Baseerat Online News Portal

ٹوپی پہننے والا منصور خان ٹوپی پہنا گیا!

شکیل رشید

ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز

سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن

قرآن پاک کا نسخہ بے حد خوبصورت اور دیدہ زیب تھا، ہدیہ صرف 150/-روپئے تھا، حالانکہ اس نسخے کی چھپائی پر ہی فی قرآن لاگت 150/-روپئے سے کم نہ رہی ہوگی۔ قرآن پاک کی اشاعت حیدرآباد کی ایک کمپنی آئی ایم اے (IMA)یعنی ’آئی مونیٹری فنڈ‘ نے کی تھی۔ یہ دریافت کرنے پر کہ قرآن پاک کے اس قدر خوبصور ت او رمہنگے نسخے کا ہدیہ کم کیوں رکھاگیا ہے، جواب ملا کہ IMAیہ کام ’خدمت قرآن‘ کے طو رپر کررہا ہے اور اس نے قرآن پاک کے مزید نسخے شائع کیے ہیںاو راحادیث مبارکہ کی کتابیں بھی خوبصورت انداز میں شائع کی ہیں، IMAوالے متقی ہیںاور دین کی خدمت کےلیے یہ کام کررہے ہیں۔

یہ با ت کوئی سال سواسال قبل کی ہے۔

دل سے IMAوالوں کےلیے دعائیں نکلتی تھیں لیکن انہی دنوں یہ بات بھی کان میں پڑی تھی کہ یہ وہ گروپ ہے جس میں بہت سارے لوگوںنے اپنے پیسے لگائے ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے کہ ’ہیرا گولڈ‘ میں لوگوں نے لگائے تھے۔ کھٹک تو ہوئی لیکن یہ سوچ کر دل کو سمجھا لیا کہ سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اور اب تازہ تازہ یہ خبر آئی ہے کہ IMAکے ’روح رواں‘ محمد منصور خان بالکل اسی طرح سے، ان افراد کو جنہوں نے ان کی کمپنی میں پیسے لگائے تھے، غچہ دیا اور بیرون ملک نکل گئے، جیسے کہ نیرو مودی ، للت مودی اور وجے مالیا کئی ہزار کروڑ روپئے کے ’گھپلے‘ اور گھوٹالے‘ کرکے ہندوستان سے باہر بھاگ گئے ہیں۔ محمد منصور خان پر بھی ۱۵۰۰ کروڑ روپئےکے ’گھوٹالہ‘ کا الزام ہے۔ یہ الزام ان افراد کا ہے جنہوں نے IMAمیں پیسے لگائے تھے، یہ سوچ کر کہ ان کے پیسے ایک نہ ایک دن انہیں اس قدر منافع دیں گے کہ وہ اپنے تمام خوابوں کو حقیقت میں بدل سکیں گے۔

جن افراد نے محمد منصور خان کو یا ان کی تصویر کو دیکھا ہوگا انہوں نے یقیناً یہی سوچا ہوگا کہ یہ کوئی دیندار شخص ہے ۔ شریف، پرہیز گار اور متقی۔ او رکیوں نہ سوچتے کہ محمد منصور خان باریش ہیں ، ٹوپی پہنتے اور شریفوں والا لباس کرتا ، پائجامہ زیب تن کیے رہتے ہیں۔ جن افراد نے IMAمیں رقمیں لگائی ہوں گی یقینا انہوںنے بھی یہی سوچا ہوگا کہ ان کی رقمیں محفوظ ہاتھ میں جارہی ہیں۔ ان کے ذہن میںکہیںبھی یہ شک وشبہ نہیں رہا ہوگا کہ کوئی ٹوپی پہننے والا ’ٹوپی پہنا‘ سکتا ہے۔ پر جب ایک ویڈیو ’وہاٹس ایپ‘ پر وائرل ہوئی جس میں ایک شخص کو جنہیں محمد منصور خان کہاجاتا ہے، یہ کہتے ہوئے لوگوں نے سنا کہ ’میں خودکشی کرنے کے قریب ہوں‘ تو ان میں ہلچل مچی، انہیں اپنی رقومات ڈوبتی نظر آئیں، وہ پولس اسٹیشن کی طرف دوڑے جہاں پہلے ہی سے محمد منصور خان کے ایک پارٹنر خالد احمد نے یہ شکایت درج کرارکھی تھی کہ محمد منصور خان نے ان کے چار کروڑ۸ لاکھ روپئے ہڑپ لیے ہیں۔

’دین کو ایک ’بہانہ‘ بناکر عام مسلمانوں کو فریب دینے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ نوہیرہ شیخ کا برقعہ تو اترتا ہی نہیں تھا۔ وہ ’عالمہ‘ کہلاتی تھیں، پر کرناٹک کے الیکشن میں ’چہرہ‘ کھل گیا اور پھر ان کے سارے کاروبار پر سے بھی ’پردہ‘ ہٹ گیا۔ اور اب یہ نیا معاملہ سامنے آیا ہے۔ اس سے قبل ایسے ہی ’حلال کمائی‘ کے نام پر نہ جانے کتنے ہی لوگوں نے ’دین‘ کو ’آڑ‘ بناکر عام لوگوں کو فریب دیا او رلوٹا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بے چارے مسلمان کب تک ’دین‘ کے نام پر بے ضمیروں اور بے ایمانوں کے ہاتھوں فریب کھاتے اورلوٹے جاتے رہیں گے؟ کیا بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جانے کے باوجود ہوش نہیں آئے گا؟ او رکیا ہم مسلمان بس ’حلیے‘ اور ’وضع قطع‘ کو ہی ’دین‘ سمجھ کر اپنا سب کچھ ان پر نچھاوڑ کرتے رہیں گے جنہوں نے ’دین‘ کو کاروبار بنالیا ہے؟؟

Comments are closed.