پھر آسکتا ہے ہلاکو خان!!!

مدثر آحمد
ایڈیٹر روزنامہ آج کا انقلاب شیموگہ
چنگیز خان کا پوتا ہلاکوخان دنیا کی تاریخ میں ایک ایسا حکمران تھا جس نے آفریقہ کے سحرائوں سے لیکر ایشیاء کی وادیوں تک اپنی حکومت جمانے کیلئے خونی جنگوں کی تاریخ لکھی تھی۔ اسکے دور فتوحات میں بغداد ایک ایسی سلطنت تھی جو اسکی تلوار سے بچ گئی تھی، ہلاکوں خان یہ سمجھتا تھا کہ بغداد کا حکمران یعنی خلیفہ معتصم باللہ ایک ایسا حکمران ہے جس کے خلاف تلوار اٹھائے تو وہ عذاب ِ الٰہی کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس وجہ سے اس نے بغداد پر حملہ کرنے سے کئی بار سوچا تھا۔ جہاں ہلاکو خان بغداد سے دور رہنے کی کوشش میں تھا وہیں معتصم باللہ کے ایک وزیر کو بغداد کی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کی لالچ اُمنڈ آئی ۔ اس نے ہلاکو خان کو یہ پیغام بھیجوایا کہ اگر وہ بغداد پر حملہ کرتا ہے تو وہ اس کا ساتھ دے گا۔ ہلاکو خان کیلئے بغداد حملہ کرنے اوراپنی منگول سلطنت کا پرچم لہرانے کا شوق پیدا ہوااس نے معتصم باللہ کے وزیر کا ساتھ لیکر بغداد پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس وقت معتصم باللہ بغداد کا حکمران تھا اس دوران بغداد قلعہ کے اندر ہی خانہ جنگی کا شکار تھا۔ اسکے وزراء عوام سے لگان وصول کرنے میں مصروف تھے تو علماء آپسی اختلافات کا شکارتھے۔ شیعہ اور سُنی مسلکوں کے درمیان روزانہ بحث ومباحثہ اورمناظرے ہوا کرتے تھے۔ اہل تشیع اوراہل سُنت بھی اپنے اپنے مسلکوں کے اختلافات کو لیکر بحث ومباحثہ کررہے تھے۔ جس وقت ہلاکو خان بغداد پر حملہ کرنے کیلئے روانہ ہوا تھا اس وقت بغداد میں اس بات کو لیکر زبردست بحث جاری تھی کہ کوا کھانا حرام ہے یا حلال ہے۔ علماء کے درمیان یہ بحث اتنی زور تھی کہ انہیںکوئی مسئلہ نہیں سوج رہا تھا۔ بغداد کا خلیفہ معتصم باللہ کو اپنی رعایا سے بڑھ کراسے اشرفیاں ، ہیرے جواہرات ، سونے کے زیورات جمع کرنے کا شوق تھا ۔ اس کے پاس جتنا خزانہ تھا اسکا اندازہ اسطرح سے لگایا گیا تھا کہ 100 ہاتھیوں پر لادنے کے باوجود مزید ہاتھیوں کی ضرورت پڑتی تھی۔ اسی شوق نے اسے اندھا کردیا تھا ،اسکے محل میںعورتوں کا بڑا مجموعہ تھا جو بیویوںاورلونڈیوں کی شکل میں تھا۔ جیسے ہی ہلاکو خان بغداد کے اس محفوظ قلعہ پر حملہ کیا تو معتصم باللہ نے بغداد کی فوج کو خاموش رہنے کا حکم دیا جس کی وجہ سے ہلاکو خان کی فوج مختصر عرصہ میں بغداد کے کونے کونے پر قبضہ کرلیااور بغداد کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہائی، انسانی سروں کی دیواریں بنائی، جو بعد میں کھوپڑیوں کی دیواریں کہلاتی تھیں۔ ہلاکو خان معتصم باللہ کو گرفتار کرکے قید خانے میں ڈال دیااور بھوکا پیاسا رکھا۔ جب خلیفہ معتصم باللہ نے ہلاکو خان سے کھانا طلب کیا تو ہلاکو خان نے اسے کھانا دینے کے بجائے تھالی میں ، ہیرے جواہرات پیش کرتے ہوئے کھانے کیلئے کہا۔ بادشاہ نے پریشان ہوکر ہلاکو خان کو بتایا کہ یہ تو ہیرے جواہرات ہیں میں انہیں کیسے کھاسکتا ہوں۔ مجھے کھانا چاہئے۔معتصم باللہ کی یہ بات سن کر ہلاکوخان نے کہا کہ جب سونے چاندی وہیرے جواہرات کو تم نہیں کھاسکتے تو اتنا خزانہ جمانے کی کیا ضرورت تھی؟۔ تمہارےپاس جو دولت ہے اس دولت سے تم ساری دنیا پر فتح حاصل کرنے کیلئے فوج خرید سکتے تھے، جدید ہتھیار بنا سکتے تھے یہاں تک کہ بادشاہوں کو خرید سکتے تھے۔ یہ کہہ کر ہلاکو خان نے معتصم باللہ کے وزیر کو حکم دیا کہ تو اس بادشاہ کی جان لو اوراسطرح سے لو کہ اس کے خون کا ایک خطرہ بھی اس زمین پر نہ گرے تاکہ اس زمین پر دوبارہ اس جیسے کاہل وجاہل بادشاہ کو پیدا نہ کرسکے۔ وزیر نے معتصم باللہ کو قالین میں لپیٹا اوراسے فوجیوں کے ذریعہ سے گھونسے ولاتیں مارکر ہلاک کیا ۔