اسلامی بینکنگ کے نام پر دھوکہ، سبب کو سمجھیں!

عاطف سہیل صدیقی

اسلامی بینکنگ کے نام پر لوٹ اور دھوکے کا ایک نیا معاملہ سامنے آیا ہے۔ یوں تو عام اقتصادی اداروں میں اس قسم کی لوٹ ایک عام بات ہے۔ عوام سودی اداروں کے ہاتھوں خودکشی تک پر مجبور ہو رہے ہیں لیکن جب کسی نظام سے دینِ حنیف کا نام منسلک ہو جاتا ہے تو عوام کی اس نظام سے وابستگی جذبات اور عقیدت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنے مال کو سود سے پاک رکھنے کی فکر میں رہتا ہے اور جب اسکے سامنے ایک متبادل پیش کیا جاتا ہے تو وہ متبادل اسے نعمت غیر مترقبہ لگتا ہے۔ لیکن جب یہی نظام اسکے ساتھ دھوکہ کرتا ہے تو اسکے دو بڑے نقصان ہوتے ہیں ۔ اولا، یہ لوٹ اسلامی بینکنگ کے ہندوستان میں رائج ہونے سے پہلے ہی اسے مشکوک بنا سکتی ہے اور عوام کا اعتماد اس پر سے اٹھا سکتی ہے۔ ثانیا، جب عوام کا مال ایک نام نہاد دینی نظام میں محفوظ نہیں رہتا تو پھر عوام سودی نظام کو ہی غنیمت جانتے ہیں۔ اس طرح دھوکہ دینے والے قوم اور دین دونوں کو بڑا دھوکہ دے رہے ہیں۔ اسلامی بینکنگ کے نام پر لوٹ اور عوام کو دھوکہ اس طرح دین کے غیر سودی نظام کے ساتھ بھی ایک بڑا فریب ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی بینکنگ کے نام پر قائم کئے گئے ادارے ہندوستان میں ناکام کیوں ہورہے ہیں ؟ اس سے پہلے الفلاح اور الفہد کا بھی یہی حشر ہوا۔ اسکا جواب اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ جب حکومت ہند اور رزرو بینک آف انڈیا کی طرف سے ہندوستان میں اسلامی بینکنگ کا کوئی جواز ہی نہیں ہے اور سرمایہ کاری اور سرمایہ کاری کو تحفظات فراہم کرنے کے لیے بھی حکومت اور رزرو بینک کی کوئی گائڈ لائن موجود نہیں ہے تو پھر اسلامی بینک قائم کیسے ہوئے اور پھر وہ سرمایہ کاری حکومت کے کن اصول و ضوابط کے تحت کرتے ہیں؟ عوام سادہ لوح ہوتے ہیں۔ انہیں آسانی سے جھانسادیا جا سکتا ہے۔ کیا یہ اسلامی بینکر جو عوام کا مال لیکر فرار ہو گیا اسکے پاس اسلامی بینکنگ کا لائسینس موجود تھا؟ کیا عوام نے اسکے ساتھ سرمایہ کاری کرنے سے قبل اسکی تحقیق کی تھی؟ کیا یہ بینک عوام کو اے ٹی ایم اور کریڈٹ کارڈ مہیا کرا رہا تھا؟ کیا اس کا اے ٹی ایم کارڈ ملک کے کسی بھی بینک کے اے ٹی ایم سے روپیے نکالنے کا متحمل تھا؟ اگر ان سب باتوں کے جواب نفی میں ہیں تو پھر یہی کہا جائیگا کہ عوام بھی اتنے ہی قصوروار ہیں جتنا کہ لوٹ کر بھاگنے والا بینکر!

یہاں ایک بات اور قابل غور ہے کہ یہ بالکل ضروری نہیں ہے کہ اپنے اسلامی بینک کی شروعات کرنے سے قبل یہ بینکر بے ایمان ہو اور اسکی نیت ہی لوٹنے کی ہو۔ موجودہ صورت میں جبکہ اسلامی بینکنگ کو ہندوستان میں حکومت اور رزرو بینک کے کوئی تحفظات فراہم نہیں ہیں تو سرمایہ کاری کے پیسوں کا تحفظ اور پھر اس پر حاصل ہونے والے نفع کو یقینی بنانے کی اس بینکر کے پاس کوئی صورت نہیں تھی۔ اسلامی بینکنگ میں مال میں اضافے اور عوام کی رقوم جو کہ اکاؤنٹ ہولڈرز بینک میں مضاربت کے تحت رکھتے ہیں اس پر اضافی رقم راس المال کے ساتھ صرف سرمایہ کاری کے ذریعے ہی ادا کی جا سکتی ہے۔ اسکے علاوہ اپنے کاروبار کو بڑھاوا دینے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ نفع دینے کے لیے اس بینکر نے یقینی طور پر غیر محفوظ سرمایہ کاری کی ہوگی جس کو حکومت کا کوئی تحفظ حاصل نہیں تھا اور بلا آخر وہ سب رقم ڈوبی یا اکثر ڈوبی ہوگی اور بینکر کے پاس فرار ہونے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ہوگا۔ لہذا اس پورے واقعے میں غیر قانونی طریقے سے اسلامی بینکنگ کا اجرا اور پھر غیر محفوظ سرمایہ کاری کا اہم کردار رہا ہوگا لیکن اسکا عوام پر جو تاثر گیا ہوگا وہ بہت غلط گیا ہوگا اور اس طرح اسلامی بینکنگ کے رائج ہونے سے پہلے ہی اس پر سے عوام کا اعتماد ٹوٹنے کے امکان قوی ہوگئے ہیں۔

Comments are closed.