Baseerat Online News Portal

خدارا افطار جیسی عبادت کا تمسخر نہ اڑائیں!

مفتی شکیل منصور القاسمی

صدر مفتی سورینام جنوب امریکہ

“افطار “ روزہ کا تتمہ ہے ، دیگر عبادتوں حتی کہ خود روزہ کی طرح وہ بذات خود ایک عبادت ہے ،روزہ دار کو روزہ افطار کرانے پہ بے شمار اجر و ثواب کے ترتب کی بات متعدد حدیثوں میں آئی ہے ، ذیل کے سطور میں چند فضائل ملاحظہ فرمائیں :
1 )”مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى طَعَامٍ وَشَرَابٍ مِنْ حَلَالٍ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ فِي سَاعَاتِ شَهْرِ رَمَضَانَ، وَ صَلَّى عَلَيْهِ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ“ جس نے کسی روزہ دار کو حلال رزق میں سے کھلا پلاکر اِفطار کرا یا اُس پر فرشتے رمضان کی مُبارک ساعات(اوقات)میں اور جبریل امین شبِ قدر میں رحمت نازل ہونے کی دعاء کرتے ہیں۔(شعب الایمان :6162)(طبرانی کبیر: 6162)
(2)حضرت جبریل امین کا شبِ قدر میں مصافحہ کرتے ہیں :
حضرت سلمان فارسی کی ایک روایت میں یہ الفاظ منقول ہیں :
”مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا فِي رَمَضَانَ مِنْ كَسْبٍ حَلَالٍ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ لَيَالِي رَمَضَانَ كُلِّهَا، وَصَافَحَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ“جس نے کسی روزہ دار کو حلال کمائی میں سے کھلا پلاکر اِفطار کرا یا ،رمضان کی تمام راتوں میں فرشتے اُس پر نزولِ رحمت کی دعاء کرتے ہیں اور حضرت جبریل امین شبِ قدر میں اُس سے مصافحہ کرتے ہیں ۔(شعب الایمان : 3669)
(3)روزہ دار جیسا اَجر و ثواب کا حاصل ہوتا ہے :
حضرت زید بن خالد جہنی فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا :
”مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا أَوْ جَهَّزَ غَازِيًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ“
جس نے کسی روزہ دار کو اِفطار کرایا یا کسی مجاہد کو اللہ کے راستے میں نکلنے کیلئے سامان دیا تو اُس کیلئے اُس روزہ دار اور مجاہد کی طرح(روزہ رکھنے اور جہاد کرنے کے برابر)اجر ہے۔(شعب الایمان :3667)
حضرت ابوہریرہ سے مَروی ہے کہ نبی کریمﷺاِرشادفرماتے ہیں :
”مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا فَأَطْعَمَهُ وَسَقَاهُ كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ“
جو شخص کسی روزہ دار کو اِفطار کرائے اور اُسے کھلائے اور پلائے تو اُس کیلئے اُس روزے دار کے جیسا اجر وثواب ہے۔(شعب الایمان : 3668)
(4)گناہوں کی مغفرت اور جہنم سے خلاصی ملتی ہے :
حضرت سلمان فارسی کی وہ طویل حدیث جس میں نبی کریمﷺنے شعبان کی آخری تاریخ میں خطبہ دیاتھا اُس میں آپﷺنے یہ بھی اِرشاد فرمایا تھا :
”مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ لَهُ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ، وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ“
جس نے اِس مہینے میں کسی روزہ دار کو اِفطار کرایا تو یہ اُس کیلئے گناہوں سے مغفرت اور اُس کی گردن کے جہنم سے آزاد ہونے کا ذریعہ بن جائے گا اور اُس کیلئے روزہ دار کے ثواب میں کمی کیے بغیر روزہ دار کے ثواب کی طرح اَجر ہوگا ۔(شعب الایمان : 3336)
(5)حوض کوثر کا جام پلایا جائے گا:
حضرت سلمان فارسی کی مذکورہ حدیث ہی میں نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد بھی منقول ہے:
”وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاهُ اللهُ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ“ جس نے کسی روزہ دار کو(اچھی طرح) اِفطار کراکر سیر کردیا اللہ تعالیٰ اُسے میرے حوض سے ایسا جام پلائیں گے کہ وہ کبھی پیاسا نہیں ہوگا یہاں تک کہ جنّت میں داخل ہوجائے گا۔(شعب الایمان : 3336)

