منافقت (نفاق) ایک خطرناک اور مہلک مرض

مولانا محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

نفاق ایک مہلک اور خطرناک باطنی و روحانی بیماری ہے ، اس بیماری اور مرض میں مبتلا رہتے ہوئے بھی آدمی احساس نہیں کر پاتا کہ میرے اندر یہ روگ اور بیماری ہے۔ عموما لوگ اس بیماری سے ناواقف ہوتے ہیں یا ناواقفیت کا اظہار کرتے ہیں ۔ بسا اوقات بلکہ اکثر اوقات آدمی اس کا شکار ہوکر بجائے مفسد کے اپنے کو مصلح سمجھنے لگتا ہے ۔ نفاق ایسی بیماری ہے جو انسان کو پستی اور گراوٹ کی آخری حد تک پہنچا دیتی ہے ،ایسی برائ ہے جو سو برائیوں کی جڑ ہے ،اس بیماری اور برائ کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ منافقین کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل تھی اس کے باوجود ان کی تربیت و اصلاح نہیں ہو سکی ،کیونکہ نفاق انسان کی حق بینی اور راست بازی کی صلاحیت کو فنا و برباد کر دیتا ہے ،چنانچہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دور مسعود اور ساعت ہمایوں میں بھی منافق بے امیز حقیقتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے ان کے روح، ایمان اور نور ایمان سے لبریز نہیں ہو سکے اور کفر و شرک اور عناد و ہٹ دھرمی اور ضلالت کے اندھیروں میں پڑے رہے ۔

عربی زبان میں نفق کہتے ہیں اس سرنگ کو جس کے دو دہانے ہوتے ہیں اور نافقاء جنگلی چوہے کو کہتے ہیں جس میں ایک طرف سے داخل ہوتا ہے اور دوسری طرف نکل جاتا ہے، اسی سے نفاق ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں دین میں ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جانا ۔ ( مستفاد قاموس القرآن مادہ نون/ امثال الحدیث صفحہ ۲۱۹)

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی مثال اس بکری سے دی ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان پھر رہی ہو ۔ چناچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مثل المنافق کمثل الشاة العائرة بین الغنمین ،تعیر الی ھذہ مرة ،و الی ھذہ مرة)مسلم کتاب صفات المنافقین و احکامھم حدیث نمبر ۷۰۴۳)

منافق کی مثال اس بکری جیسی ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان پھر رہی ہو ،ایک مرتبہ اس ریوڑ کی طرف اتی ہے اور دوسری بار اس ریوڑ کی طرف جاتی ہے ۔

منافقین کا کوئی دھرم اور مذھب نہیں ہوتا ،یہ آستین کے سانپ ہوتے ہیں ۔ کھلے دشمن تو سامنے سے وار کرتا ہے لیکن منافقین پیٹھ پیچھے سے حملہ کرتے ہیں اور چھرا گھونپتے ہیں یہ منھ سے اللہ اللہ کرتے ہیں، لیکن بغل میں چھری رکھتے ہیں، یہ ہر فریق سے اپنے فائدے کے لئے جڑے رہتے ہیں ،ان کی سوچ رہتی ہے کہ……..

باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی

 

نفاق یہ وہ روگ اور بیماری ہے جس سے انسان کا نور بصیرت سلب ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نفاق سے حد درجہ پناہ مانگتے تھے ۔ حضرت ابو ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے تیس صحابہ کرام سے ملاقات کی ،ان میں سے ہر ایک کو اپنے متعلق اندیشئہ نفاق سے خوف زدہ پایا ۔ ( بخاری شریف کتاب الایمان حدیث نمبر ۳۶)

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ نفاق کی طرف سے صرف منافقین مطمئن ہو سکتا ہے اور اس سے ڈرنا اور چوکنا رہنا مومن کی صفت ہے ۔ صحابئہ کرام اکثر اوقات اپنے ایمان و اعمال کا جائزہ لیتے رہتے تھے تاکہ نفاق سے محفوظ رہ سکیں ۔

