ٹوئنکل کے دو مسلم قاتل

ٹوئنکل کے دو ’مسلم ‘قاتل
اتواریہ: شکیل رشید
علی گڑھ میں ڈھائی سالہ بچی کا اغوا کیاگیا، پھر اسے قتل کرکے اس کی آنکھیں نوچ لی گئیں!
اس حیوانیت کے مرتکبین کے نام زاہد اور اسلم ہیں۔ اب کوئی لاکھ کہے کہ بھلا کوئی مسلمان کہاں ایسی حرکت کرسکتا ہے، وہ کہتا رہے۔ کبھی ‘ ہوسکتا ہے مسلمان ایسی حرکتیں نہ کرتے رہے ہوں لیکن اب تو ایسی حرکتیں کرنے والوں کے جو نام سامنے آتے ہیں ان میں اکثریت مسلم ناموں کی ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی یہ شکوہ کرتا پھرے کہ اس ملک میں مسلمان اپنی آبادی کے لحاظ سے جیلوں میں کہیں زیادہ ہیں، تو وہ شکوہ کرتا رہے۔ بھلا زاہد اور اسلم جیسوں کی جگہ جیلیں نہ ہوں گی تو کیا محل ہوں گے!
بات دس ہزار روپئے کی تھی !
وہ جو ننھی سی جان گئی جسے ٹوئنکل کہاجاتا تھا، اس کے والدین نے اسلم اور زاہد سے دس ہزار روپئے قرض لیے تھے جو وہ دے نہ سکے اور بدلے میں انہیں اپنی بیٹی کھونی پڑی، اور اس طرح سے کھونی پڑی کہ اس کی آنکھیں دید وں سے نکال لی گئی تھیں! سوال یہ ہے کہ حیوانوں نے ایسا کیوں کیا؟ اس سوال کے جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ حیوان تو ایسا ہی کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ انہوں نے کچھ لوگوں کو اور قرض دے رکھے ہوں اور انہیں اس ننھی کی جان لے کر انتباہ دے رہے ہوں کہ تمہارے بچوں کا حشر بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے۔ بچی کے باپ کا نام بنواری ہے، ظاہر ہے کہ اسلم ، زاہد اگر کسی بنواری کی بچی کے ساتھ ایسی حرکت کریں تو معاملہ ’فرقہ وارانہ‘ رنگ لے لیتا ہے۔ آج جبکہ مسلم قوم ویسے ہی ایک کھائی کے کنارے کھڑی ہوئی ہے اس طرح کے واقعات اسے کھائی کے انتہائی کنارے تک لے جانے کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس واقعے نے علی گڑھ کے مسلمانوں کو کیسی تشویش میں مبتلا کیا ہوگا! اور دین اسلام الگ بدنام ہوا ہوگا! کون ان افراد کے منہ روک سکتا ہے جو اس واقعے کے بعد یہ کہیں گے کہ مسلمان تو ہوتے ہی ایسے ہیں! یہ واقعہ مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے، اور مسلمانوں او راسلام کے خلاف لوگوں کے دلوں میں نفرت کے بیج بونے کا ایک سبب بنا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں میں اس طرح کے واقعات جو بڑھ رہے ہیں ان کے تدارک کےلیے کیاکیاجائے؟
رمضان المبارک کے مقدس ایام میں جب ایک پردوسرے کا خون بہانا حرام ہے بہار میں ایک انتہائی بھیانک واردات سامنے آئی تھی، دشمنی کا بے حد خوفناک چہرہ سامنے آیا تھا۔ زمینی تنازعےمیں ایک شخص نے گھر میں گھس کر ایک حاملہ عورت اور اس کے تین بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ مرنے والے بھی مسلمان تھے او رمارنے والابھی مسلمان تھا۔ یوپی میںایک مسلم نوجوان نے تین بے قصور بچوں کو قریب سے گولی سے اڑادیا تھا۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ مسلمان ہر طرح کی گھنائونی حرکت کےلیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے، بس ایک ذرا سی اس کی انا پر چوٹ پڑے، کوئی زمینی تنازعہ سبب بنے یا لین دین کے معاملے میں بس ذرا سی تاخیر ہوجائے۔۔۔۔بچیاں تو خاص طور سے نشانہ بنتی ہیں۔
اللہ رب العزت نے بچیوں کے قتل پر سخت عذاب سنا رکھا ہے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ اسلام میں پہلے بعض عرب قبائل میں غیرت وحمیت کی وجہ سے بچیوں کو قتل کردیاجاتا تھا یا زندہ دفن کردیاجاتھا۔ اللہ رب العزت نے اس طرح کے بے رحمانہ سلوک سے روکا، او راللہ کے رسول حضرت محمدﷺ نے بچیوں سے پیار کا عملی پیغام دیا۔ ’سورہ تکویر‘ کی ایک آیت ہے ’وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ ، بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ‘ ترجمہ: ’جب جیتی گاڑدی گئی بیٹی سے پوچھیں گے کہ کس جرم میں قتل کردی گئی ہو ۔‘ یہ آیت بتاتی ہے کہ بچیوں اور بچوں کا قتل اللہ رب العزت کے یہاں کس قدر قابل نفریں ہے اور قاتلوں کو کیسی سخت سے سخت سزا ملے گی۔ علمائے کرام اور دانشوران عظام کو چاہئے کہ وہ بچوں کے حقوق کے سلسلے میں لوگوں سے مذاکرہ کریں، والدین، اعزاء، احباب، رشتے داروں اور غیروں کو بتائیں کہ بچے اس لیے نہیں ہوتے کہ انہیں مارا جائے، بچے تو پھول ہوتے ہیں ، ان سے نرمی سے پیش آناچاہئے۔ اللہ سے یہی دعا ہے کہ مسلم قوم کو سلیموں اور زاہدوں جیسے حیوانوں سے پاک کرے۔ (آمین)
Comments are closed.