مسجدیں مرثیہ خواں ہے کہ نمازی نہ رہے

نازش ہما قاسمی
رمضان المبارک کے مقدس مہینے کو گزرے ہوئے ابھی ایک ہفتے بھی نہیں ہوا کہ مسجدیں ویران ہوگئیں، وہ مساجد جو پنج وقتہ نمازیوں سے پورے ماہ بھری ہوئی تھیں اب شکوہ کناں ہیں کہ کوئی نمازی نہیں ہے جو پرانے تھے وہی ہیں، بس فجر میں ایک یا ادھوری صف ظہر میں پانچ چھ صفیں اور باقی نمازوں کا بھی وہی حال مصلیان ندارد، شاید ایسا لگتا ہے کہ رمضان کے ایک ماہ میں ان ماہانہ نمازیوں نے اپنی مغفرت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا ہے؛ اس لیے اب انہیں نمازوں کی ضرورت نہیں رہی ورنہ نماز تو ہر ماہ ہر دن فرض ہے اور روز محشر کا اوپن سوال ہے کہ سب سے پہلے نماز کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی اس کے بعد ہی آگے کی کارراوئی کی جائے گی انسان کے دوزخی اور جنتی ہونے کا فیصلہ پہلے سوال کی کامیابی ناکامی پر ہی منحصر ہے؛ لیکن دور حاضر کے مسلمان شاید رمضان کے مہینے میں انتی رحمتیں اتنی برکتیں سمیٹ لیتے ہیں کہ دیگر ماہ میں وہ برکتوں کے حصول، رحمتوں کی امید اور مغفرت کی آس نہیں لگاتے، ان کا کام رمضان المبارک سے ہی ہوجاتا ہے انہیں اطمینان قلبی ہوجاتا ہے کہ ہماری نمازیں ہمارے صدقات و خیرات جو ماہ رمضان میں ادا کی گئی وہ قبول ہوگئی اب ہمیں دوسرے ماہ میں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں اب یہی سرمایہ رمضان دوسرے مہینوں کے لیے کافی ہے اگر ایسا نہیں ہے تو جیسے ہی ہلال عید کا اعلان ہوا لوگ مسجدوں سے ایسے غائب ہوئے جیسے کبھی آئے ہی نہیں تھے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عبادت و ریاضت کا سلسلہ چلتا رہتا ماہ رمضان میں جو عبادت کی عادت بنی تھی اسے دراز کیاجاتا اور دیگر مہینوں میں بھی اسی طرح نمازیں پڑھی جاتیں نیک اعمال کیے جاتے برائی سے دور رہا جاتا تاکہ ہم پر جو مصیبتیں آئی ہوئی ہیں وہ ختم ہوجاتی جو مصائب و آلام گھیرے ہوئے ہیں ان کا حلقہ ٹوٹ جاتا جو حکمراں مسلط کیے گئے ہیں ان کی نیتیں تبدیل ہوجاتیں اور وہ عادل بن جاتے رحم دل ہوجاتے؛ لیکن جیسے ہمارے اعمال ہیں ویسے ہی ہم پر حکمراں مسلط ہیں ہم اپنے اعمال کو سدھاریں مسجدیں آباد کریں خدا کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہا کریں نماز دین کے بنیادی ستونوں میں سے ایک اہم ستون ہے، حدیث میں آتا ہے: جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی وہ کافر ہوگیا (من ترک الصلوت متعمدا فقد کفر)۔۔۔نماز برائی و بے حیائی سے روکتی ہے (ان الصلوۃ تنہی عن الفحشاء والمنکر) اور جب ہم نماز ہی نہیں پڑھیں گے ہمیں نماز کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہی نہیں رہے گا تو ظاہر سی بات ہے ہم برائیوں میں ملوث رہیں گے طرح طرح کے خیالات کے حصار میں رہ کر برائی کی طرف دوڑیں گے اور اس برائی کو انجام تک پہنچائیں گے۔ آج ہم مسلمانوں میں نہ جانے کتنے ایسے لوگ ہیں جو اذان کی آواز سن کر ان سنی کردیتے ہیں بے حس رہتے ہیں خدا کی پکار پر لبیک نہیں کہتے نماز پڑھنے کی وجہ سے اپنے کاروبار، روزی و روزگار میں نقصان ہونا سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نماز پڑھنے چلے گئے تو اتنی دیر میں مارکیٹ کا ریٹ بڑھ جائے گا ہمارے سامان کی خریدوفروخت نہیں ہوگی خسارہ ہوگا؛ حالاں کہ جب ذہن میں یہ بیٹھ جائے کہ روزی کی ذمہ داری خدا نے لی ہے وہ ہر حال میں رزق دے گا اور ایسی جگہوں سے دے گا جہاں سے تمہیں گمان بھی نہیں تھا تو شاید وہ حصول معاش میں نماز کو نہ چھوڑیں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ پنج وقتہ نماز کا اہتمام کریں جس کی زندگی میں نماز نہیں وہ مسلمان نہیں اور ہم بنا نماز کے مسلمان ہونے کا دعوی کیسے کرسکتے ہیں ہمیں اس کا کوئی حق نہیں۔!