نفاق در اصل منفی سوچ اور منفی ذھنیت کی پیدا وار ہے جو ہمیشہ منافق کو تذبذب اور لیت و لعل کا شکار بنائے رکھتی ہے گویا نفاق انسان کو ایک ایسے چوراہے پر لا کھڑا کرتا ہے جہاں کوئ راستہ متعین نہیں ہوتا ،وہ ہر دم اور ہر آن اس سوچ میں کھڑا رہتا ہے کہ آخر کس جماعت میں شامل ہو اور اپنا مستقبل کس گروپ اور گروہ سے وابستہ کرے؟ منافق کی اسی کیفیت کو حدیث شریف میں حیران و پریشان بکری سے تشبیہ دی گئ ہے جو کبھی اس ریوڑ میں شامل ہونا چاہتی ہے اور کبھی دوسرے غول اور ریوڑ میں ۔

 

نفاق درحقیقت انسان کے ظاہر و باطن کے باہمی اختلاف کو کہتے ہیں جس کی متعدد شکلیں اور علامتیں بیان کی گئی ہیں مگر اصولی طور پر ان کی تین یا چار شکلیں ہیں جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے ۔

اعتقادی اور عملی نفاق کے سلسلہ میں بھی کچھ باتیں آچکی ہیں یہاں مزید کچھ وضاحت کی ضرورت ہے ۔ مولانا محمد منظور نعمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نفاق کی حقیقت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

حقیقی اور اصلی نفاق ،انسان کی جس بدترین حالت کا نام ہے ،وہ تو یہ ہے کہ آدمی نے دل سے تو اسلام قبول نہ کیا ہو ( بلکہ دل سے اس کا منکر اور مخالف ہو) لیکن کسی وجہ سے وہ اپنے کو مومن و مسلم ظاہر کرتا ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عبد اللہ بن ابی وغیرہ مشہور منافقین کا حال تھا ،یہ نفاق در اصل بدترین اور ذلیل ترین قسم کا کفر ہے ،اور ان ہی منافقین کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ : ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار ۔ضرور بالضرور یہ منافقین دوزخ کے سب سے نیچے طبقہ میں ڈالے جائیں گے ۔لیکن بعض بری عادتیں اور بد خصلتیں بھی ایسی ہیں، جن کو منافقین سے خاص نسبت اور مناسبت ہے اور در اصل ان ہی کی عادتیں اور خصلتیں ہیں، اور کسی صاحب ایمان میں ان کی پرچھائیں بھی نہیں ہونی چاہئے ۔ پس اگر بد قسمتی سے کسی مسلمان میں ان میں سے کوئ عادت ہو تو یہ سمجھا جائے گا کہ اس میں یہ منافقانہ عادت ہے اور اگر کسی میں بد بختی سے منافقوں والی وہ ساری عادتیں جمع ہو جائیں تو سمجھا جائے گا کہ وہ شخص اپنی سیرت میں پورا منافق ہے۔ الغرض ایک نفاق تو ایمان و عقیدے کا نفاق ہے ،جو کفر کی بدترین قسم ہے ۔ لیکن اس کے علاوہ کسی شخص کی سیرت کا منافقوں والی سیرت ہونا بھی ایک قسم کا نفاق ہے ،مگر وہ عقیدے کا نفاق نہیں بلکہ سیرت اور کردار کا نفاق ہے اور ایک مسلمان کے لئے جس طرح یہ ضروری ہے کہ وہ کفر و شرک اور اعتقادی نفاق کی نجاست سے بچے ،اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ منافقانہ سیرت اور منافقانہ اعمال و اخلاق کی گندگی سے بھی اپنے کو محفوظ رکھے. (معارف الحدیث ۱/ ۱۰۴/ ۱۰۵)

