ہم جذباتی ہیں؟؟؟

مدثر احمد

ایڈیٹر ۔ روزنامہ آج کاانقلاب ۔ شیموگہ 

مسلم قوم کے تعلق سے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے سب سے بہترین امت کا درجہ دیا ہے تو وہیں دوسری جانب یہ امت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اتنی جذباتی ہوتی جارہی ہے کہ وہ اچھے اور برے کی تمیز میں فیصلہ کرنےکے لئے وقت ہی نہیں نکال پارہی ہے ، امت کے سامنے دو چار جذباتی تقریریں کردیں جائے تو امت اپنے آپ کو مقرر کے حوالے کردیتی ہے ۔ مسلمانوں کے سامنے دو چار کھٹے میٹھے ڈائلاگ کہہ دیے جائیں تو سارے مسلمان ڈائیلاگ کہنے والے کے پیچھے ہوجاتےہیں ، جب انتخابات کا وقت آتاہے اس وقت جذباتی باتیں بیان کردیں جائے تو سارے مسلمانوں کے ووٹ ایک طرف ہوجاتے ہیں ۔ مسجدوں میں جب کوئی مقرر جذباتی تقریر کرتے ہوئے دین اسلام کے حدود پار بھی کرلے تو مسلمان ان باتوں کو بھی آنکھیں بند کرتے ہوئے مان لیتے ہیں ۔ ملک میں پارلیمانی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد کے ہی حالات کو لے لیں کہ کس طرح سے مسلمان اپنے جذبات سے بے قابو ہوکر مخالفین اور مشرکین کو بھی اپنا مسیحا ماننے لگے ہیں ۔ انتخابی نتائج کے بعد ملک کے وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہہ دیا کہ آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں ( اقلیتوں ) کو نام نہاد پارٹیوں نے صرف ووٹ بینک کی طرح استعمال کیاہے اور اب ہم یعنی بی جے پی حکومت ایسا نہیں ہونے دیگی ۔ وزیر اعظم نریندر مود ی کی اس تقریر کے بعد ملک کے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ انکا مداح بن گیا ، اس کے بعد آندھرا کے نومنتخب وزیر اعلیٰ جگن موہن ریڈی نے نماز عید ادا کی تو سوشیل میڈیا پر انکی تعریف کے گُن گائے جانے لگے ۔ اسی دن یعنی عید الفطر کے دن وزیر اعظم نریندر مودی نے پھر ایک مرتبہ مسلمانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے اردو میں عید کی مبارکبادی پیش کی ۔ اس مبارکبادی کو بھی میڈیا سمیت سوشیل میڈیا میں ایسے پیش کئے جانے لگا جیسے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے عید کی مبارکبادی نہیں بلکہ آسمانی پیغام کو عام کیا ہے ۔ دراصل ہماری قوم نہایت جذباتی قوم ہے ، ہمارے پاس سوچنے سمجھنے اور تاریخ کو یادرکھنے کا مادّہ ہی نہیں رہا ۔ ان جذبات کے تعلق سے ہم مزید ایک مثال پیش کرنا چاہیں گے ۔ کچھ سال قبل رمضان کے مہینے میں ایک مسجد میں جمعہ کی نماز کے لئے خصوصی مقرر کی تشریف تھی ، جس مسجد میں وہ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے وہ مسجد زیر تعمیر تھی ، لیکن مقررخصوصی کا تعلق ایک مدرسے سے تھا اور وہ وہاں کے مہتمم بھی تھے ۔ دوران خطبہ مقرر نے پورے جوش کے ساتھ کہا کہ کو ن جنت میں گھر حاصل کرنا چاہتاہے ، ایک بوری سمینٹ مدرسے کو دلائیںجنت میں جگہ پائیں ، دس بوری سمینٹ دلائیں ، حوض کوثر کے قریب اپنا مقام بنائیں ، ایک دیوار بنائیں جنت میں حسین محل حاصل کریں ، جیسے جیسے مقرر خصوصی کی تقریر میں جو ش آرہا تھا اتنے ہی جوش کے ساتھ مصلیوں کا بڑا طبقہ مدرسے کے لئے چند ہ لکھوا رہا تھا ، وہاں بیٹھے ہوئے مصلی اس قدر جذباتی ہوچکے تھے کہ انہیں اس بات کا بھی ہوش نہ رہا کہ انکی خود کی مسجد زیر تعمیر ہے اور انکے مسجد کے امام کا خرچ بھی بڑی مشکل سے اکھٹا ہوتاہے ۔ بالکل اسی طرح سے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کو استحصال ہوتارہاہے تو اب انکی پارٹی اقلیتوں کو انکے حقوق سے نوازے گی ،اس پر مسلمانوں کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، وزیر اعظم نریندر مودی نے سال 2002 میں گجرات میں کس طرح سے خونی کھیل کھیلاتھا وہ اب بھی تاریخ کے اوراق میں تازہ ہیں اور اس خونی کھیل کے متاثرین اب بھی انصاف کی خاطر عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں ۔ اسی گجرات کے کئی بے گناہ اب بھی جیلوں میں بند ہیں تو کئی بچوں کے ماں باپ قتل ہوچکے ہیں ۔ سال 2002 کی بات کچھ دور کی ہی ہوئی ہے ، سال 2014 کے بعد کی بات کریںتو اس میں بھی مسلمانوں کو کیا کم زخم ملے ہیں ؟۔ پہلو خان ، محمد اخلاق ، حافظ محمد جنید سمیت 28 افراد نے گائے کے نام پر اپنی جانیں گنوائی ہیں ۔ کامن سیول کوڈ ، برقعے پر سوالات ، طلاق ثلاثہ پر پابندی کے علاوہ ایسے کئی معاملات ہیں جنہیں مسلمان بھلانہیں سکتے ۔ مگر ہمار ی قوم کو کیا ہوگیا کہ وہ دکھاوے پر جاکر اپنی عقل گنوارہے ہیں ۔ جب بھی مسلمانوں نے جذبات میں آکر فیصلے لئے ہیں انہوںنے نقصان ہی اٹھایا ہے ۔ ماضی میں کر ناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ بی یس یڈویورپا بھی مسلمانوں کے لئے ایک عمدہ مثال ہیں ، جب وہ بی جے پی سے الگ ہوکر کے جے پی کی تشکیل دے رہے تھے اس وقت مسلمانوں کے سامنے انہوںنے گھٹنے ٹیک دئے اور کہا کہ میں اللہ کی قسم کھاکر کہتاہوں کہ میں دوبارہ بی جے پی میں نہیں جائونگا، میں خون میں لکھ کر دیتاہوں کہ میں بی جے پی میں نہیں جائونگا ، اسکے ساتھ ہی انہوںنے ٹیپوسلطان کے تاج کی طرح دیکھنے والی ٹوپی پہن لی اور ہاتھ میں تلوار اٹھالی تو مسلمانوںکے دل ان پر آگیا اور مسلمانوں نے انہیں اور انکی پارٹی کو کانگریس کے بعد سب سے زیادہ ووٹ دے کر کرناٹک میں دوسرے مقام پر لاکھڑا کیا ، پھر انتخابات ختم ہونے کے مسلمانوں کے جذبات کو اسوقت ٹھیس پہنچی جب یڈویورپا نے اپنے تمام وعدوں و دعوئوں کو ایک لمحے میں بھلاکر بی جے پی میں شامل ہوگئے ۔ اس طرح سے مسلمانوں کے تعلق سے پھر ایک مرتبہ یہ رائے پکی ہوگئ کہ مسلمان صرف جذباتی قوم ہیں ۔ دیکھا جائے تو مسلمانوں کے پاس سب سے زیادہ شعور ہے ، سب سے زیادہ طاقت ہے ، سب سے زیادہ دولت ہے اور سب سے زیادہ علم کا خزانہ ہے لیکن ہم ان تمام صلاحیتوں کے ہونےکے باوجود اسکا استعمال کرنے کے بجائے جذبات کا سہارالیتے رہے ہیں جس کی وجہ سے ہماری قوم آج بے بس و لاچار قوم ہے ، مظلوم قوم ہے اور یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ بیکا ر قوم بھی ہے ۔اب وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کو جذبات کے علاوہ ہوش اور فکر سے کام لینا چاہئے ، ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ کس طرح سے یوروپ اور امریکہ جذبات سے نہ کھیلتے ہوئے طاقت و ہوش کے ساتھ کام کررہے ہیں ، کس طرح سے وہ ذہنی جنگوں کو انجام دیتے ہوئے دنیا کے تمام ممالک پر قبضہ جمع رہے ہیں ۔ اسرائیل کی مثال لیں کہ کس طرح سے وہ اپنا نشان نہ چھوڑتے ہوئے دنیا پر راج کررہا ہے ۔ ورلڈ بینک اسرائیل کا ، ٹکنالوجی اسرائیل کی ہے لیکن ہمیں کیا معلوم کہ کون کیا کررہا ہے ۔ جب بات ہم اپنے دشمنوں کی کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہماری زبانوں پر جواب آتاہے کہ یہودی قوم ہماری دشمن ہے لیکن وہ ہم سے کس طرح سے دشمنی نبھا رہی ہے ہم نے جاناہی نہیں ۔ جب ان دشمنوں سے مقابلہ کرنے کی بات ہم کرتے ہیں تو جوش و جذبے میں آکر کہتے ہیں کہ ہم انکی تیار شدہ اشیاء کا بائیکا ٹ کرینگے ، ٹھیک ہے ہم ان اشیاء کے بائیکاٹ کرینگے تو اسکا متبادل ہمارے پاس کیا ہے ؟۔ اشیاء کا بائیکاٹ کر نا تو دوسری بات ہے ہما رے پاس جو تعلیمی نظام ہے وہ بھی تو یہودیوں کی ہی دین ہے کیا ہم اس تعلیم کا بائیکا ٹ کرسکیں گے ؟۔ ہمیں جذبات کے رو سے کام کرنے کے بجائے عقل و شعور سے کام کرنے کی ضرورت ہے ،جذبات صرف عارضی ہوتے ہیں لیکن عقل مستقل کام کرتا ہے ، جس طرح سے کسی کے مرنے پر ہم جذباتی ہوتے ہیں، اسکے اوصاف کو یاد کرتے ہیں اور اس مرحوم کو کھونے کا غم ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے کہ اس کے بغیر ہماری زندگی ادھوری ہے اسی طرح سے ہمارے سامنے پیش آنے والے معاملات اور واقعات کو جذبات کی رو سے نہ دیکھتے ہوئے عقل کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔

Comments are closed.