تزکیہ و تربیت : نفس کے گھوڑے پر ضبط کی لگام

ڈاکٹر سلیم خان

رمضان ضبط نفس کے تزکیہ کا مہینہ ہے۔ یہ تربیت کو گاڑی چلانا سیکھنے جیسی ہےجوایک مربی کے زیر نگرانی ہوتی ہے۔ گاڑی کے سارے کنٹرول سیکھنے اور سکھانے والے دونوں کے پاس ہوتے ہیں ۔ ڈرائیور بریک لگانے سے چوک جائے تو ٹرینریہ کام کردیتا ہے بلکہ گاڑی کا رخ بھی موڑسکتا ہے۔تربیتی گاڑی کے اوپر لگے نشان سے دیگرافراد کو بھی ڈرائیور کے زیر تربیت ہونے کا علم ہوجاتاہے ۔ بھول چوک کی توقع کے پیش نظر وہ فاصلہ رکھتے ہیں ۔ اس طرح حادثے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں ۔ ڈرائیور کی زندگی میں یہ ایک عارضی مرحلہ ہوتا ہے ۔ ایک امتحان سے گزرنے کے بعد جب اسے لائسنس مل جاتا ہے تو یہ سارے تحفطات ہٹا دیئےجاتے ہیں اور اصل آزمائش کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اب اگر وہ اپنی تعلیم کو یاد رکھے اور اس پر عمل کرے تو خود بھی بحفاظت سفر سے لطف اندوز ہوتا ہےا ور دوسروں کو بھی اس سے مستفید کرتا ہے ۔ بصورت دیگر اگر حاصل شدہ تربیت سے بے نیاز ہوجائے تو خود اپنی ذات کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی حادثات کا شکار کرتا رہتا ہے۔ رمضان کے تزکیہ نفس کی تربیت کا بھی یہی معاملہ ہے۔

تزکیہ نفس پر گفتگو سے قبل یہ نفسِ انسانی کا ادراک ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ انسان کا نفس یعنی اس کا‘ میں’ ہے ۔وہی اس کے وجود کی شناخت ہے۔ انسان جب کہتا ہے کہ یہ میرا ہے یا یہ مجھے پسند ہے وغیرہ تو دراصل وہ اپنے نفس کے حوالے سے اظہار خیال کررہا ہوتا ہے۔ انسانی وجود میں اس کا جسم ، اس کی روح ، اعصاب و حواس،دماغ اور دل سبھی شامل ہیں ۔ ان اجزائے ترکیبی کے باہمی تعلق کو اپنشد کے ایک اشلوک میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ جسم ایک رتھ یعنی سواری یا غلام کی سی ہے جبکہ روح کی حیثیت سوار یا آقا کی ہے۔ یعنی جسد خاکی کی لگام روح کے ہاتھوں میں ہے۔ وہی اس کی سمت ، رفتار اورمنزل کا تعین کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ تزکیہ نفس میں روحانیت کا مقام سب سے اعلیٰ و ارفع ہے۔یہ سواری حواس و اعصاب کی مدد سے دوڑتی ہے ۔ رتھ کو چلاتے وقت عقل و دماغ ڈرائیور کی ذمہ داری نبھاتےہیں ۔ یہ ڈرائیور خود مختار نہیں بلکہ روح کا تابعدار ہوتا ہےجو دل کی لگام سے سواری کو کنٹرول میں رکھتی ہے۔ علامہ اقبال عقل و دل کی منفرد حیثیت کو بیان کرتے ہوئے روحِ انسانی کو تلقین فرماتے ہیں ؎

اچھّا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

نفس انسانی کی بابت ارشادِ ربانی ہے:‘اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا ’۔ یعنی خالق ِ کائنات نے نفس کوہموار کرنے کے بعد ‘ اُس کی بدی اور اُس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی’۔ نفس ِانسانی کو خود مختاری عطا کرنے سے قبل خیر و شر کے فرق سے روشناس کرنے کے بعداس کے فلاح و خسران کو اس شعور کے مطابق زندگی بسر کرنے سے جوڑ دیا گیا۔ فرمایا‘‘ یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا’’۔ یعنی خیر و شر کے الہامی شعور کی آبیاری و نشو ونما ہی دراصل نفس کا تزکیہ اور کامیابی و کامرانی ہے نیز اس کچل دینا تباہی و بربادی ہے ۔ اس کو پروان چڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان خیر کی جانب پیش قدمی جاری رکھے اور شر کے قریب نہ پھٹکے ۔ ماہِ رمضان میں روزوں کے سبب انسان کے لیے گناہوں سے بچنا سہل ہوجاتا ہے۔ قرآن پڑھنے اور سمجھنے کے سبب خیر کے راستے پر گامزن رہنا آسان ہوجاتا ہے لیکن جب انسان نیکی کے شعور سے روگردانی کرکے بدی میں ملوث ہوتاجاتا ہے( اور توبہ و استغفار بھی نہیں کرتا ) تو اس کےقلب پر سیاہ دھبے لگتے چلےجاتے ہیں ۔دل کی لگام ڈھیلی ہوتی چلی جاتی ہے ۔ وہ اسے گناہوں کےراستے سے روک نہیں پاتی ۔ سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں ‘مومن گناہ کوپہاڑ سمجھ کر اس کے اپنے آپ پر گرنے سے خوفزدہ رہتا ہے جبکہ کافر و فاجر اس کو مکھی کی مانند ہلکا خیال کرکے ناک کے اوپر سے اڑا دیتا ہے’’ ۔ حرص و ہوس میں مبتلا ہوجانے کے بعد مہینہ بھر کا روزہ رکھنے والے صائم کی حالت اس بڑھیا کی سی ہوجاتی ہے جورات بھر سوت کاتے اور صبح تار تار کردے۔

Comments are closed.