قرآن و حدیث کے مطالعہ سے منافق کے بارے میں جو چیز نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ منافق کی سرشت میں دوغلی پالیسی اور خود غرضی ہوتی ہے ۔ مفاد پرستی اس کا شعار ہوتا ہے ۔ خیانت و دغل اس کا وطیرہ اور شیوہ ہوتا ہے ۔ اس کو محض دنیوی مفاد اور منفعت عزیز ہوتی ہے ۔ اس کی نگاہ صرف اس پر مرکوز ہوتی ہے کہ اپنی جان و مال کی حفاظت کیونکر ہو ۔ اس کے اندر حالات سے نبرد آزما ہونے اور مشکلات کا سامنا کرنے کی سکت نہیں ہوتی ۔ وہ عافیت کا متلاشی ہوتا ہے ۔ خواہ یہ عافیت کسی کے یہاں اور کسی خیمہ میں بھی مل سکے اس کو اس کی فکر نہیں ہوتی کہ یہ عافیت پسندی دنیا یا آخرت کہیں کا بھی اسے رہنے نہیں دے گی ۔ منافق انسان اپنی گفتگو اور تقریر میں زور بیانی دکھا کر مجمع کو مرعوب کرنا چاہتا ہے اور اپنی جادو بیانی سے لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیتا ہے لیکن حق اور سچائ سے اسے کوئ دلچسپی نہیں ہوتی ۔ اس لئے اس کا سارا بیان بے نور اور بے کیف ہوتا ہے ۔ ذرا بھی غور و فکر سے کام لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ اس کی باتیں محض باتیں ہیں جن کے پیچھے کوئ گہرا احساس اور حق شناسی کام نہیں کر رہی ہے ( مستفاد کلام نبوت ۲/ ۴۲۰)

منافقوں کی مفاد پرستانہ و دو رخی پالیسی اور منفی ذھنیت کو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متعدد مواقع پر بیان کیا ہے ۔ ایک موقع پر اللہ تعالٰی نے فرمایا:

الذین یتربصون بکم فان کان لکم فتح من اللہ قالوا الم اکن معکم و ان کان للکافرین نصیب قالوا الم نستحوذ علیکم و نمنعکم من المومنین فاللہ یحکم بینکم یوم القیامۃ۔ الخ ( سورہ نساء آیت نمبر ۱۴۱/ ۱۴۲/۱۴۳)

‘ یہ منافق تمہارے انجام کے منتظر رہتے ہیں، اگر تم مسلمان بحکم خداوندی جیت گئے ، تو تم سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے؟ لاو ہمیں بھی مال غنیمت دو اور اگر کافروں کو فتح نصیب ہوئ تو ان سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہیں تھے ،لیکن پھر بھی ہم نے تم کو مسلمانوں کے ہاتھ سے بچایا ،پس لڑائی میں جو کچھ ملا ہے ہمارا بھی حصہ لگاو ۔ بس اللہ ہی تمہارے اور ان کے معاملہ کا فیصلہ قیامت کے روز کرے گا ۔ اللہ تعالٰی نے کافروں کے لئے مسلمانوں پر غالب آنے کی کوئ سبیل نہیں رکھی ہے۔ یہ منافق اللہ تعالی کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ در حقیقت اللہ ہی نے انہیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے ،جب یہ نماز کے لئے اٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کے لئے اٹھتے ہیں ۔ اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں، کفر و ایمان کے درمیان ڈانوا ڈول ہیں، نہ پورے اس طرف اور نہ پورے اس طرف’ ۔

اس طرح کی متعدد آیتیں ہیں جن میں منافقوں کے منفی اخلاق و کردار اور مفاد پرستانہ پالیسی کو اجاگر کیا گیا ہے ۔

آج کے حالات میں جہاں عملی نفاق کا دور دورہ ہے مخلص اور غیر مخلص اپنے اور پرائے میں فرق کرنا مشکل ہو رہا ہے ضرورت ہے کہ قرآن مجید کی ان آیات کا اور ان احادیث کا جن میں نفاق اور منافقت کی مذمت و شناعت بیان کی گئی ہے ان کا مطالعہ کریں اور خاص طور پر سورہ منافقون کا عصر حاضر کی روشنی میں مطالعہ کریں ۔ اور ان ایات و احادیث کے جو سبق آموز پہلو اور امور ہیں ان سے سبق لیں ۔ نفاق سے پرہیز کریں ۔ کیوں کہ یہ بہت بڑا گناہ بلکہ پاپ ہے ۔ اپنے عقیدہ و عمل کو نفاق و منافقت سے آلودہ ہونے نہ دیں اور ہر وقت اور ہر دم اپنا محاسبہ کرتے رہیں تاکہ نور بصیرت سے محروم نہ کر دئے جائیں ۔ اللہ تعالٰی ہم سب کی اس مرض اور روگ سے حفاظت فرمائے آمین ۔

Comments are closed.