Baseerat Online News Portal

سنجیو بھٹ کو ایمانداری کی سزا

شکیل رشید

سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن

ایڈیٹر روزنامہ ممبئی اردو نیوز

کوئی آواز نہیں اٹھی!

برطرف آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ کو ان کی ’ ایمانداری‘ اور ’ فرض سناشی‘ کیلئے عدالت نے ’سزا ‘ سنادی وہ بھی عمر قید کی سزا ، اور عمر قید کی یہ سزا بھی ایک تیس سالہ پرانے حراستی موت کے معاملے میں ،پر زبانیں جس طرح کہ ’ برطرفی‘ کے موقع پر بند تھیں اسی طرح سزا کے فیصلے پر بھی بند رہیں ۔ اور زبانیں کھلیں گی بھی نہیں کیونکہ ملک پر خوف کی ایک ایسی فضا طاری ہے جس نے بڑے بڑوں کی بولتی بند کررکھی ہے ۔ پر یادرہے کہ اگر زبانیں نہیں کھلیں تو بات صرف سنجیو بھٹ پر ہی نہیں ختم ہوگی ، یہ سلسلہ دراز ہوگا ، اور دراز ہوتا چلا جائے گا اور وہ سب شکنجے میں ہوں گے جنہوں نے کبھی ’سچ ‘ اور ’ حق‘ بولنے کی جرأت کی ہوگی ۔ وہ سب کے سب ایک ایک کرکے زنداں میں ڈھکیل دیئے جائیں گے ۔ پھر زبان کھولنے والا کوئی نہیں بچے گا ۔ خوب یاد ہے کہ جب 2015ء میں سنجیوبھٹ کو برطرف کیا گیا تھا تو مجھے اردوزبان کی ایک کہاوت یاد آئی تھی ’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ‘۔ یہ کہاوت ان کی برطرفی کے عمل پر پوری طرح صادق آتی تھی کیونکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ گجرات2002 کے’ چور‘ کون ہیں ۔ اور دنیا ان ’کوتوالوں‘ کو بھی خوب جانتی ہے جنہوں نے ہر طرح کے دباؤ برداشت کرکے بلکہ اپنی ملازمتوں وجانوں تک کو خطرے میں ڈال کر ’ چوروں‘ کو ’ چور‘ کہنے کی ہمت اور جرأت دکھائی ہے ۔ شاید ہندوستان کے علاوہ کوئی اور ملک ہوتا تو فسادیوں اور فرقہ پرستوں کے چہروں کو بے نقاب کرنے والے ’ تمغوں‘ سے سرفراز کئے جاتے لیکن یہ ’ ہندوستان ہے پیارے‘ یہاں ایسے لوگوں کو ’ تمغے‘ نہیں دیئے جاتے بلکہ ایسوں کے پیروں میں ’تسمے‘ باندھے جاتے ہیں تاکہ سچ کی جانب بڑھتے ان کے قدم روکے جاسکیں ۔ اس کی مثالیں یوں تو ڈھیروں ہیں ۔ جیسے کہ ٹیسٹا ستلواڈ اور ان کے شوہر جاوید آنند ، یاپرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو ، لیکن تازہ ترین مثال سنجیوبھٹ ہیں ، جنہوں نے نریندرمودی پر اس وقت بھی انگلی اٹھانے کی جرأت کی جب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے اور اس وقت بھی جب وہ ملک کے وزیراعظم تھے اور آج بھی جبکہ وہ وزیراعظم ہیں ان کی انگلی ان کی جانب اٹھی کی اٹھی ہے ، جھکی نہیں ہے ۔

حکمراں تو حکمراں ہوتا ہے ، اس کے مزاج میں تاناشاہی ہوتی ہے ، چاہے وہ کسی بادشاہت کا ہو یا کسی جمہوریت کا ۔ مودی کا معاملہ تو ایسا ہے کہ وہ جمہوریت کو بادشاہت سمجھتے ہیں ، لہٰذا مودی کی حکومت میں سنجیوبھٹ کو جب ملازمت سے برطرف کردیا گیا تو کوئی حیرانی نہیں ہوئی ۔ اور آج جب سزائے عمر قید سنائی گئی تب بھی کوئی حیرانی نہیں ہوئی ۔ حیرانی تو جب ہوتی جب سنجیوبھٹ کو سچ کہنے کی سزا نہ ملتی ۔

