Baseerat Online News Portal

اور آئندہ 30 برسوں تک بی جے پی کی حکومت رہے گی!

شکیل رشید

(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)

بی جے پی بلاِروک ٹوک آئندہ کے ۳۰ برسوں تک راج کرے گی!

یہ میرا نہیں انگریزی کے ایک سنجیدہ اور غیر جانبدار صحافی شِوم وج کا کہنا ہے ۔ وہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ بی جے پی کی حکمرانی کے جاری رہنے کی سب سے بڑی وجہ کانگریس پارٹی کے صدر راہل گاندھی ہوں گے ۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ لوک سبھا کے نتائج ’فیصلہ کن ’ ہیں ، رائے دہندگان نے مودی کو صرف اقتدار ہی پر دوبارہ متمکن نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے مکمل طور پر راہل گاندھی کو مسترد کردیا ہے ۔ مودی نے چناؤ کو اپنے اور راہل گاندھی کے درمیان انتخاب میں تبدیل کرکے ، اس کا پورا فائدہ اٹھایا ہے ۔ شِوم وج کا کہنا ہے کہ بہتوں کو یہ امید تھی کہ بھلے سوسیٹیں نہ آئیں پر کانگریس کی 2014 میں جو سیٹیں تھیں اس بار وہ دوگنی ہوجائیں گی اور اس کے ووٹ شیئر میں بھی اضافہ ہوجائے گا ، بی جے پی کی سیٹیں کچھ گھٹیں گی ۔ پر کانگریس جہاں 2014 میں آکر کھڑی ہوئی تھی تقریباً وہیں کھڑی ہوئی ہے ، بس اس کی 44 لوک سبھا کی سیٹیں بڑھ کر 52 ہوگئی ہیں ۔ اور ووٹ شیئر میں بھی کچھ اضافہ ہوا ہے ، پہلے ووٹ شیئر 19.3 تھا جو اب بڑھ کر 19.5 ہوگیا ہے ! سچ تو یہ ہے کہ کانگریس کی سیٹیں ہندی بیلٹ میں نہ صرف پہلے کے مقابلے گھٹی ہیں بلکہ ووٹ شیئر بھی کم ہوا ہے ۔ اور راہل گاندھی اپنی خاندانی وراثت یعنی امیٹھی کی لوک سبھا سیٹ تک نہیں بچاسکے ہیں ۔ اس کا مطلب بقول شوم وج یہ ہے کہ ہندوستان بھر نے راہل گاندھی کو مسترد کردیا ہے ۔

شوم وج کی بات درست ہوسکتی ہے ، پر راہل گاندھی کو ہندوستان بھر نے کیوں مسترد کردیا ، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب انہوں نے نہیں دیا ہے ۔ اور اگر جواب دیا ہے تو یہ کہ راہل کسی ایک سیدھے سے سوال کا سیدھا سا جواب دینے کی اہلیت نہیں رکھتے ، اگر یہ سوال کیا جائے کہ وہ کون سا آم پسند کرتے ہیں تو گھماپھرا کر جواب دیتے ہیں ۔ شوِم وج کے بقول راہل گاندھی لوگوں کے لئے کچھ اسقدر ناپسندیدہ بن گئے ہیں کہ روزگار کے مواقع فراہم نہ کرنے والے مودی کو وہ راہل پر ترجیح دیتے ہیں ۔ ان کے مطابق کانگریس کی حالت ایسی غیر ہوچکی ہے کہ گذشتہ 24 سالوں میں وہ گجرات ریاست میں اپنی حکومت نہیں بناسکی ہے اور اب سارے ملک میں ’گجرات ماڈل‘ پر عمل کیا جارہا ہے ۔

