بخش دو گر خطا کرے کوئی

مولانا محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب افک کی افواہ سنی جسے بعض نادان لوگ پھیلا رہے تھے اور آپ کی صاحب زادی حضرت عائشہ پر بہتان تراشی کر رہے تھے اور ان میں بعض ایسے لوگ بھی شامل تھے جن کی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مکمل کفالت کرتے تھے تو آپ کے دل کو شدید چوٹ، صدمہ ،رنج و تکلیف اور صدمہ و غم پہنچا،اور آپ نے قسم کھا لی کہ آپ کے فضل و احسان کی ناشکری کرنے والوں سے جو اس بہتان اور الزام تراشی میں ملوث ہوگئے تھے اپنا تعاون اور مدد و نصرت کا سلسلہ منقطع کر لیں گے تو اس موقع یہ آیت کریمہ نازل ہوئ :

*ولا یاتل اولو الفضل منکم و السعة ان یوتوا اولی القربی و المسکین و المھجرین فی سبیل اللہ و لیعفوا و لیصفحوا ،الا تحبون ان یغفر اللہ لکم و اللہ غفور رحیم* (النور )

تم میں جو لوگ صاحب فضل اور صاحب مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار مسکین اور اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہیں کریں گے ۔ انہیں معاف کر دینا چاہیے اور در گزر کرنا چاہیے کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور و رحیم ہے ۔

عفو و درگزر اور معافی و چشم پوشی ایک بلند انسانی خصلت و عادت ہے، مذکورہ آیت کریمہ سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ قرآن مجید میں اس صفت سے آراستہ ہونے والوں کو تقوی و طہارت کا نمونہ قرار دیا گیا ہے ۔ کیوں کہ جو لوگ اس خصلت سے متصف ہوتے ہیں ان کا شمار نیک لوگوں کے زمرے میں ہوتا ہے ۔ جو اللہ تعالٰی کی محبت و رضا جوئ سے سرفراز ہوتے ہیں :

*الکاظمین الغیظ ،و العافین عن الناس ۔ و اللہ یحب المحسننین* (آل عمران)

جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں ۔

علماء کرام نے لکھا ہے کہ معافی، درگزر اور چشم پوشی ایک محمود صفت بلند کردار اور اعلی مقام ہے، جس کی بلندی تک پرواز صرف انہیں لوگوں کی ہوسکتی ہے جن کے دلوں کے دروازے اسلامی تعلیمات کے لئے وا ہوگئے ہوں اور جن کے قلوب احکام شریعت پر عمل کرنے کے لئے رچ بس گئے ہوں اور جن کے نفوس اسلام کے وسیع اخلاق سے اثر پذیر ہوئے ہوں ۔ چنانچہ انہوں نے اللہ کی بارگاہ میں ملنے والی مغفرت ،ثواب اور عزت افزائی کو انتقام اور بدلہ کی خواہش اور نفس کی دیگر خواہشات پر ترجیح دی ہو ۔

عفو و درگزر سے کام لینا اور معافی کو اپنا شعار بنا لینا یہ خوش نصیب اور بلند اقبال ہونے کی دلیل اور نشانی ہے ارشاد خداوندی ہے :

*ولا تستوی الحسنة ولا السيئة ،ادفع بالتی ھی احسن فاذا الذی بینک و بینه عداوت کانه ولی حمیم و ما یلقاھا الا ذو حظ عظیم*

نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں،تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو،تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی دشمنی و عداوت پڑی ہوئ تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے ۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو اونچے نصیبے والے ہیں ۔