افطار کرانے کے مذکورہ بالا سارے فضائل “صائم” یعنی روزہ داروں کی خدمت وضیافت کرنے کے ساتھ خاص ہے ، “روزہ خوروں “کی اس میں کوئی گنجائش نہیں ۔
اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش یقینا نہیں ہے کہ مذہب اسلام کا یوں تو خلاصہ ومقصد ہی دوسروں کو نفع پہنچانا ہے. اسلام کے علاوہ دنیا کے کسی مذہب نے بھی خلق خدا کی داد رسی کو عبادت قرار نہیں دیا۔یہ مذاہب کی تاریخ کا خاص امتیاز ہے کہ اسلام نے انسانیت کے رشتہ کی بنیاد پہ انسانوں کی خدمت کو عبادت کا درجہ دے کر سب سے بہتر اس شخص کو قرار دیا ہے جو ذاتی منفعت کے لئے نہیں ، بلکہ اجتماعی مفاد کے لئے جیتا ہو۔
فقال: خيرُ الناسِ من ينفعُ الناسَ فكن نافعًا لهم.(عن خالد بن الوليد مجموع فتاوى ابن باز – الرقم: 26/330 )
اسی لئے "خدمت خلق” کو محبوبیت خداوندی کے حصول کا سب سے "شارٹ کٹ” اور مختصر راستہ قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔۔اس بنیاد پر بلا مذہبی امتیاز و تفریق کے ، محتاج، مفلوک الحال، غریب اور پریشان حال کافروں کی حاجت روائی ، داد رسی، اور انہیں کھانا کھلانا باعث اجر وثواب ضرور ہے! افطار کے دستر خوانوں پر اگر ایسے محتاج اور غریب کافر شریک طعام ہوجائیں تو ظاہر ہے اسلام انہیں دسترخوان سے اٹھانے کی تعلیم نہیں دے سکتا ، بلکہ انہیں شریک افطار کرلینے کی گنجائش رہے گی ؛ کہ یہ خدمت خلق کے ساتھ تالیف قلب اور اسلامی تعلیمات اور اس کے محاسن کی خاموش دعوت بھی ہے!
لیکن قومی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے خوش نما دعووں اور نعروں کے بنیاد پہ تداعی ، مکمل انتظام بلکہ اہتمام اور اشتہار کے ساتھ کھاتے پیتے، اچھے خاصے رئیس، مالدار ، پراڈو، لانڈ کروزر کے مالک کفار ومشرکین کو جب افطار جیسی عبادت پہ جمع کیا جائے گا تو پہر کیا مستبعد ہے کہ کل کو نماز ،روزہ ، قربانی اور حج میں بھی انہیں دوش بدوش شریک نہ کیا جانے لگے ؟؟
کافروں کے ساتھ بیجا اختلاط، اعزاز واکرام اور بلاضرورت ( مہمانوں ، محتاجوں اور تالیف قلب کے لئے کی جانے والی دعوتوں کا حکم مستثنی ہے ) انہیں اپنے دسترخوانوں پہ شریک طعام کرنے سے ہم مسلمانوں کو منع کیا گیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"لا تصاحب إلا مؤمنا ولا يأكل طعامك إلا تقي” قال أبو عيسى هذا حديث إنما نعرفه من هذا الوجهم سنن ترمذی 2395۔۔)
اسی لئے جمہور فقہاء، شراح حدیث، اور ائمہ حنفیہ کے یہاں کسی بھی غیر مسلم بشمول ذمی کو "السلام علیکم ” کے ذریعہ ابتداءً سلام کرنا جائز نہیں ہے ، اگر کوئی تعظیما کرتا ہے تو صریح کفر ہے، ہاں! اگر وہ سلام کرلیں تو اس کے جواب میں صرف ” وعلیکم ” وعلیک، یا ” علیکم ” بغیر واو کے کہا جائے ۔
کس قدر افسوسناک، المناک بلکہ شرمناک سلسلہ ہم میں شروع ہوچکا ہے کہ مسلمان اپنے غریب مسلم بھائیوں ، روزہ داروں اور اپنے رشتہ داروں کو چھوڑ اور بھول کر غیر مسلم نیتائوں اور سیاسی بازیگروں کے لئے ہزاروں اور لاکھوں کے صرفہ سے “دعوت شیراز “ کا اہتمام اور اس کا فخریہ اظہار کرنے لگے ہیں ! جبکہ دوسری طرف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اجانب کے بالمقابل اپنے رشتہ داروں پہ احسان وتطوع کرنے سے دہرا ثواب انسان کو ملتا ہے، ایک اجر صدقہ کا اور دوسرا صلہ رحمی کا :
"الصدقة على المسكين صدقة، وعلى ذي الرحم ثنتان صدقة وصلة” (أخرجه الترمذي، أبواب البر والصلة عن رسول الله ﷺ، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين (4/ 311)، برقم: (1900)
میرے پیارے مسلم بھائیو! افطار کا وقت قبولیت دعا کا خاص وقت ہے، ایسے وقت میں اپنے رشتہ داروں اور روزہ داروں کو شریک افطار کرکے خدا کی رحمت ومغفرت سمیٹئے، اتنے قیمتی اور خاص لمحے کو کفار کے ساتھ گپ شپ، ٹٹھا ہنسی مذاق، سیاسی تبصرے ، تجزیئے، فوٹو اور سیلفی بازی کے ذریعہ ، نماز میں تاخیر یا اسے بالکلیہ چھوڑ کر عذاب خداوندی کو دعوت نہ دیجیئے!
خدا را فہم وتدبر اور شعور سے کام لے کر اسلام کی اس متبرک عبادت ” افطار ” کی شبیہ بگاڑنا اور اس کا تمسخر اڑانا چھوڑ دیجیے ! کسی اور عنوان سے اپنے غیر مسلم دوستوں کو مدعو کرکے رواداری اور ہم آہنگی کا مظاہرہ کرلینے میں کوئی حرج تو نہیں ؟ خدا آپ کو توفیق اور صحیح سمجھ دے ۔

Comments are closed.