اپنی مساجد کو ویرانی سے بچائیں اگر ہم مسجدوں کو آباد کرنا شروع کردیں تو ہماری مسجدوں پر کوئی غلط نگاہ نہ ڈالے بلاتفریق مسلک تمام مسلمان متحد ہوں مسجدوں کو نہ بانٹیں کہ یہ دیوبندی کی مسجد ہے یہاں بریلویوں کا داخلہ ممنوع ہے یہ بریلویوں کی مسجد ہے یہاں وہابیوں کا داخلہ ممنوع ہے مسجدیں نہ دیوبندیوں کی ہیں اور نہ ہی بریلویوں کی؛ مسجدیں خدا کا گھر ہے اور خدا کے گھر میں اس کے ہر بندے کو آنے کی اجازت ہے جو خدا سے لولگانا چاہتا ہے۔ مسجدوں کے گیٹ پر اس طرح کے بورڈ آویزاں کرکے مسلکی تعصب کا مظاہرہ نہ کریں دشمن ہمیں مٹانا کے لیے ایک ہوچکا ہے جس کے ہزاروں خدا ہیں وہ متحد ہیں اور ایک ہم ہیں جس کا خدا ایک، نبی ایک، قرآن ایک وہ منتشر ہے اور فرقہ فرقہ مسلک مسلک کھیل رہا ہے دشمن ہمیں مارتے وقت یہ تمیز نہیں کرتا کہ ہم دیوبندی ہیں، وہابی ہیں، شیعہ ہیں، سنی ہیں یا اہل حدیث ہیں وہ بس نام پوچھتا ہے اور گولی ٹھونک دیتا ہے آپ کا سلیمان نام ہونا گولی مارنے کے لیے کافی ہے، نام فرقان ہے پاکستان بھیجے جانے کے لیے کافی ہے نام فخرالاسلام ہے دہشت گرد ہونے کے لیے کافی ہے؛ اس لیے پہلے تو مسجدیں آباد کریں اور مسجدوں کو نہ بانٹیں مسجدوں میں اشتعال انگیز تقریریں نہ کریں مسجدوں کو امن و شانتی کا گہوارہ رہنے دیں منبر و محراب سے مسلک مسلک نہ کھیلیں؛ بلکہ آپسی اتحاد کا درس دیں اخوت و بھائی چارگی سے رہنے کا سبق پڑھائیں اور ہر حال میں ملک کے تئیں وفادار رہنے کا پیغام دیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان ملک کے وفادار ہیں؛ لیکن باطل قوتیں اس طرح کی سازشیں کررہی ہیں کہ مسلمانوں کا کردار مشکوک ہوجائے انہیں پتہ ہے کہ ہم سے بڑا محب وطن کوئی نہیں ہوسکتا پھر بھی وہ ہمارے کردار کو مشکوک کرکے ہمیں ذلیل و رسوا کرنا چاہتا ہے؛ اس لیے ہمیں جہاں اور جب بھی موقع ملے اپنی حب الوطنی پر آنچ نہ آنے دیں۔
Comments are closed.