عفو و درگزر ایک طرف اعلی ظرفی، کردار کی بلندی ، مروت و شائستگی اور شرافت و انسانیت کی پہچان اور علامت ہے تو دوسری طرف حکمت و دانائی کا تقاضا اور سماجی، ملی اور معاشرتی ضرورت بھی ہے اگر انسان ہر چھوٹی بڑی غلطی پر پکڑ کرنے لگے اس پر مواخذہ اور باز پرس کرنے لگے تو یہ چیز جہاں نفسیاتی اعتبار سے انتہائی نقصان دہ ہوگا وہیں بعض دفعہ دوسرے شخص کو بغاوت اور سرکشی پر مزید آمادہ کر دے گا ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو معاف کر دیا جائے جہاں تک ممکن ہو چشم پوشی کی جائے اور اگر مواخذہ گرفت اور محاسبہ کرنا ضروری ہی ہوجائے تو اس کا انداز مثبت اور اس کا طریقہ اچھا اور حکمت سے پر ہونا چاہئے ۔ اور ہمیشہ یہ نکتہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اگر ہم کسی کی غلطیوں پر سختی کے ساتھ مواخذہ اور گرفت کریں گے تو بعید نہیں کل حشر کے میدان میں کہیں اللہ تعالی سختی کے ساتھ ہمارا مواخذہ فرمائیں اور گرفت کریں ۔ ایک عربی شاعر نے کہا ہے ۔

الا ان خیر العفو عفو معجل

و شر عقاب ما یجازی بہ القدر

 

یہ بات ذہن نشین کرلو کہ بہترین معافی بلا تاخیر کرنا ہے اور تقدیر کا انتقام سب سے بدتر انتقام ہے

سیرت کی کتابوں میں یہ واقعہ موجود ہے کہ ایک بار زین العابدین رح کے پاس کچھ مہمان تھے،آپ نے ایک خادم سے کھانا جلد لانے کا تقاضا کیا،وہ عجلت میں اوپر چڑھا، وہ تیزی سے تنور میں بھنے ہوئے گوشت کی سیخ لے کر آرہا تھا کہ زین العابدین رح کے ایک بچہ پر (جو نیچے زمین پر بیٹھا ہوا تھا) سیخ گرگئ ،جس سے وہ فورا جاں بحق ہوگیا،حضرت زین العابدین نے بجائے باز پرس کرنے یا ناراض ہونے کے غلام سے کہا :

۰۰ جاو تم آزاد ہو ،تجھ سے جان بوجھ کر یہ کام نہیں ہوا ۔ اور بچے کی تجہیز و تکفین میں لگ گئے ۔ ( صفة الصفوہ ۲/۵۶ / بحوالہ انسانی عظمت کے تابندہ نقوش ۴۷)

دنیا میں ہر انسان کی خواہش اور آرزو ہوتی ہے کہ اگر ان سے کوئ بھول چوک اور لغزش ہوجائے تو دوسرا اسے معاف کردے اور یہ اسی وقت ہوسکے گا جب خود اپنے دل میں بھی دوسروں کو معاف کر دینے کا جذبہ موجود ہو ۔ عفو و درگزر ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے انسان خود بھی ظلم و ستم زیادتی و نا انصافی سے محفوظ رہتا ہے اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھتا ہے ۔ نفس پر قابو رکھنا اور انتقامی جذبے کو دبا کر لوگوں کو معاف کر دینا اس جذبہ سے کہ کل حشر کے میدان میں اللہ تعالی بھی معاف کردے بہت بڑی خوبی اور خیر کی بات ہے اور عظیم صفت میں سے ہے ۔

لیکن عموما ایسا ہو نہیں پاتا ہے یہ کام بڑے دل گردے کا ہے اپنی انا کو فنا کرنا یہ ایک تعلیم،ہنر اور فن ہے جس طرح دیگر علوم و فنون کو سیکھا جاتا ہے اس طرح اس کو بھی بغیر سیکھے برتنا ممکن نہیں ہے اس کے لئے علماء کرام اہل اللہ اور بزرگان دین کی صحبت اور ان سے تعلق رکھنا ضروری ہے ۔

افسوس کہ ایک طرف مسلم معاشرہے میں بلکہ پورے انسانی سماج سے جہاں دیگر اخلاقی قدریں مٹتی چلی جارہی ہیں وہیں عفو و درگزر اور چشم پوشی کا جذبہ بھی ختم ہوتا جارہا ہے جب کہ یہ حقیقت ہے کہ جس معاشرے سے حلم و بردباری عفو و درگزر اور قوت برداشت اور غصہ کو پی جانے کے اوصاف ختم ہوجائے اور جس قوم کا دامن اس سے خالی ہوجائے تو یہ اس کے زوال و پستی اور گرواٹ و تنزلی کی تمہید اور ابتدائیہ ہے ۔

Comments are closed.