میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

ذوالقرنین احمد چکھلی ضلع بلڈانہ
9096331543
مکرمی حضرات!
اس وقت ملک عزیز تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ہر طرف گنڈوں کا راج ہے۔ جمہوریت کا نظام صرف کاغذی کارروائیوں کے حد تک محدود رہ گیا ہے۔ فرقہ پرست عناصر ملک کے سسٹم اور بڑے عہدے پر فائز کر دیے گئے ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہوسکتا ہے! کیونکہ کسی بھی بڑے کارنامے کو انجام دینے کیلئے ایک مدت درکار ہوتی ہے۔ اور منظم طریقے پر لائحہ عمل تیار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جس کیلئے قوم کے فکر مند، قربانی دینے والے افراد کی ضرورت ہوتی ہیں۔ جن کے اندر اپنی قوم کیلئے کچھ کرنے کا جزبہ ہوتا ہے۔ جو مسلسل کاوشوں اور جد وجہد سے اپنے میشن کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ وہ وقتی حالات ،پریشانیوں، سے متاثر نہیں ہوتے۔ نہ ہی اپنی ہی قوم کے حوصلہ شکن باتوں سے انکی پیشانیوں پر بل پڑتے ہیں۔ وہ اپنے مقصد کی کامیابی کیلئے نسل در نسل اس فکر کو منتقل کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ آر ایس ایس ایسی ہی ایک منظم تنظیم ہے۔ جو آزادی سے قبل سے ملک میں سرگرم عمل ہیں۔ جو ہر محاذ پر کام کر رہی ہیں۔ آزادی سے قبل اس ملک میں جو نفرت کے بیج بوئے گئے تھے، آج وہ نفرت کے بیج تناور درخت بن چکے ہیں۔ جو اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب میں مذہب کے نام پر ہندو مسلم میں نفرتیں، دشمنیاں پھیلا رہے ہیں۔ آر ایس ایس کی سیاسی جماعت بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان فرقہ پرست عناصر کے حوصلے بلند ہوتے دیکھائی دے رہے۔ جو ملک کی سلامتی کیلئے زہر قاتل ثابت ہو سکتے ہیں۔ پہلے یہ ملک دو حصوں میں منقسم ہوچکا ہے۔ لیکن اب اس کے تقسیم ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جتنا یہ ملک دیگر مذاھب کے پیروکاروں کا ہے اتنا ہی یہ ملک ہندوستان کے مسلمانوں کا بھی ہے۔ آج ملک میں مسلمانوں کو خوف زدہ کیا کیا جارہا ہے کہ وہ ملک میں محفوظ نہیں ہے۔ اخلاق احمد سے لیکر ابتک سیکڑوں مسلمانوں کو فرقہ پرستوں نے ہجومی دہشت گردی کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ حال ہی میں تبریز انصاری کو فرقہ پرستوں نے کھمبے سے باندھ کر لاٹھیوں سے مار مار کر ادھ مرا کردیا اور اسکی موت واقع ہوگئی۔ مسلمانوں نے بیداری کا ثبوت پیش کرتے ہوئے پورے ملک میں ریلیاں نکالی، زبردست احتجاج بھی کیا اور حکومت سے ماب لنچنگ کے خلاف قانون سازی کیلئے مطالبات کیے۔
بڑے پیمانے پر اب بھی احتجاج جاری ہے۔ دیوبند، دہرادون، جلگاؤں جامود، ممبئی، گجرات، اورنگ آباد، مالیگاؤں، وغیرہ میں زبردست احتجاج درج کیا گیا۔ جس میں علماء اکرام و سماجی رہنماؤں نے ماب لنچنگ کے خلاف پر جوش تقاریر کی اور فرقہ پرست عناصر کے گلیاروں میں ہلچل پیدا کردی، جس سے سنگھی دہشت گرد بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کے مذمتی بیانات سے سی ہی یہ لوگ خوف زدہ دیکھائی دے رہے ہیں۔ دہرادون کے مفتی رئیس قاسمی صاحب جو جمعت علماء کے صدر ہے۔ کہ تہلکہ خیز تقریر فرقہ پرستوں کو برداشت نہیں ہوئی اور سنگھی لیڈران نے انکی خلاف کیس درج کر دیا۔ پولس بھی ایسے معاملات میں یکطرفہ کارروائی کرتی دیکھائی دیتی ہے۔ جب سنگھی دہشت گرد مسلمانوں کے خلاف کھلی فضاؤں میں زہر اگلتے ہے ۔تب انکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔ پولس کے اس نرم رویے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملک کے سسٹم پر سنگھی ذہنیت کا قبضہ ہو چکا ہے۔