فی الحال مودی وزیراعظم ہیں ، ان کے بعد امیت شاہ وزیراعظم بنیں گے ۔ اس کے بعد یوگی وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ کانگریس کمزور ہے لیکن علاقائی پارٹیوں کے مقابلے مضبوط ہے اس لئے جب تک کانگریس کا وجود برقرار ہے علاقائی پارٹیاں بی جے پی کے لئے کوئی خطرہ نہیں بن سکتیں، لہٰذا آئندہ کے تیس برسوں تک ملک پر بغیر اپوزیشن کے خوف کے بی جے پی کی حکمرانی برقرار رہے گی اور جس روزراہل گاندھی سیاست چھوڑیں گے اس روز مودی امیت شاہ کی جوڑی کا زوال شروع ہوجائے گا ۔

شِوم وج کے تجزیئے سے مجھے انکار نہیں ہے ، یہ بات بالکل درست ہے کہ رائے دہندگان کی ایک بڑی تعداد نے راہل گاندھی پر نریندر مودی کو ترجیح دی ہے ، لیکن شاید یہ کہنا درست نہیں ہے کہ سارے ہندوستان نے راہل کو مسترد کردیا ہے ۔۔ پر مجھے یہاں اس پر بھی کوئی بات نہیں کرنی ہے کہ ملک نے راہل کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے یا نہیں ، مجھے بات یہ کرنی ہے کہ ایک ایسا شخص مودی جو روزگار کے مواقع بھی فراہم نہ کرسکتا ہو وہ کیسے لوگوں کی پسند بن سکتا ہے ؟ مجھے اس بات پر بھی حیرت ہورہی ہے کہ ایک ایسی سیاسی پارٹی بی جے پی ، جس کے راج میں ملک نے ’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ ہی نہ درکنار کیا ہو بلکہ ملک کے ’ وکاس‘ کو بھی فرقہ پرستی کی بھینٹ چڑھا دیا ہو ، وہ پارٹی کیسے تیس برسوں تک ملک پر حکومت کرسکتی ہے ؟ مجھے اس سوال کا جواب بھی نہیں مل رہا ہے کہ ایک ایسا شخص جو قتل کے الزام میں اپنی ہی ریاست سے تڑی پار رہا ہو ، وہ ، اور ایک ایسا شخص جو اپنی ریاست میں زہریلی تقریریں کرنے کا ملزم ہو ، وہ کیسے مودی کے بعد اس ملک کے وزیراعظم بن سکتے ہیں؟؟

راہل گاندھی کی شخصیت اور کردار کی اگر بات کی جائے تو شاید اس میں بہت زیادہ جھول نہ نظر آئیں ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ کانگریس اب پہلے والی کانگریس نہیں رہی ہے ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کانگریس کو اس حالت تک پہنچانے کے جسقدر ذمے دار راہل گاندھی ہیں اس سے کہیں زیادہ ذمے دار ،ان سے پہلے کے کانگریسی سیاست داں ہیں ۔ کانگریس نے اس ملک میں کئی دہائیوں تک حکومت کی ہے ۔ اگر وہ چاہتی تو اس ملک سے غربت کا بھی خاتمہ ہوجاتا اور فرقہ پرستی بھی دم توڑ دیتی لیکن کانگریسی قائدین نے اپنے خودغرضانہ سیاسی مفادات کے لئے نہ غربت کے خاتمے پر بہت توجہ دی اور نہ ہی فرقہ پرستی کے خلاف آرپار کی جنگ لڑی ۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید زیادہ سچ ہوگا کہ کانگریس کے دامن سے ایسے سنگھی اور ہندو مہاسبھائی ہمیشہ چمٹے رہے ہیں جنہوں نے فرقہ پرستوں کو دودھ پلایا ہے ، جو آر ایس ایس کو متحرک رکھنے کا سبب رہے ہیں ، جنہوں نے دلتوں کا استحصال کیا ہے اور مسلمانوں کی یہ حالت کردی ہے کہ معاشی ، تعلیمی ، سماجی ، تہذیبی اور صنعتی ہر سطح پر ان کی نمائندگی گھٹتے گھٹتے تقریباً صفرپر جاپہنچی ہے اور بقول سچر کمیٹی رپورٹ وہ دلتوں سے بھی بدتر ہوگئے ہیں ۔ یہ کانگریس ہی تھی جس نے بابری مسجد کے مسئلے کو ازسرنو تازہ کیا ، بیف کے مسئلے کو حل نہیں کیا ، یکساں سول کوڈ کی تلوار کو لوگوں کے سروں پر لٹکائے رکھا ۔۔۔ اور یہ کانگریس ہی ہے جس نے ’ سیکولرزم‘ کی جڑوں کو اس قدر کھوکھلاکردیا ہے کہ بی جے پی کو لوک سبھا میں دو کی جگہ 352 سیٹیں حاصل کرنے کے لئے مواقع ہی مواقع میسر ہوگئے ہیں ۔۔۔ راہل گاندھی کو ان کے اکابرین نے جس کانگریس کی باگ ڈور سونپی ہے وہ اس قدر بے دم تھی کہ مودی اور شاہ کی جوڑی کے لئے یہ نہ بڑا خطرہ بن سکی اور نہ ہی یہ بی جے پی کے خلاف ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر سکی ۔