آخر وہ کیا سچ تھا جس کی سزا سنجیوبھٹ کو پہلے برطرفی اور اب سزا کی شکل میں دی گئی ہے؟ اس سوال کا جواب یقیناً سب جانتے ہیں : گجرات 2002 کے فسادات میں مودی کے ملوث ہونے کے ثبوتوں کو سادی دنیا کے سامنے پیش کرنا بھٹ کا سب سے بڑا ’ جرم ‘کل بھی تھا اور آج بھی ہے ۔ سنجیوبھٹ نے عدالت کے سامنے ایک ’ حلف نامہ‘ پیش کیا تھا جس میں انہوں نے اس وقت کے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو گجرات 2002 کے فسادات میں ملوث ہونے کا قصوروار قرار دیا تھا۔ ’ حلف نامہ‘ میں بھٹ نے تحریر کیا تھا کہ مودی نے اپنی رہائش گاہ پر سرکاری افسروں کی، جن میں اعلیٰ پولس اہلکا ربھی شامل تھے ، ایک میٹنگ طلب کی تھی جس میں انہوں نے یہ ’ حکم‘ دیا تھا کہ ’ ہندوؤں کو غصہ نکالنے دیا جائے ‘ یعنی انہیں تشدد اور ماردھاڑ سے نہ رو کا جائے ۔۔۔ یہ ’ حکم ‘ ایک طرح سے تمام پولس والوں کیلئے ایک طرح کا عندیہ تھا کہ وہ فسادات پر قابو پانے کے اپنے فرائض کو انجام دینے میں عجلت سے کام نہ لیں ، اقلیتی فرقے یعنی مسلمانوں کے خلاف ہندو جس طرح بھی اپنے غصے کو نکالنا چاہتے ہیں اسے نکالنے دیں ۔۔۔ سنجیو بھوٹ نے اپنے ’ حلف نامہ‘ میں تحریر کیا تھا کہ انہوں نے 27 فروری 2002 کے روز مودی کی رہائش گاہ پر ہوئی میٹنگ میں خود شرکت کی تھی۔

مذکورہ تاریخ کو ہی گجرات کے مسلم کش فسادات شروع ہوئے تھے ۔ اس روزگودھرا میں ’ سابرمتی ایکسپریس‘ کی بوگی نمبر ’ ایس 6-‘ میں آتش زدگی کا المناک واقعہ پیش آیا تھا۔ اس بوگی میں وہ کارسیوک سوار تھے جو ایودھیا سے ’ رام مندر کی تعمیر‘ کی تحریک کیلئے منعقدہ تقریب سے واپس لوٹ رہے تھے ۔۔۔ آگ ساری بوگی میں پھیلی تھی جس میں جل کر 59 کارسیوکوں کی موت ہوگئی تھی۔ گودھرا کے المناک واقعہ کے بعد شاید سارا گجرات اس طرح نہ جلتا جیسے کہ جلا تھا اور شاید 12 سو سے زائد لوگ نہ مارے جاتے جیسے کہ مارے گئے تھے ، اگر مودی خود گودھرا نہ پہنچے ہوتے ۔ اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ گودھرا میں مودی کی تقریر اشتعال انگیز تھی اور کارسیوکوں کی ارتھیوں کو جلوس کی شکل میں احمد آباد کی گلیوں سے گزارنے کا ان کا فیصلہ بھی اشتعال انگیزتھا، اس قدر اشتعال انگیز کہ لوگوں میں ایک فرقے کے خلاف شدید نفرت کے جذبات پیدا ہوئے ، ایسی نفرت کہ اسی روز احمد آباد سے فسادات شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے فسادات سارے گجرات میں پھیل گئے ۔ مودی کا اس سارےمعاملے میں جو کردار رہا وہ شک وشبہ سے بالاتر نہیں کہلاسکتا ۔ گودھرا کا ان کا دورہ ، ارتھیوں کا جلوس اور پھر اپنی رہائش گاہ پر افسروں کی میٹنگ جس میں بقول سنجیو بھٹ سب پر فسادیوں کے خلاف کارروائی کی بندش عائد کی گئی ، اگر ان سب کا بغور جائزہ لیا اور تجزیہ کیا جائے تو ذہن یہ سوال خودبخود کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا فسادات کرانے کی پوری تیاری پہلے سے ہوچکی تھی؟

