اسٹیج کے اتحاد کو عوامی اتحاد میں تبدیل کیجیے

اب مزید لائحہ عمل پیش کرنے کی ضرورت نہیں یہ وقت خود احتسابی کا ہے

اشرف علی بستوی

عام انتخابات کے نتائج کے دن سے سیاسی تجزیہ کاروں کا گروپ دو خیموں میں تقسیم ہوچکا ہے ایک گروپ ان تجزیہ کاروں کا ہے جو پہلے سے یہ دعویٰ کررہا تھا کہ بی جے پی کو دوبارہ اقتدار حاصل ہوگا لیکن وہ بھی ایسے زبردست نتائج کی امید نہیں کررہا تھا وہ اس حیران کن جیت سے سشدر ہے ، دوسرا گروپ ان تجزیہ کاروں کا ہے جو الیکشن سے قبل حکومت کی طرز حکمرانی اور ان کی پانچ سالہ ناقص کارکردگی کا تجزیہ کر رہے تھے اورانہیں یہ قوی امید تھی کہ ہندوستان کے عوام حکومت کو قطعی معاف نہیں کریں گے ، وہ اس جیت سے بے حد مایوس ہوئے ہیں انہیں اس بات کی فکر لاحق ہے کہ اس جیت کو کیا نام دیا جائے کیا ہندوستان کے 45 فیصد رائے دہندگان اب ہندوتوادی نظریے کے حامی ہوچلے ہیں۔ انہیں گزشتہ پانچ برس میں حکومت سے سوائے تکلیفوں کے کیا ملا ؟ پھر بھی وہ بی جے پی کے رتھ پرکیوں سوار ہوگئے؟ خیال رہے کہ 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کا ووٹ فیصد 31فیصد تھا 2019 میں 14 فیصد کا اضافہ ہوکر اب 45 فیصد ہوگیا ہے ۔ یہ نتائج عالمی سیاست پر کس نگاہ سے دیکھے جا رہے ہیں اور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اس میں کیا پیغام ہے اس رخ پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہئے ۔ کئی طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں ایک سوال تو یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی کوششوں کے باوجود اس قدر خلاف توقع نتائج کیوں آئے ؟ کیا اب واقعی ہندوستان ‘ہندو ریپبلک آف انڈیا ‘ بن جائے گا ؟ یہ اور اس طرح کے سوالات غور و خوض چاہتے ہیں ۔ ای وی ایم منیجمینٹ پر بھی بات کیجیے لیکن یہ بھی دیکھیے کہ گزشتہ پانچ برس میں بی جے پی نے ہندوتوا کو ایک پروڈکٹ بناکرپیش کیا اور اس کی مارکیٹنگ کی اپنی تمام ناکامیوں کے باوجود کامیاب رہی ۔ حکومت کی ناکامیوں کی تو ایک طویل فہرست تھی اس کے باوجود جی ایس ٹی ، نوٹ بندی ، مہنگائی اور بے روزگاری کیوں عوام کا ایجندہ کیوں نہیں بن سکی ؟

پھر نئے سرے سے تبصروں اور تجزیوں کا نیا دور شروع ہوا ہے 2014 کے عام انتخابات کے نتائج آنے کے بعد کی تحریروں اور 2019 کے نتائج کے بعد کے تبصروں ،تجزیوں اور مراسلوں میں کوئی فرق نہیں ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ تب کے تبصروں کے زبان و بیان میں بے باکی اور جرات مندی کا اظہار کچھ زیادہ کھل کرتھا ، اب ہمارے تجزیوں کی زبان میں لکنت آئی ہے۔ اب ہمارے درمیان کا ایک طبقہ بی جے پی سے سیاسی مفاہمت کی بات کرنے لگا ہے ۔ تب ہمارے اردو اخبارات کے مراسلوں اور تجزیوں کی سرخیاں یہ تھیں ‘ماضی کے نقوش مستقبل کے خطوط’ ۔ ‘تصویر وطن نئی راہوں کی جستجو’ ۔ ‘تندیئ باد مخا لف سے نہ گبھرا اے عقاب’ ۔ ‘اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے’ ۔ ‘طلاطم ہائے دریاہی سے ہے گوہر کی سیرابی’ ۔ ‘ووٹر زمانہ چال قیامت کی چل گیا’۔ ‘بادخالف سے گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے’۔ ‘بدلے ہوئے حالات میں مسلمانوں لا ئحہ عمل کیا ہو ‘۔ ‘ملک میں سیاسی تغیر کا تاریخی پس منظر’ ۔ ‘حکمت عملی کی تشکیل ‘۔ ‘موجودہ سیاسی تغیر کا تاریخی پس منظر ‘۔ عہد حاظر کا چیلنج وغیرہ وغیرہ ۔ دانشوروں اور اہل قلم کے متذکرہ بالا مضامین و تبصروں کا گزشتہ پانچ برس میں ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی سماجی بیداری پر کیا اثر پڑا ؟