راہل گاندھی اور کانگریس کے تابوت میں آج کے کانگریسیوں نے بھی کیلیں ٹھونکنے کا کام ہنسی خوشی کیا ہے اور اب مزید کھل کر کررہے ہیں ۔ مثالیں لے لیں:

l مدھیہ پردیش کے کانگریسی وزیراعلیٰ کمل ناتھ ، راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت اور سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم اپنے بیٹوں کو چناؤ جتانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے رہے ۔ انہیں کانگریس پارٹی کو کوئی پروا نہ تھی۔

lمہاراشٹر میں کانگریس کا بکھراؤ ،رادھا کرشنا وکھے پاٹل اور عبدالستار کا استعفیٰ اور یہ دعویٰ کہ آٹھ سے دس کانگریسی جلد ہی بی جے پی میں شمولیت اختیار کریں گے ۔

lتلنگانہ میں کانگریس میں بھونچال ، ۱۲ کانگریسی اراکین اسمبلی کی ٹی آر ایس میں شمولیت ۔

اگر جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ کانگریس کے زمینی سطح کے ورکر بھی اور قائدین بھی ، چناؤ کے دوران تقریباً غیر سرگرم تھے ۔ اور یہ صورت حال تقریباً تمام ہی ریاستوں میں تھی ، جنوبی ہند کی چندریاستوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا جاسکتا ہے ۔ ایک دوست ہیں سلیم الوارے وہ سیاست کی نبض ٹٹولتے رہتے ہیں اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے ہر سطح لیڈروں سے مل کر ان کے ذہنوں میں بھی جھانکنے کی کوششیں کرتے ہیں ۔ وہ بتانے لگے کہ مہاراشٹر میں کانگریس اور این سی پی کے کئی چھوٹے بڑےلیڈروں سے بات ہوئی تو پتہ چلا کہ چناؤ کے دوران نہ انہوں نے رائے دہندگان کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے کچھ کیا اور نہ ہی ان کی پارٹیوں کے ورکروں نے ، بلکہ وہ سب غیر متحرک تھے اور ان کی بے عملی کے نتیجے میں شیوسینا اور بی جے پی کے ورکروں کی چاندی تھی ، وہ رائے دہندگان کو بوتھوں تک لے جانے میں بھی کامیاب رہے اور سنگھی گٹھ جوڑ کے لئے ووٹ ڈالوانے میں بھی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کانگریس اور این سی پی کے لیڈروں کے گھروالوں تک نے شیوسینا اور بی جے پی کے امیدواروں کو ووٹ دیئے ۔ اور یہ صرف مہاراشٹر یا ممبئی میں ہی نہیں ہوا ،یہ ملک بھر میں ، بالخصوص ہندی بیلٹ اور ایم پی ،راجستھان ، گجرات میں بھی ہوا ۔