سنجیوبھٹ کے ’ حلف نامے‘ میں جو بات تحریر ہے وہی بات گجرات کے مقتول وزیر داخلہ ہرین پنڈیا نے بھی کہی تھی ۔ قتل سے قبل انہوں نے شہریوں کی ایک تنظیم سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعلیٰ مودی نے اپنی رہائش گاہ پر ایک میٹنگ طکب کرکے پولس کے اعلیٰ اہلکاروں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ ’ ہندوؤں کے غصے کی مخالفت نہ کریں‘ ۔ پنڈیا نے کئی پولس اہلکاروں کے نام ظاہر کئے تھے جو وہاں موجود تھے ۔ مگر ان میں سنجیوبھٹ کا نام نہیں تھا ۔ ممکن ہے وہاں موجود اور دوسرے افسروں کے نام بھی انہوں نے نہ لئے ہوں مگر اس سچائی کی تصدیق ضرور پنڈیا کے بیان سے ہوتی ہے کہ مودی نے اپنی رہائش گاہ پر میٹنگ لی تھی اور پولس کے اعلیٰ اہلکاروں کو یہ حکم دیا تھا کہ فسادیوں کو انتقام لینے کا پورا پورا موقع دیا جائے ۔ یہ کہہ کر سنجیوبھٹ کی ’ حق گوئی‘ اور ’ حلف نامے‘ کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ تو مودی کی بلائی گئی میٹنگ میں موجود ہی نہیں تھے ۔ بی جے پی اور سارا سنگھ پریوار یہی پروپیگنڈہ کئے ہوئے ہے۔

سنجیوبھٹ نے فسادات کے تقریباً 9سال کے بعد 14 اپریل 2011 کو سپریم کورٹ میں ’ حلف نامہ ‘ داخل کیا ۔ ’ حلف نامے‘ کے مطابق ’ مودی نے اعلیٰ پولس اہلکاروں کو ہدایت دی کہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف غصہ نکالنے دیا جائے ۔‘ انہوں نے’حلف نامہ‘ میں یہ بھی واضح کیا کہ مذکورہ میٹنگ میں یہ طے کیا گیا تھا کہ کارسیوکوں کی لاشوں کو احمد آباد لاکر آخری رسومات ادا کی جائیں۔ اس فیصلے کی سنجیوبھٹ کے بقول انہوں نے یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ اس سے ’ مذہبی تشدد کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے ۔ ‘ ’ حلف نامہ‘ میں یہ بھی تحریرہےکہ مودی کی اپنی سیاسی پارٹی پی جے پی اور ہندو انتہا پسند تنظیم بجرنگ دل کی اشتعال انگیزیاں شروع ہوگئی تھیں اور وی ایچ بی والے احمد آباد بند کرنے کا غیر قانونی اعلان کرچکے تھے ۔ سنجیوبھٹ کے مطابق اس وقت کے پولس ڈائریکٹر جنرل کے چکرورتی اور اس وقت کے احمد آباد کے پولس کمشنر پی سی پانڈے نے کارسیوکوں کی لاشیں لانے کی مخالفت کی تھی۔ سنحیوبھٹ کے ’ حلف نامہ‘ کے بعد انہیں معطل کردیا گیا تھا اور وہ آج تک معطل چلے آرہے تھے ۔ بلکہ اب تو عمر قید کے مجرم بن چکے ہیں !

چونکہ سنجیوبھٹ کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے گجرات 2002 کے فسادات کو ’سرکاری سرپرستی میں کیا گیا ’ تشدد‘ قرار دیا اس لئے ان کے خلاف سارا سنگھ پریوار بشمول بی جے پی ، متحد ہوگیا تھا۔۔۔ اپنے ’ حلف نامہ‘ میں بھٹ نے وہ جملہ بھی نقل کیا ہے جو ان کے دعوے کے مطابق مودی کا ہے ۔ ’ مسلمانوں کو سخت سبق سکھانے کی ضرورت ہے ۔ ‘ انہوں نے حلف نامہ میں چھ گواہوں کے نام پیش کئے ہیں ۔ ایک تو اس وقت کے پولس ڈائریکٹر جنرل چکرورتی کا جن کی کار میں وہ بقول خود بیٹھ کر مودی کی رہائش گاہ تک پہنچے تھے ، کار کے ڈرائیور تاراچند یادو کا اور اپنے خود کے ڈرائیور کانسٹبل کے ڈی پنتھ کا ۔ حالانکہ پنتھ نے بعد میں ایک ’حلف نامہ‘ میں یہ دعویٰ کیا کہ بھٹ نے اسے دھمکا کر اپنی حمایت میں بیان دلوایا تھا مگر کےچکرورتی کا ڈرائیور آج تک اس دعوے پر قائم ہے کہ بھٹ ،چکرورتی کی کار میں بیٹھ کر مودی کی رہائش گاہ پہنچے تھے اور وہ اس کارکو ڈرائیو کررہا تھا۔

