک نقلی جمہوریت میں تبدیل ہوجائیں گے دوستو!
عوامی طاقت کے سامنے سوال کمزور پڑجائیں تو آواز بلند کرنی پڑتی ہے۔ ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘ ۔
آپ کے سامنے اس وقت تین تصویریں ہیں۔ پہلی تصویر وزیر اعظم مودی کی مغربی بنگال میں ہوئی ریلی کی۔ جی ہاں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے فرمان آگیا ہے الیکشن کمیشن نے یہ کہا ہے کہ کولکاتہ میں جو تشدد ہوا اس کی وجہ سے ہم الیکشن پرچار ۲۴ گھنٹے قبل ہی ختم کردے رہے ہیں۔ مگر انہوں نے وزیر اعظم نریند رمودی کو موقع دیا۔ وزیر اعظم اپنی دو ریلیاں ختم کرلیں اور جیسے ہی وہ اپنی ریلی ختم کرتے ہیں اس کے بعد آپ کو جو مرضی کرنا ہے۔ ا ب دوسری تصویرپر غور کیجئے۔ امیت شاہ جو یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ کولکاتہ میں جوتشدد ہوا اس کےلیے ٹی ایم سی ذمہ دار ہے۔ ٹی ایم سی نے ایشور چندر ودیاساگر ودیالیہ کی مورتی توڑی۔ اور تیسری تصویر ارون جیٹلی کی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بی جے پی کی کارکن پرینکا شرما کی گرفتاری ہوئی، ان کی گرفتاری اس لیے ہوئی کہ انہوں نے ایک بھدی سی تصویر کو وائرل کیا تھا اور اس کےلیے انہیں گرفتار کرلیاگیا۔ بعد میں سپریم کورٹ کے دخل کی وجہ سے پرینکا شرما رہا ہوپائیں۔ اور آپ کو یاد ہوگا اگر آپ مجھے ٹوئٹر پر فالو کرتے ہیں۔ اس مدعے پر میں نے اپنی آواز بلند کی ہے مگر ارون جیٹلی کیا کہتے ہیں۔ ’کہ دیدی کے پاس فنی بون نہیں ہے، دیدی کو ہنسنا نہیں آتا‘ ۔ آج میں ان تینوں تصویروں کی حقیقت آپ کے سامنے پیش کرنے والا ہوں۔ سب سے پہلے امیت شاہ نے اپنے پریس کانفرنس میں کئی چیزیں کہیں، ان کا ایک ایک دعویٰ میں آپ کے سامنے پیش کرنے والا ہوں۔ سب سے پہلے جو دعویٰ کیاگیا ہے امیت شاہ کی پریس کانفرنس میں کہ پہلی جو اینٹ تھی وہ کالج کیمپس کے اندر سے آئی۔یعنی کہ ودیاساگر کالج کیمپس کے اندر سے ۔اگر آپ نے اس وقت کی تصویریں دیکھیں ہوں تو آپ کو پتہ ہوگا کہ ان تمام تصویروں سے یہ حقیقت عیاں ہورہی ہے کہ بھگوا پہنے یہ لوگ ودیا ساگر کے آس پاس بلوا کررہے ہیں، دنگا کررہے ہیں، اب تک ایک بھی تصویر ابھر کر سامنے نہیں آئی کہ ودیاساگر کالج کیمپس کے اندر سے کسی نے اینٹ پھینکی ہوگی۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کے پرمکھ امیت مالویہ جو ہیں وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ٹی ایم سی نے باقاعدہ اپنے غنڈوں کو کئی جگہ پر تعینات کردیا تھا جس سے وہاں پر دنگے جیسے حالات ہوگئے مگر اس کے اندر امیت مالیہ ویڈیو پیش کررہے ہیں اس کے اندر ایسا کچھ واضح نہیں ہورہا ہے اس میں صرف یہ دکھائی دے رہا ہے کہ پولس بیچ میں کھڑی ہے ایک طرف بی جے پی کے حامی ہیں اوردوسری طرف ٹی ایم سی کے حامی ہیںاور ان کے آس پاس ایک طرح کا ٹکرائو ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کچھ عیاں نہیں کررہا ہے ۔ اب یہ بتایاجارہا ہے کہ ترنمول کانگریس نے بائکس میںآگ لگائی۔ دوستو آپ کے سامنے وہ ویڈیو ہوتو دیکھیں اس میں کس طرح بھگوا پہنے نوجوان وہ ان بائیکوں کو نذرآتش کررہے ہیں۔ تو میرا سوال بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہے جنتا کو بے وقوف نہ بنائیں، میڈیا بھلے یہ تصویر آپ کو نہ دکھائے لیکن ہم آپ کو یہ ویڈیو بتارہے ہیں کہ کس طرح بھگوا پہنے لوگ بائیک کونذرآتش کررہے ہیں۔ امیت شاہ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے جو کارکنان ہیں وہ کیمپس میں داخل ہی نہیں ہوسکتے تھے کیوں کہ اس میں تالا لگاہوا تھا۔ سنیے! سب سے پہلے امیت شاہ کیا کہتے ہیں۔ ’میرا سوال اتنا ہی ہے یہ ساڑھے سات بجے کی واردات ہے ، کالج بند ہوچکا تھا ہرطرف قفل لٹکا ہوا تھا، یہ کمرے کس نے کھولے؟ ، کمرےکس نے کھولے؟ کس کے پاس چابی ہوتی ہے؟ کالج پر کس کا قبضہ ہے؟ ٹی ایم سی کا ہے۔ ووٹ بینک کی سیاست کرنے کےلیے مجسمے کو توڑنا میں مانتا ہوں کہ ٹی ایم سی کی اُلٹی گنتی شروع ہوچکی ہے، بنگال کے عوام کو بھی یہ علم ہوناچاہئے کہ کمرے کے اندر جو مجسمہ تھا، توکمرے کی چابی کس نے دی؟ تالا بھی نہیں ٹوٹا ہے، چابی کہاں سے آئی، کس کے پاس سے آئی، بی جے پی کے کارکنان کے پاس چابی کیسے آسکتی؟ جب کہ بی جے پی کارکنان روڈ پر تھے ، سارے ثبوت یہ ثابت کرتے ہیں کہ ودیاساگر جی کے مجسمے کو ٹی ایم سی کے غنڈوں نے توڑا ہے، ہاری ہوئی بازی جیتنے کےلیے‘۔ دوستو! یہ دعویٰ بھی اپنے آپ میں غلط ہے۔ میں آپ کو ویڈیو دکھانے والا ہوں اس ویڈیو میں آپ دیکھئے (۱۶؍مئی ۲۰۱۹ بی جے پی کا آپریشن لوک تنتر کے عنوان سے بول کے لب آزاد ہیں تیرے پروگرام کے تحت ویڈیو دیکھ سکتے ہیں) کس طرح سے بی جے پی کے کارکنان زبردستی کالج کیمپس میں داخل ہورہے ہیں۔ اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد کیا کسی طرح کا کوئی شک رہ گیا ہے کہ کیمس میں زبردستی بی جے پی کے کارکنان داخل نہیں ہوئے۔ اب چوتھا دعویٰ بی جے پی دو دعوے کررہی ہے۔ پہلی بات وہ یہ کہہ رہی ہے کہ ہم نے ودیا ساگر کی مورتی کو تباہ نہیں کیا، دوستو جیسا کہ آپ اس ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں اس میں کچھ کارکنان ہاتھ میں ایک مورتی کا ٹکڑا اُٹھا کر زمین پر پٹخ دیتے ہیں میں چاہوں گا کہ ان لوگوں کی پہچان ہو۔ کیوں کہ دوستو میں تو جانتا ہوں کہ اگر ان لوگوں کی پہچان ہوجائے گی تب عام چوکیداروں کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملنے والی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بعد میں ممتا بنرجی ان ہی ٹکڑوں کو پریس کے سامنے پیش کررہی ہیں۔ اور ایک بات یاد رکھیے گا کوئی بھی کولکاتہ میں رہنے والا جو شخص ہے وہ کسی بھی صورت میں ایشور ودیاساگر کی جو مورتی ہے اسے تباہ نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ ان کا ایک مقام ہے اورمجھے یہ بتانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کی اس ریلی میں باہر سے کئی لوگ لائے گئے تھے۔ اب دوسری تصویر آپ کے سامنے یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ بی جے پی جو ہیں وہ اس لیے مورتی کو نہیں توڑ سکتے تھے کیوں کہ وہ کیمپس کے اندر ہے۔ دوستو میں آپ کوبتاناچاہوں گا جس مورتی کو توڑا گیا ہے ، دراصل ودیاساگر جی کی ڈھیڑوں مورتیاں ہیں اس کالج میں اور جس مورتی کو توڑا گیا ہے وہ مورتی جو ہے بالکل اس گیٹ کے اندر ہے جو اسکرین کے سامنے ہے۔ یہی وہ آہنی گیٹ ہے جسے توڑ کر بی جے پی کے کارکنان اندر داخل ہوئے تھے جو میں نے آپ کو شروع میں بتایاتھا۔ تو اب آپ بتائے ؟ کھلے عام ۔۔۔۔کھلے عام امیت شاہ غلط بیانی کررہے ہیں، کھلے عام وہ جھوٹ بول رہے ہیں لیکن انہیں کٹگھرے میں رکھنے وا لا کوئی نہیں ہےدوستو۔ میڈیا کا جو پورا کوریج ہے پورا جو سلانٹ ہے وہ ترنمول کانگریس کے خلاف ہے۔ اور یہی میں نے آپ سے کہا ہے۔ مجھے فکر اس جمہوریت کی ہے جب ۔۔۔جب میڈیا اس قدر جھک جاتا ہے۔ اب میں بات کرنا چاہوں گا اپنی دوسری تصویر کی۔ وزیر اعظم مودی کی ریلی مغربی بنگال میں۔ میں جانناچاہتا ہوں الیکشن کمیشن سے اگر کولکاتہ میں حالات اتنے خراب ہوگئے تھے، لاء اینڈ آرڈر اتنے خراب ہوگئے تھے تو آپ کو فوراً الیکشن پرچار ختم کردینا چاہئے تھا مگر آپ نے کیوں ختم نہیں کیا؟ وزیر اعظم کی دو ریلیاں بچی ہوئی تھیں۔ آج میں یہ کہناچاہتا ہوں کہ الیکشن کمیشن نے اپنے آپ کو شرمندہ کیا ہے۔ یہ وہ الیکشن کمیشن ہے جہاں ایم ایس گل جیسے لوگ کام کیاکرتے تھے، جہاں ٹی این سیشن جیسے لوگ تھے ، جن کی ریڑھ تھی، آج آپ نے اس ریڑھ کو توڑ دیا ہے، آپ ہمیشہ کےلیے جھک گئے ہیں۔ وزیر اعظم نریندرمودی کھلے اپنی ریلیاں کررہے ہیں، آپ نے جو پابندی عائد کی ہے اس وقت عائد کی ہے جب وزیر اعظم مودی کی ریلیاں ختم ہوجائیں۔ سوال میرا یہ ہے دوستو کیا میڈیا یہ سوال اُٹھارہا ہے؟ ۔ اب آپ کے سامنے تیسری تصویر ہے ۔ ارون جیٹلی یہ کہہ رہے ہیں کہ کس طرح سے ممتا بنرجی ہنسنا بھی نہیں آتا، وہ اتنی سی غلطی کےلیے ایک لڑکی کو جیل میں ڈال دیتے ہیں۔ وزیر ا عظم نے بشیر ہاٹ میں ایک ریلی میں کہا تھا کہ ممتا دیدی آپ کو مغربی بنگال کی بیٹیاں معاف نہیں کریں گی تو چلیے دوستو۔ آئیے دیکھتے ہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کا ذوق ظرافت کیا ہے؟ میں مانتا ہوں کہ ممتا دیدی کا جو انداز بیاں ہے کبھی کبھی اس میں ایک قسم کا طاقت کا استعمال، ایک تاناشاہی کی بو آتی ہے۔ میں اس بات سے انکار نہیں کررہا ہوں مگربھارتیہ جنتا پارٹی کی جو دیگر ریاستوں میں اقتدار میں ہے مرکز میں اقتدار میں ہے اس کی حقیقت کیا ہے میں آپ کو سلسلے وار طریقے سے بتائوں گا۔ سب سے پہلے۔ آپ کی اسکرین پر ۲۳ سال کے نوجوان کو گرفتار کیاگیا اسکا نام شمشاد امجد تھا۔ دہرہ دون سے اسے گرفتار کیاگیا اور اسے جیل میںکئی ہفتوں تک رکھاگیا۔ میں آپ کو بتاناچاہوں گا اس نے محض وزیر اعظم پر ایک متنازعہ پوسٹ شیئر کی تھی، میں آپ کو بتاناچاہوں گایہ واردات ۲۷ فروری کو رونماہوئی تھی اس کے بعد شمشاد کو جیل میں رکھاگیا۔ دوسری واردات کی طرف اب آتے ہیں، ایم ڈی ایم کے تملناڈوکے ایک سیاسی پارٹی کے آفیشل کو اس لیے گرفتار کیاگیا کیوں کہ اس نے اپنی فیس بک پوسٹ میں وزیر اعظم کے ہاتھ میں بھیک کا کٹورہ بتایاتھا۔ ٹھیک ہے۔ یہ متنازعہ ہوسکتا ہے، کچھ لوگوں کوغلط لگ سکتا ہے مگر آپ کو غلط لگ رہا ہے تو یقینا ً جو پرینکا شرما نے کیا ہے کچھ لوگوں کے حساب سے وہ بھی غلط ہوسکتا ہے۔ اب آئیے تیسری بات پر یہ اپنے آپ میں سب سے شرمناک بات ہے۔ منی پور میں ایک مشہور صحافی ہیں ان کا نام ہے کشور چند وانکھیم ۔ ا نہیں نیشنل سیکوریٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیاگیا تھا انہوں نے صرف یہ کیا تھاکہ منی پورمیں جو سیاست چل رہی ہے وہ آر ایس ایس اور مودی کے حساب سے چل رہی ہے۔ مہینوں تک کشور چندر وانکھیم کو جیل میں رکھاگیاتھا۔ اب آپ کے سامنے ایک اور تصویر ۔۔۔وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف بھدا تبصرہ کرنے کو لے کر ایک پولس والے کو گرفتار کرلیاگیاتھا۔ اس کے بعد تملناڈو میں ایک نوجوان کو صرف اس لیے گرفتار کیاتھا کیوں کہ اس نے وزیر اعظم کا ایک متنازعہ پوسٹ فیس بک پر شیئر کیاتھا۔ نام تھا اس کا ایم پربھاکر۔۔۔یہی نہیں۔۔۔۔آسام میں ۲۵ سال کے ایک نوجوان کو گرفتار کیاگیاتھا کیوںکہ اس نے کچھ ایسے کارٹونس شیئر کیے تھے جس میں صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند، وزیر اعظم نریندرمودی اور چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا اور کچھ وزراء شامل تھے۔ ان تمام لوگوں کو گرفتار کیاگیاتھا۔ ایک لمبی فہرست ہے دوستو۔۔۔ اور یہی نہیں ۔۔۔اب دیکھیے۔۔۔چنڈی گڑھ میں یہ نوجوان جو ہیں وہ پکوڑا ۔۔۔۔جی ہاں! پکوڑا بیچ رہے تھے۔۔۔یہ گریجویٹس پکوڑا بیچ رہے تھے۔۔۔ اور انہیں بھی پولس گرفتار کرکے لے گئی۔۔ کہاں گیا ذوق ظرافت۔۔۔؟ آپ پھر دیکھیے۔۔میں چاہوں کہ آپ اس ویڈیو کو دیکھیں جس میں کس طرح سے کچھ نوجوان پکوڑا بیچ رہے ہیں ، کیو ںکہ دیکھئے یہ لفظ پکوڑا ان نوجوانوں کے نہیں تھے، یہ لفظ وزیر اعظم کے تھے جب انہوں نے پکوڑا بیچنے کو ایک روزگار بتایا تھا۔۔۔میں آپ سے جانناچاہتا ہوں۔ کہاں ہے آپ کا ذوق ظرافت۔۔ سینس آف ہیومر۔۔۔؟ اور جب بات ہم سینس آف ہیومر کی کررہے ہیں۔مجھے آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ شخص کون ہے۔۔۔؟ اس کا نام ہے شیام رنگیلا۔۔۔ یہ شخص راہل گاندھی ہی نہیں وزیر اعظم مودی کی بھی بہت اچھی ممکری کرتا ہے۔ انہوں نے اکشے کمار جس شو میں چیف گیسٹ تھے وہاں پر وزیراعظم نریندر مودی کی ممکری کی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے بعد یہ پھر سے کبھی کسی شومیںنہیں آیا۔ صرف اس لیے کہ اس نے وزیر اعظم مودی کی ممکری کی تھی۔ یہ بات الگ ہے کہ شیام رنگیلا راہل گاندھی کی بھی ممکری کرتے ہیں۔ حال ہی میں ان کا یہ ویڈیو آیاتھا جس کی آپ چھوٹی سی جھلک دیکھ سکتےہیں۔ جس میں اکشے کمار اور وزیر اعظم مودی کے غیر سیاسی انٹرویو کی ممکری کی گئی ہے۔ اب شیام رنگیلا پر اس ویڈیوکے بعد اتنا دبائو بڑھ گیا اتنا دبائو بڑھ گیا کہ وہ ایک غیر سیاسی انٹرویو راہل گاندھی کے ساتھ لے کر آگئے۔ کیوںکہ راہل گاندھی نے تو کسی کو غیر سیاسی انٹرویونہیں دیا تھا؟ تو ایسے میں شیام رنگیلا کو کیا ضرورت تھی یہ ویڈیو لانے کی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے دوستو کہ باقاعدہ ڈر پیدا کیاجارہا ہے۔ یہ لوگ اسٹینڈ اپ کامیڈین ہیں ، یہ لوگ آپ کو اور ہمیں نہیں ہنسائیں گے تو کیا کریں گے؟ یہی ڈر تمام اسٹینڈ اپ کامیڈین کے ساتھ پیدا کیاجاتا ہے۔ آپ کنال کامرا سے پوچھیے، آپ ورون گرور سے پوچھئے، آپ سنجے راجوڑا سے پوچھئے۔ ان تمام لوگوں کو کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طریقے سے دھمکیاں ملتی ہیں، گالیاںسننی پڑتی ہیں، کیوں؟ کیوں کہ ان کے چٹکلے، انکے طنز حکومت کا مذاق اڑاتے ہیں۔ دوستو میری بات ہمیشہ یاد رکھیے گا طنز ہو یا صحافت ہو اس کا نشانہ ہمیشہ طاقت ور شخص ہوناچاہئے کیوں کہ طنز کا کیا مقصد ہوتا ہے دوستو۔ کئی چیزیںآپ اور ہم غصے سے نہیں بول سکتے طنز کے ذریعے ہم شوٹ کرسکتے ہیں۔ یہ خوبصورتی ہے طنز کی۔ مگر مودی سرکار کو طنز بھی منظور نہیں ہے ۔ اور ا ٓپ ہم سے بات کرتے ہیں سینس آف ہیومر کی۔ دوستو مجھے بہت فکر ہے کیوں کہ جب میں دیکھتا ہوں میڈیا۔ جب میں دیکھتا ہوں الیکشن کمیشن ۔ اس طرح سےرینگ رہا ہے ۔۔۔ تو اس کا پہلا شکار جمہوریت ہی ہوگا۔ اوراسی لیے تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔ ۲۳؍ تاریخ کو بہت زیادہ وقت نہیں رہ گیا ہے۔ مگر ۲۳ تاریخ کے بعدکیا ہونے والا ہے اس کی جھلک آج اس پیغام کے ذریعے میں نے آپ کو بتلادیا ہے۔ جو گزشتہ تین سالوں سے چلا ہی آرہا ہے اب کھلے عام ہورہا ہے۔ مانو! اس ملک میں میڈیا نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ لاء اینڈآرڈر نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ مگر آپ کو اپنے بول ہمیشہ آزاد رکھنے ہوں گے کیوں کہ جس وقت، جس دن آپ اس پروپیگنڈہ کے سامنے جھک گئے۔ یقین مانیے ہماری آنے والی جو نسلیں ہیں وہ ہمیشہ کےلیے برباد ہوجائیں گی۔ میرے ان الفاظ کو یاد رکھیے گا۔۔۔!
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.