کانگریس کو اپنوں کی غداری کا سامنا رہا ۔۔۔ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کی محنت تو نظر آتی رہی لیکن دوسرے لیڈران کی محنت بس کہیں کہیں نظر آئی ۔ لیکن یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کانگریس میں اور ہے ہی کون ؟ محنت تو راہل اور پرینکا کو ہی کرنی تھی۔ پر اگر اس محنت میں ورکروں اور دوسرے لیڈروں کی محنت بھی شامل ہوجاتی تو کانگریس کی ہار شاید اتنی افسوسناک نہ ہوتی ۔ ایک جانب جہاں کانگریس کے تنظیمی ڈھانچے کی ناکامی یا بے حسی بی جے پی کی جیت کا سبب بنی وہیں دوسری جانب راہل گاندھی کا فرقہ پرست عناصر سے آر پار کی لڑائی لڑنے سے ’ خوف‘ بھی بی جے پی کی جیت کا سبب بنا۔ پہلے کے کانگریسیوں نے اگر ’سیکولرزم‘ کو اپنی جیت کے لئے ’خودغرضوں‘ کی طرح استعمال کیا تھا۔ وہ سیکولرزم کا صرف نام لیتے تھے کرتے تھے غیر سیکولر حرکتیں۔۔۔ توآج کے کانگریسیوں نے راہل گاندھی کی قیادت میں ’ سیکولرزم‘ کو اٹھاکر طاق پر ہی رکھ دیا ہے ، ظاہر ہے کہ اس ملک کا وہ طبقہ ۔۔۔ اور یہ بہت بڑا طبقہ ہے ۔۔۔ جو سیکولر سیاست دانوں سے امیدیں رکھتا ہے اسے اس حرکت سے مایوسی ہی حاصل ہوئی ہوگی ، غصہ بھی آیا ہوگا اور اس کے ووٹ بکھرے بھی ہونگے ۔ ووٹوں کا یہ بکھراؤ بھی بی جے پی کی جیت کا ایک بڑا سبب ہے ۔ راہل گاندھی کا ’ نرم ہندوتو‘ بی جے پی کے ’ پُرتشدد ہندوتوا‘ کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ ’ ہندوتوا‘ کے مقابلے کے لئے اس کے برخلاف نظریئے کی ضرورت ہے، اور یہ نظریہ ’غیر فرقہ پرستی‘ کا نظریہ ہے ۔ کانگریس نے اگر ’ نرم ہندوتوا‘ کے نظریئے کو تج نہیں کیا تو پھر یقیناً آئندہ کے ۳۰ برسوں تک اس ملک پر بی جے پی کی ہی حکمرانی رہے گی ۔ ۔۔۔