گجرات میں جس طرح پولس کے اعلیٰ اہلکاروں نے فسادیوں کو ’چھوٹ‘ دی اور جس طرح اقلیتی مسلم فرقے کے گھروں اور املاک کو جلانے اور لوٹنے کا موقع دیا اس سے یہ خوب ثابت ہوتا ہے کہ وہاں کی پولس فسادیوں کے تئیں کارروائی نہیں کرنا چاہتی تھی ، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس کی بے عملی کے پس پشت یقیناً سرکار تھی، ورنہ پہلے روز نہ سہی بعد کے دنوں میں وہ فسادیوں پر قابو پاتی، مگر گجرات کے فسادات ہفتوں جاری رہے ، فسادی لوٹ پاٹ کرتے اور قتل غارتگری میں جٹے رہے ، پولس کا رویہ بدستور آنکھیں بند کرنے والا تھا۔۔۔ پولس کو کس انداز میں ’ ہندوؤں کو غصہ نکالنے دینے کی ہدایت ‘ ملی ہوگی اس کا اندازہ گلبرگ ہاؤسنگ سوسائٹی کے قتل عام سے ہوجاتا ہے ۔ اس ہاؤسنگ سوسائٹی میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کو اس طرح تہہ تیغ کیا گیا تھا کہ ان کی لاش تدفین کیلئے نہیں مل سکی ۔ مرحوم کی بیوہ، جرأت مند ضعیفہ ذکیہ جعفری آج تک انصاف کی جنگ لڑرہی ہیں ۔۔۔ یہ سچ سب کے سامنے ہے کہ احسان جعفری نے پولس کو ’مدد‘ کیلئے فون کیا ، پولس کمشنر پی سی پانڈے تک سے بات کی ، یہ کہا کہ فسادی قتل وغارت گری شروع ہی کرنا چاہتے ہیں ، مگر پولس کی ’مدد‘ نہ آنا تھی نہ آئی ۔ پولس آنکھیں موندے رہی اور گلبرگ ہاؤسنگ سوسائٹی میں یرقانی دہشت گرد قتل وغارتگری کرتے رہے ۔ ممکن ہے کہ پولس کے اعلیٰ اہلکاروں نے احسان جعفری کی فریاد اس وقت کے حکمراں تک پہنچائی ہو اور اس نے سختی سے فریاد کی دادرسی سے منع کردیا ہو ۔۔۔ ایک ایسے حکمراں کی خلاف ورزی سب افسروں کے بس کی بات نہیں ہے جو ’ جمہوریت‘ کو ’ بادشاہت‘ سمجھ کر حکومت کرتا ہو ۔۔۔ ہزاروں لاکھوں میں ایک ہی سنجیو بھٹ پیدا ہوتا ہے ۔

سنجیو بھٹ کی برطرفی کی کہانی مضحکہ خیز بھی ہے اور غلط بیانی کا پروپیگنڈہ بھی۔۔۔۔ الزام ہے کہ سنجیوبھٹ کو جہاں تعینات کیا گیا تھا وہاں کا چارج انہوں نے نہیں سنبھالا اور یہ کہ انہوں نے اعلیٰ اہلکاروں کی حکم عدولی کی ۔۔ حالانکہ سب ہی جانتے ہیں کہ سجیوبھٹ پر جن دنوں کام سے غیر حاضر رہنے کا الزام ہے ان دنوں وہ اس

’ ایس آئی ٹی‘ اور کمیشن کے روبرو حاضر ہورہے تھے جو گجرات 2002 کے فسادات کی چھان بین کررہا تھا ۔۔۔ یہ بھی سب کے سامنے ہے کہ ان پر متعدد فرضی معاملے درج کروا کے انہیں قانونی مشکلات میں الجھادیا گیا تھا ، ان کو اور ان کے خاندان کو مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں اور نوبت ان پر اور ان کے گھر والوں پر حملے تک پہنچ گئی تھی۔ برطرفی کی کارروائی تو من موہن سنگھ کی سرکار میں ہی شروع ہوگئی تھی۔ جب سشیل کمارشندے وزیرداخلہ تھے تب حکومت گجرات نے سنجیوبھٹ کی برطرفی کی درخواست دی تھی مگر یوپی اے کے دور میں کارروائی نہیں ہوئی ، جب مودی سرکار آئی تو برطرفی کی کارروائی تیز کردی گئی۔ کل مرکزی وزیرداخلہ یعنی راج ناتھ سنگھ نے پبلک سروس کمیشن سے رائے مانگی جس نے رائے دی ، ’ اگر برطرف کردیا جائے تو انصاف کا تقاضہ پورا ہوجائے گا ۔‘‘ اور اس وقت کے مرکزی وزیرداخلہ نے جنہیں صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے ایسی برطرفیوں کا ذمہ دار بنایا گیا تھا سنجیوبھٹ کی برطرفی کے کاغذ پر دستخط کرکے ’ انصاف کے تقاضہ کو پورا کردیا ۔‘

