غربت و افلاس اور بے روزگاری کی مار

عمیر کوٹی ندوی
کسی بھی معاشرے، ملک، ادارے اور صنعت میں کام کرنے والوں ، مزدوروں اور محنت کشوں کا کردار بہت اہم ہوتاہے۔ یہ معاشرے، ملک، ادارے اور صنعت کی کامیابی کے لئے پوری تندہی کے ساتھ اپنے علم وعقل، ہاتھوں اور جسم وجان کو لگا دیتے ہیں۔ کسی بھی صنعت کی کامیابی کے لئے مالک، سرمایہ دار، کام کرنےوالے،ملازمین اور حکومت اہم جز ہوتے ہیں۔ کوئی بھی صنعتی ڈھانچہ اور کوئی بھی کام ملازمین اور کام کرنےوالوں کے بغیر کھڑا نہیں ہوسکتا ۔ان کی اہمیت اور حقوق کو تسلیم کرنا مقصد کے حصول کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ اس لئے کہ استحصال، عدل وانصاف کے فقدان،انسان دوستی سے گریز اور ان کے حقوق کو تسلیم نہ کرنے یا ان کی ادائیگی سے پہلو تہی کی صورت میں مطلوبہ مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہے اور نہ ہی حسن وخوبی کے ساتھ کوئی کام پایۂ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔ اسلام نے ان کی اہمیت کو تسلیم ہی نہیں کیا ہے بلکہ ان کے حقوق کا بھرپور تحفظ بھی کیا ہے۔ اس نے اگر بے روزگاری کے خاتمہ اور رزق حلال کے حصول کے لئے لوگوں کو محنت کشی پر ابھارا ہے تو بالادستوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ ملازمین کے حقوق کا پورا خیال رکھیں اور بلاطلب ان کے واجبات ادا کردیں۔ اسلام نے پسینہ خشک ہونے سے پہلے اجرت ادا کرنے کی ہدایت کی ہے۔ بے روزگاری کے خاتمہ، روزگار کی فراہمی، تحفظ، اور ملازمین و محنت کشوں کے حقوق کے سلسلہ میں اسلام نے سب سے پہلے مبنی بر انصاف عالم گیر منشور دیا ہے۔
دنیا نے ملازمین و محنت کشوں کے حقوق کو تسلیم کرنے میں بہت وقت لگادیا ۔ وہ بھی ان کی طرف سے اس کے لئے پرزور مطالبے اور جان ومال کی قربانیاں دینے کے بعد۔ 1؍ مئی 1886 میں امریکہ میں ملازمین اور محنت کشوں نے کام کرنے کا وقت 8 گھنٹے سے زائد نہ رکھے جانے کے لئے ہڑتال کی تھی۔ اس ہڑتال کو ختم کرنے کے لئے اقتدار وقت کی طرف سے خونی کھیل کھیلا گیا تھا اور اس کا الزام ملازمین اور محنت کشوں پر عائد کرکے پولس کی طرف سے ان پر راست فائرنگ کی گئی تھی۔اس کے بعد اسی واقعہ کو بنیاد بنا کر بین الاقوامی سطح پر یکم مئی کو یوم مزدور تسلیم کر لیا گیا اور اس کے بعد سے ہر سال پابندی کے ساتھ یکم مئی کو یوم مزدور منایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں اس تعلق سے 1 ؍مئی 1923 کو چنئی میں تحریک شروع ہوئی اور پھر اس تاریخ کو یوم مزدور کے طور پر منایا جانے لگا۔اس تاریخ کو ہندوستان سمیت تقریبا 80 ممالک میں یوم مزدور کے طور پر منایا جاتا ہےاور ابھی جلد ہی یہ تاریخ گزری ہے۔اس کے باوجود ہمارے ملک میں غربت وافلاس، بے روزگاری اور روزگار کے تیزی سے کم ہوتے مواقع کے ساتھ ساتھ ملازموں اور محنت کشوں کے استحصال کے واقعات کم ہونے کی جگہ بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ پرائیویٹ سیکڑ میں تو صورت حال بہت ہی بدتر ہے۔ نجی کمپنیوں اور صنعتی اداروں میں قانونی باریکیوں کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرکے اور قانونی پہلوؤں سے خود کو بچاتے ہوئےزیادہ سے زیادہ منافع خوری کے لئے ملازمین کا استحصال کیا جاتا ہے ۔
موجودہ سماج میں اس کے برخلاف غیر منظم اداروں اور شعبوں میں توقوانین کی موجودگی کے باوجود استحصال اپنی انتہا کو چھوتا ہوا نظر آتا ہے۔خواتین ملازمین اور مزدوروں کی حالت تو اور بھی ناگفتہ بہ ہے۔ انہیں دوہرے استحصال کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک تسلیم شدہ بات ہے اسے خود خواتین کے لئے کام کرنے والے سرکاری ادارے اور سماجی تنظیمیں بھی تسلیم کرتی ہیں۔ کسی شاعر نے ان کے’چہروں پہ خاک’ اور ‘دھول کے پونچھے ہوئے نشاں’ کو دیکھ کر ان کی حالت زار پر کہا تھا کہ ‘محنت ہی ان کا ساز ہے محنت ہی ان کا راگ’۔بال مزدوری کی روک تھام کے لئے قانون کی موجودگی کے باوجود اس سیکشن میں بھی استحصال اپنی انتہا پر موجود ہے۔ مزید برآں جرائم پیشہ افراد خواتین اور بچوں کا نہ جانے کن کن کاموں کے لئے استحصال کرتے رہتے ہیں۔ یہ سب باتیں ارباب حکومت،سرکاری اداروں ،سماجی تنظیموں، بااثرسرکردہ شخصیات حتی کہ عوام سے بھی مخفی نہیں ہیں۔ اس کے باوجود انسانوں کے استحصال اور مظلوموں پر پے درپے مظالم کا سلسلہ رکنے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ لوگوں کے لئے وسائل زندگی کا فراہم نہ ہونا، دو وقت کی روٹی سے محروم رہنا اور روزگار کا دستیاب نہ ہونا ہے۔ اس کی وجہ سے سماج کا محروم طبقہ ہر ذلت سے دوچار اور ہر طرح کے مظالم کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔لیکن ہمارے ملک کے اہل اختیار اس کی طرف توجہ دینے کی جگہ اشتعال انگیزی کو اپنا موضوع بنائے ہوئے ہیں۔ان کے پاس محروم طبقہ کے وکاس، وسائل زندگی کی فراہمی اور روزگار کے بجائے نفرت، تشدد، فرقہ پرستی کی باتیں ہیں۔ حالانکہ ہمارے ملک کی سرکاری اور غیر سرکاری سروے رپورٹیں اعداد وشمار کے ساتھ بار بار اس طرف توجہ دلا رہی ہیں کہ ملک میں غربت بدترین شکل میں بڑھتی جارہی ہے۔ روزگار کے مواقع ختم ہو رہے ہیں، ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں۔ لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں اور بے روزگاری ریکارڈ پر ریکارڈ توڑتی چلی جارہی ہے۔اس پر مزید یہ ستم کہ بدعنوانی اور دیگر ذرائع سےملک وعوام کی دولت کو اپنے پاس جمع کرنے والے ایک ایک کرکے ملک سے باہر نہیں جارہے ہیں بلکہ ان کے درمیان ایک ہوڑ لگی ہوئی ہے۔ ان سب کے باوجود اس طرف کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے استحصال بڑی تیزی سے اپنے قدم آگے بڑھاتا چلا جارہا ہے۔
Comments are closed.