ایسے حالات میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے علماء اکرام و رہنماؤں قایدین کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے رہے۔ ان کے اوپر اگر کوئی آنچ آتی ہے تو ہمیں خاموش تماشائی بنکر نہیں رہنا چائیے۔ کیونکہ اگر یہ چند انصاف پسند آوازوں کا بھی گلا گھونٹ دیا گیا تو مسلمانوں کو حوصلہ ہمت دینے والے افراد نہیں ملیں گے۔ آج ہم سمجھتے ہے کہ ہمیں کاغذی کاروائی سے انصاف مل جائے گا تو یہ ہماری خام خیالی ہے۔ انصاف حاصل کرنے کیلئے اس وقت تک جدو جہد جاری رکھنے کی ضرورت ہے جب تک انصاف نہیں مل جاتا ہے۔ کیونکہ انصاف پسند آوازوں کو سسٹم اور سنگھی دہشت گرد دبا دینا چاہتے ہیں۔ جو بھی حق کیلئے آواز اٹھاتا ہے ایک تو اسکا انکاؤنٹر کردیا جاتا ہے۔ یا اس پر جھوٹے الزامات عائد کرکے جیلوں میں قید کردیا جاتا ہے۔
اس لیے ہمارے علماء اکرام و سماجی رہنماؤں، قائدین کو ایک طویل مدتی لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جزباتی تقاریر وقت کی مناسبت سے ٹھیک ہے لیکن اس سے اگر حالات اور بھی بگڑ رہے ہو تو وہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہے۔ تبریز انصاری کے قتل کے بعد سے ملک میں تقریبا درجنوں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہم احتجاج میں لگے ہوئے ہیں۔اور ایک طرف خبریں موصول ہورہی ہے کہ فلاح بزرگ کو مارا گیا۔ کئی سے خبر آرہی ہے اسکول کے بچے پر چاقو سے حملہ کیا گیا۔ کئی پر جارہی ٹرین سے دھکیل دیا گیا، کسی کو اسپتال میں مارا گیا۔ یہ تمام تشدد رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ ہم احتجاج میں لگے ہوئے ہیں۔ کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے کہ اس سلسلے کو روکا جائے۔ اگر سسٹم ان فرقہ پرست عناصر پر کاروائی نہیں کرتا ہے۔ یا حکومت قانون سازی کرنے کی فکر نہیں کر رہی ہے۔ یا کرنا ہی نہیں چاہتی ہے تو ہم اپنے طور پر دفاعی عمل کو اختیار کریں۔ اقدامات کریں۔ مذہبی تشخص کو برقرار رکھے۔
خوف زدہ نہ ہو۔ اللہ پر کامل یقین رکھتے ہوئے اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار رہے۔ اور ہمارے جن غیور مسلم رہنماؤں پر حکومت قانونی طور پر ایف آئی آر درج کر رہی ہے۔ انہیں اریسٹ کرنے سے قبل ہی اقدامات کریں۔ سسٹم جو دہرا معیار اپنا رہا ہے اسکے خلاف پولس اسٹیشن کا گھراو کریں۔ حکومت وقت کو یہ محسوس کرائے کہ مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے۔
ایسے جرائم کو عالمی میڈیا کے سامنے لانے کی کوشش کریں۔ پوری دینا کہ سامنے یہ بات واضح کردیں کے ہندوستان کے مسلمانوں پر کس طرح سے ظلم کیا جارہا ہے۔ اور جس طرح آر ایس ایس نے آزادی سے قبل سے ملک میں منظم طریقے سے مختلف محاذوں کو قائم کیا، اسی طرح علماء اکرام و مسلم رہنما قائدین ایک طویل مدتی پروگرام کو طئے کریں اسکے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے عملی اقدامات شروع کریں۔ تب جاکر ہم سسٹم پر قابض ہونے میں کامیاب ہوگے۔ تب جاکر شریعت کو نافذ کرنے میں مدد حاصل ہونگی اور ایسے افراد مہیا ہونگے جنکی آج ہمیں کمی محسوس ہورہی ہے۔ ہمیں جماعتی اختلاف کو اپنے گھروں تک محدود رکھنا ہوگا۔ ایک دوسرے کی تضحیک سے بچنا ہونگا۔ کوئی اگر ملت کے حق میں بہتر خدمات انجام دینے کی کوشش یا ہمت کر رہا ہے تو ہمیں اسکی ہر ممکن مدد کرنی ہونگی ۔ ناکہ کسی ٹانگ کھینچنے کی۔ اس لیے اللہ تعالٰی پر توکل کرتے ہوئے، وسائل کو اختیار کریں اور ملک کے ہر ہر محاذ پر اپنے نوجوانوں کو پہچانے کیلئے تربیتی مراکز قائم کریں۔ اپنے بچوں کو قابل انسان بنائیے ناکہ کامیابیوں کی طرف بھاگنا شروع کردیں۔ ہمارے نوجوانوں میں قابلیت موجود ہے صرف انہیں ترتیب دینے کی ضرورت ہے انہیں اڑنے کیلئے ہمت و حوصلہ دینے کی ضرورت ہے۔ جیسے ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس جرأت مندی سے ہمارے رہنماؤں نے ماب لنچنگ کے خلاف تقاریر کی جس سے باطل طاقتوں پر لرزہ طاری ہوگیا ہے۔ ان افراد کی قدر کرنی کی ضرورت ہے انہیں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ لوٹیرے، چور ڈاکووں کو رہنما نہ بنائیں جو نالیوں کے الیکشن میں بھی پیسے بانٹ کر جیت حاصل کرتے ہیں۔ اور گندی نالیوں کے ٹنڈر کے پیسے تک کھا جاتے ہیں۔ وہ کبھی قوم کے ہمدرد نہیں ہوسکتے ہیں۔
دیپ جس کے محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
Comments are closed.