اس وقت سنجیوبھٹ کا کہنا تھا: ’ میں نے اپنے ضمیر کی آواز پر جو کچھ بھی کیا اس پر مجھے کوئی ملال نہیں بلکہ فخر ہے ۔‘ ان کے بیٹے شانتا نوبھٹ کو بھی اپنے باپ کے کارنامے پر فخر ہے ۔ فخر سارے ہی انصاف پسند اور جمہوریت پسند ہندوستانیوں کو ہے ۔ واضح رہے کہ گجرات کے ایک اور پولس افسر راہل شرما کو جنہوں نے مودی کی کابینہ کی وزیر مایاکوڈنانی کے خلاف ان کے ان ٹیلیفون ریکارڈوں کو بطور ثبوت پیش کیا تھا جس میں مسلمانوں کو قتل کرنے کی ہدایت تھی ، پہلے ہی اتنا ستایا گیا کہ وہ وقت سے پہلے ہی ملازمت سے ریٹائر ہوگئے ۔ ستیش شرما اورر جنیش سیٹھ ان دوپولس افسروں کو سزا کے طور پر شیلانگ پوسٹ کردیا گیا ، انہوں نے فرضی مڈبھیڑوں کی ’ایمانداری‘ سے تحقیقات کی تھیں۔ گجرات کے سابق ڈی جی پی ، آر بی سری کمار کو ان کے ریٹائرمنٹ تک تنگ کیا گیا ۔۔۔ ان پر ڈھیروں مقدمات درج کردیئے گئے تھے ۔۔۔ یہ سب فرض شناس افسر تھے ، ایسے افسر جنہوں نے حکومت کے تلوے چاٹنے سے انکار کردیا تھا ۔۔۔ سنجیوبھٹ کے ساتھ ان کی اہلیہ شویتابھٹ پہلے بھی قدم سے قدم ملائے تھیں ۔ اور اب بھی ملائے ہوئے ہیں ۔ دھمکیوں کے باوجود انہوں نے ان کا ایک پل کیلئے بھی ساتھ نہیں چھوڑا ۔۔۔ شویتا بھٹ نے کانگریس کے ٹکٹ پر اسمبلی الیکشن بھی لڑا مگر ہار گئیں ۔۔۔ حالانکہ ان کی ہار ایک طرح کی جیت ہی تھی کیونکہ ان کا مقابلہ کسی اور سے نہیں نریندر مودی سے تھا۔ مودی کے خلاف الیکشن لڑکر انہوں نے یہ ثابت کردیا تھا کہ ’ سرکاری جبر‘ بھی بھٹ خاندان کو جھکا نہیں سکتا ۔

سنجیوبھٹ کو حراستی موت کے جس تیس سالہ پرانے معاملے میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے اس سلسلے میں شویتا بھٹ نے جو تفصیلات جاری کی ہیں اگر وہ سچ ہیں تو اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ بھٹ کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ہے ۔ بات 1990 کی ہے جب جام نگر فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں تھا۔ فسادی جن کا تعلق وی ایچ پی سے تھا گرفتار کئے گئے تھے ، ان میں سے ایک پربھوداس ویشنانی کی موت ہوگی تھی۔ اسے حراستی موت کہا جاتا ہے جبکہ موت حراست میں نہیں ہوئی تھی۔ ویشانی اسپتال میں بھرتی تھا، وہاں سے اسے جب چھٹی ملی اور وہ باہر آیا تب اس کی موت ہوئی۔۔۔ شویتا بھٹ کا کہنا ہے کہ گرفتاریاں بھی سنجیوبھٹ نے نہیں کی تھیں بلکہ ان کے جام نگر پہنچنے سے پہلے ہی فسادیوں کی گرفتاریاں ہوچکی تھیں ۔۔۔ اب ایک ’ایماندا، فرض سناش‘ پولسافسر کو ’مجرم‘ بنادیا گیا ہے ، اسے عمر قید کی سزا سنادی گئی ہے ۔ وہ تو اپنی ’ جنگ‘ لڑرہا ہے ، پر یہ صرف اس کی نہیں سارے ہندوستان کی جنگ ہے کیونکہ یہ جنگ انصاف کے لئے ہے ۔۔۔ کیا اس جنگ میں لوگ بھٹ کا ساتھ دیں گے ؟

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.