اسطرح سے حق حق ہوتے ہوئے بھی ناحق مارا گیااور باطل کا غالب ہوا۔ اس کہانی کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جودور بغداد میں گزرا تھا آج وہی دور پلٹ آیا ہے۔ محض ہندوستان کی ہی بات کرلیں تو آج ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ مالدار ہے اوریہ مالدار اپنے مال کو ضرورتمندوں ومستحق لوگوں کےلئےذرائع بنانے کے بجائےاپنی تجوریوں میں مالوں کو محفوظ کئے ہوئے ہیں۔ آج ہندوستانی مسلمانوں کا ایک حصہ بنیادی تعلیم، اعلیٰ تعلیم، روزگار، صحت اور معاشی اعتبار سے کمزور ہے ۔ اس کمزور طبقے کو ابھارنے کیلئے صاحب استطاعت افراد اپنے مال کو خرچ کرنے لگیں گے تو یقیناً ہندوستان کے مسلمان بے یار ومدد گار نہیں رہیں گے۔ آج بھی ہمارے درمیان درجنوں ایسے بچے ہیں جواعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ان بچوں کے پاس اسکول یا کالج کی فیس اداکرنے کیلئے تو سرکاری وظیفوں سے مدد مل جاتی ہے لیکن ان کے اخراجات اورضروریات کو پورا کرنا انکے بس میں نہیں ہیں۔ کئی بچے آئی اے ایس یا آئی پی ایس کرنے کے خواہشمند ہیں لیکن انکے گھریلو حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنے مقصد کی طرف گامزن ہوسکیں۔ کئی پڑھے لکھے نوجوان چاہتے ہیں کہ وہ کاروبار کریں لیکن ان کے پاس مواقع نہیں ہیںنہ ہی انکے مالی حالات انہیں آگے بڑھنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے کئی ایسے مسلمان مالدار بھی ہیں جن کے پاس اپنی دولت کو جمع کرنے کیلئے تجوریاں چھوٹی پڑرہی ہیں۔ وہ اپنے لیے ہی نہیں بلکہ اپنی تیسری، چوتھی نسل کیلئے بھی سرمایہ اکھٹا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ جبکہ آج ہندوستان میں مسلمانوں کے پاس معیاری تعلیمی ادارے نہیں ہیں۔ ملک بھر میں دو تین مسلم یونیورسٹیوں کے علاوہ کہیں بھی یونیورسٹیاں قائم نہیں ہوئی ہیں۔ ہندوستان کے 400 سے زائد نیوز چینلوں سے ایک بھی چینل مسلمانوں کی نگرانی میں نہیں چل رہا ہے اورجب بات میڈیا کے متعصبانہ رویہ کی آتی ہے تو مسلمان چلا چلا کرکہتے ہیں کہ ہمارے حق میں بولنے والا نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارےحق میں بولنے کیلئے ہم نے تیاری ہی کب کی ہے؟۔ ہم نے اپنی نسل کے کتنے بچوں کو صحافت میں فروغ پانے کیلئے مدد کی ہے؟ ہم نے کتنے نیوز چینل بنائے ہیں ؟ ہمارے مالداروں کے بچوں کی شادیاں دودو کروڑ روپیوں کے خرچ تک ہورہی ہیں لیکن کبھی اس سے کم خرچ میں بہترین نیوز پورٹل بنانے کیلئے بھی ہمارے پاس دلچسپی نہیں ہے۔ سینکڑوں ایکر زمینیں محض اپنے رعب کیلئے خریدی جاتی ہیں جس کیلئے اربوں روپئے خرچ کئے جاتے ہیں۔ لیکن چند سو کروڑ روپیوں میں وقت کا سب سے پاورفل ہتھیار میڈیا بنانے کیلئے ہمارے پاس طاقت نہیں ہے۔ یقین جانئے کہ اگر یہی حالات رہے تو ہم پر بھی ہلاکو خان حملہ ہوگا اور ہمارے سامنے ہماری دولت وزمینیں پیش کئے جائیں گے تاکہ ہمیں احساس ہوجائے کہ ہم نے کتنی بڑی غلطیاں کی ہیں۔ آج قوم میںمستقبل کیلئے سرمایہ کے طور پر کچھ بھی نہیں بنایا ہے۔ جبکہ غیروں کے پاس اعلیٰ تعلیمی ادارے، صنعتیں ، کارخانے، نیوز چینلس، بڑے بڑے تجارتی مراکز موجودہیں جو آج کی نسل کیلئے نہیںبلکہ آنے والی نسلوں کیلئے انہوں نے تیار کی ہیں۔ اگر غیر آج کی فکر کرتے تو راشٹریا سویم سیوک سنگھ جو 95 سال قبل دو افراد کی شکل میں قائم ہوا تھا آج دنیا بھر میں اپنی شاخوں کو نہیں پھیلاتا ۔ ہمیں معتصم باللہ بننے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وقت کے ایوبی بننے کی ضرورت ہے۔ وہی ایوبی جس نے کل کیلئے اپنے آج کو قربان کرتے ہوئے بیت المقدس فتح کیا تھا۔
Comments are closed.