پانچ سال قبل 16 مئی کے بعد سے لوک سبھا انتخابات کے خلاف توقع نتائج آنے کے فورا بعد سے جو تبصرے آنا شروع ہوئے تھے 23 مئی کے بعد سے تبصروں کا نیا سلسلسہ چل پڑا ہے ۔ ابھی یہ سلسلہ مزید دراز ہو گا بلکہ اس میں مزید تیزی آئے گی ۔ یہ تبصرے اورتجزیے قوم کی فکری راہنمائی انہیں عملی اقدامات کے لیے ہوتے ہیں ۔ 13 برس قبل ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی ، سماجی اور معاشی صورت حال پیش کرنے والی سچر کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آئی تھی اس وقت بھی کم و بیش مسلم دانشوران اور اہل قلم کی یہی صورت حال تھی لیکن ان تمام امور پر خود مسلمانوں کے درمیان سے کیا پہل ہوئی ؟ مسلمانوں کی حالت زار میں کوئی تبدیلی ہونے کے بجائے ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی میں اضافہ ہو گیا۔وہ سبھی سیاسی جماعتیں جو مسلمانوں کے ووٹ کی قیمت سمجھتی تھیں اور اپنے انتخابی جلسوں میں مسلمانوں کے مسائل پر بات کرتی تھیں وہ صرف لفظ ‘اقلیت’ سے کام چلانے لگی ہیں ۔ سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کی متناسب نمائندگی کی اگر بات کریں تو گزشتہ دس برس میں 2003سے لیکر 2018 تک کے درمیان آئی اے ایس کے نتائج یہ بتاتے ہیں مسلم امیدوارو3فیصد پار کر سکے ۔

سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کا ا صل ذمہ دار کون ہے ؟ اگر اقدامت کیے گئے تو ایسے مایوس کن نتائج کیوں آئے؟ قابل توجہ امر یہ ہے کہ کیا مسلم لیڈرشپ مرکز ی حکومت سے مسلم مسائل پر کوئی ورکنگ ریلیشن رکھنے کا خاکہ پیش کرے گی ؟ کیا ماضی کی کو تاہیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کا ہمارے پاس عزم ہے ؟ بہرحال اب وقت بہت تیز رفتاری سے بدل رہا ہے ملک کے سیاسی افق پر تاریکی تیزی سے پھیلتی جارہی ہے ضرورت اس بات کی ہے وقت ضائع کیے بغیر ملک و ملت کے تحفظ کے لیے پہلے سے سرگرم آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت ،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ یا اور کوئی وفاقی ادارہ تشکیل دیا جائے جو امت کے سبھی حلقوں کے مابین رابطہ کار کا کام کرنے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں داعیانہ کردار کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی عملی سرپرستی اور رہنمائی کرے انہیں یہ بتائے کہ وہ اس بدلے ہوئے سیاسی حالات میں کیا کریں اور کیا نا کریں ۔ مسلم تنظیموں میں باہم ربط و تعلق اور تعاون کو کیسے مضبوط کیا جائے ؟ اس کا طریقہ تلاش کیا جائے، اچھی بات یہ ہے کہ ابھی مسلم تنظیموں کے درمیان تعاون تو اس حد تک ہے کہ اگر کسی ایشو پر کوئی تنطیم ، مظاہرہ ،سمپوزیم ،سمینار اور کانفرنس کا انعقاد کرے تو لیڈر ایک دوسرے کے ساتھ اسٹیج شیئر کرلیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے جلسے کے شرکاء میں سبھی گروپوں کے لوگوں کی نمائندگی نہیں ہوتی اسی لیے بعض دفعہ سامعین یا مظاہرین کی تعداد قابل رحم ہوتی ہے۔ یہ اتحاد موثر ثابت نہیں ہوتا محض روایتی ہوتا ہے پروگرام میں ان کی شرکت واجبی سی ہوتی ہے ۔

جب تک اسٹیج پر دکھائی دینے والا اتحاد عوامی اتحاد میں تبدیل نہیں ہوگا مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہونگے ، کیا ایک مکتبہ فکر کے ذریعے منعقد کیے جانے والے اجلاس میں شریک عوام میں دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں کی شرکت کو یقینی بنایاجاتاہے ؟ نہیں ! لیکن مختلف سیاسی جماعتوں کے مابین وقتی سیاسی اتحاد کے لیےمنعقد ایسے سیاسی جلسوں میں الگ الگ سیاسی فکر کے لوگوں کو بڑی تعداد میں شرکت کرتے دیکھا گیا ہے اور پارٹی لیڈر ایک دوسرے کا تعاون کرنے کی اپیل کرتے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اتحاد بین المسلمین میں یقین رکھنے والوں کو یہاں سے سیکھنا چاہئے ۔ لہذا اب مزید لائحہ عمل پیش کرنے کی ضرورت نہیں یہ وقت خود احتسابی کا ہے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ گزشتہ پانچ برس کی ہماری کوششیں کیا رہیں ہم نے جو لائحہ عمل طے کیا تھا اس کا کیا حاصل رہا ؟ ہندوستانی مسلمانوں میں سیاسی بیداری میں کتنا اضافہ ہوا ؟ ہماری تعلیمی پسماندگی کا گراف کچھ کم ہوا یا اب بھی صرف 4 فیصد ہی مسلم نوجوان گریجویٹ ہیں ، ہمارے درمیان معیاری تعلیمی اداروں کے قیام کی صورت حال کیا ہے ؟ اطلاعاتی حسرت اور ابلاغی غربت کی شکار ملت اسلامیہ ہند کارپوریٹ میڈیا کے غلط پروپیگندہ کا جواب دینے میں کس قدر مضبوط ہوئی ؟

Comments are closed.