اب اس سوال پر لوٹ کر آتے ہیں کہ ایک ایسے شخص ، مودی کو ، جس کی حکومت لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے تک میں ناکام رہی ہے ،لوگوں نے کیسے اور کیوں راہل گاندھی پر ترجیح دی ؟؟ اس کے جواب میں میرے ایک شناسا ’ سیاسی مبصر‘ کہنے لگے کہ یہ سارا کھیل ’ قوم پرستی کی لہر‘ کا ہے ۔ مودی اور ان کی کمپنی مختلف طرح کی ’لہریں‘ پیدا کرنے کی ماہر ہے ۔ گجرات 2002 یعنی گجرات کے مسلم کش فسادات کے بعد ایک ’مودی لہر‘ پیدا کی گئی تھی، اس کے لئے بڑی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور اس لہر کے سہارے 2014 کا لوک سبھا چناؤ بی جے پی نے جیتا تھا۔ اس ’ مودی لہر‘ کو ’ کامیاب‘ بنانے میں کئی باتیں کام آئی تھیں ۔ آر ایس ایس نے پوری طاقت سے پرچار میں حصہ لیا تھا۔ دلتوں ، کمزوروں اور پچھڑوں کو بی جے پی نے اپنے ساتھ ملانے کے لئے بہت ساری قدیم روایات کو تج دیا تھا۔ کئی ریاستوں میں ان سیاسی پارٹیوں کے ، جن سے بی جے پی کو خطرہ تھا ، اہم لیڈروں کو کسی نہ کسی طرح اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ اور اس سے بھی اہم ’ ہندو۔ مسلم تناؤ‘ پیدا کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ ایودھیا معاملے کو اچھالا ، طلاقِ ثلاثہ کو موضوع بنایا، پاکستان کو ایک خطرناک دشمن کی طرح پیش کرنے میںکامیابی حاصل کی اور سرحدوں پر جنگ جیسا ماحول تیار کرکے اور دو ’ائر اسٹرائیک ‘کے ڈرامے رچ کر ملک بھر میں ایک بڑی اکثریت کے دماغوں میں ’ قوم پرستی‘ کا ایک نشہ بھردیا، جس کے سرور میں ڈوب کر انہیں بی جے پی کے علاوہ اور کوئی نظر نہیں آیا۔ یہ سچ ہے کہ نوٹ بندی ، جی ایس ٹی اور مندی سب کے سب مسئلے ’ قوم پرستی‘ کے نشے میں بہہ گئے ۔

لیکن کیا یہ بھی سچ نہیں کہ بی جے پی کو تقویت پہنچانے میں ایک بڑا اہم کردار حزب اختلاف کا بھی رہا ہے ؟ علاقائی سیاسی پارٹیوں کے انتشار نے بی جے پی کو مضبوط ہونے کا سنہرا موقع فراہم کیا اور اس نے علاقائی سیاسی پارٹیوں کے رائے دہندگان کو اپنا ’ ووٹ بینک‘ بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا سارا زور لگاڈالا ۔ لہٰذا آج صورت حال یہ ہے کہ جہاں بی جے پی علاقائی پارٹیوں کے بل بوتے پر کامیاب ہوتی رہی تھی وہاں آج علاقائی پارٹیاں بی جے پی کے سہارے جیت حاصل کررہی ہیں ۔ چاہے بہار میں پاسوان کی پارٹی ہو یا نتیش کمار کی یا پھر مہاراشٹر میں شیوسینا ہو ۔ علاقائی پارٹیاں اگر متحد ہوتیں تو شاید بی جے پی کی سیٹیں کم ہوجاتیں اور اس کے سامنے یہ سوال اٹھ کھڑا ہوتا کہ اس کی طاقت کیوںگھٹ رہی ہے اورکیوں نہ ’فرقہ پرستی‘ اس کے کام آرہی ہے ، نہ ایودھیا اور نہ ہی قوم پرستی ۔۔ اور جب یہ سوال بی جے پی کے سامنے آتا تو وہ غلطیاں کرنے پر مجبور ہوتی اور غلطیاں اس کے زوال کا سبب بنتیں ۔

پر اب تو چڑیاں چگ گئیں کھیت ۔۔۔ اب تو سارا ملک بی جے پی کے قبضے میں ہے اور یقیناً اگر کانگریس نہ ’سنبھلی‘ راہل گاندھی کے قدم نہ جمے ، اپوزیشن منتشر رہی اور سیکولر کہلانے والوں نے ملک میں سیکولر قدروں کو زندہ کرنے کے لئے کوئی عملی قدم نہ اٹھایا ، اور اگر فرقہ پرستی کے خلاف آرپار کی لڑائی نہ لڑی گئی تو بلا شبہہ آئندہ کے تیس سالوں تک بی جے پی حکمراں رہے گی ۔۔ مودی کے بعد امیت شاہ اور ان کے بعد یوگی وزیراعظم ہونگے ۔ ویسے یہ انسانی تجزیہ ہے ، اللہ رب العزت نے ہوسکتا ہے کہ قسمت میں کچھ اور ہی لکھ رکھا ہو ۔

Comments are closed.