توبہ کے آنسو، وفا کی تصویریں

 

مفتی ابولبابہ شاہ منصور

 

وقت جیسے جیسے قریب لگ رہا ہے، مناظر واضح ہوتے جارہے ہیں۔ عالمی سطح پر معرکہ جیسے جیسے گرم ہورہا ہے، دونوں فریقوں کی شناخت آسان ہوتی جارہی ہے۔ اس وقت زمین کی پشت پر موجود انسان ’’دو میں سے ایک‘‘ کی واضح تفریق میں تقسیم ہورہے ہیں۔ دوغلاپن اب کھلے دجل کی شکل میں اور چھپا ایمان اب اعلانِ کلمۂ حق کی صورت میں سامنے آنا شروع ہوگیا ہے۔ روئے زمین کے باسی ’’یا ہمارے ساتھ یا ان کے ساتھ‘‘ والی کیفیت میں دو گرہوں میں بٹنے جارہے ہیں۔ ایک گروہ مسلمانوں کا ہے جو ملت ابراہیمی کے وارث اور تمام آسمانی شریعتوں کی روحانی صفات کا حامل ہونے کا شرف رکھنے ہیں۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کیا تمام صفات پر ایمان لانا، تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا احترام کرنا، تمام آسمانی کتب کی اصل حالت کو منجانب اللہ ماننا، تمام فرشتوں پر اللہ تعالیٰ کی خاص مخلوق کی حیثیت سے یقین رکھنا ضروری ہے۔ اس فریق کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی کسی ایک صفت کا انکار، یا خدانخواستہ کسی ایک سچے نبی یا آسمانی کتب کے کسی ایک اصلی ورقے کی توہین نا قابل معافی جرم ہے۔ اسی ادب و احترام کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے خیر اُمت بنادیا ہے۔

دوسری طرف کے پرچم تلے وہ لوگ جمع ہورہے ہیں جنہوں نے دوسری امتوں کے انبیائے کرام یا مقدس کتب کا تو کیا، سب سے پہلے اپنے نبی کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک جانور کو شریک کرکے) معاذاللہ( اپنے خالق کا کھلا مذاق اُڑایا جس نے انہیں اس زمانے کے تمام لوگوں پر فضیلت دی تھی۔ جب ان پر عذاب آتا تو یہ اللہ تعالیٰ کو اور عذاب لانے والے فرشتوں کو اپنا دُشمن کہہ کر گالی دیتے۔ پھر اپنے نبی کے آمنے سامنے اس کی تحقیر و توہین کی۔ کبھی کہا: ’’اپنے ربّ سے کہو ہمارے لیے کوئی زمینی خدا بھیجے۔‘‘ کبھی کہا: ’’اے نبی! تم اور تمہارا ربّ ہماری طرف سے لڑو، ہم تو یہاں مزے سے بیٹھے ہیں۔‘‘ کبھی کہا: ’’اپنے ربّ سے ذرا یہ تو مانگ کر ہمیں دو۔‘‘ کبھی کہا: ’’اپنے رب سے )نہ کہ ہمارے رب سے( ذرا یہ پوچھ کر تو بتائو۔‘‘ کبھی ایک فرمائش، کبھی دوسری خواہش۔ کبھی ایک اعتراض کبھی دوسرا اشکال۔ اپنی ہی قوم کے انبیاء )علیہم الصلاۃ والسلام( کو اتنا ستایا کہ وہ ان کے لیے بددعا کرنے پر مجبور ہوگئے۔

انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کا ایسا مذاق بنایا کہ اس کے بدلے میں ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے بندر و خنزیر بنادیا۔ نیک لوگوں سے ایسا ٹھٹھا کیا کہ ناحق قتل پر سزائیں دے کر ملعون و مغضوب کردیے گئے۔ کوہِ طور پر ان کے پیارے نبی اللہ تعالیٰ سے مناجات کررہے ہیں اور یہ الٹے سیدھے مطالبوں کی پاداش میں آسمانی بجلی سے ہلاک کیے جارہے ہیں۔ مقدس نبی اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے کتاب لینے گئے ہیں اور یہ پیچھے موجود نگران نبی کے ہوتے ہوئے بت پرستی اور جادوگری کررہے ہیں۔ ان کو سود، جوئے اور شراب و زنا سے منع کیا جارہا ہے اور یہ بیت المقدس کے اندر قماربازی اور عشق بازی کررہے ہیں۔ اللہ کے گھر کی اس بدترین بے ادبی پر ان کو دو دو مرتبہ غلام اور لونڈی بناکر فلسطین کی مبارک سرزمین سے جلاوطن کیا گیا، لیکن یہ پھر بھی باز آکر نہ رہے۔

آج بھی یہ پوری دنیا میں اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار یعنی دہریت و الحاد پھیلانے کے ساتھ انبیائے کرام علیہم السلام کی توہین کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ بینک اور انشورنس کی شکل میں پوری دنیا کو سود اور جوئے میں انہوں نے ہی مبتلا کیا ہے۔ جدید ایجادات کو استعمال کرکے پوری دنیا کو فحاشی و عریانی میں انہوں نے ہی لگایا ہے۔

کسی ایک مسلمان نے کبھی ایک مرتبہ بھی ان کے کسی مقدس پیغمبر کی توہین نہیں کی، ان کی کتاب کی حق باتوں کا انکار نہیں کیا، ان کے نبی کے قابل احترام حواریوں کے لیے کبھی بے ادبی پر مشتمل ایک لفظ نہیں کہا، لیکن یہ ہیں کہ مہذب و متمدن ہونے کا اکیلا دعویدار ہونے کے ساتھ بغیر کسی کے ورغلائے بدتہذیبی کی اس حد پر اُتر آئے ہیں جو جنگل کے باسیوں کے ہاں بھی دیکھنے میں نہیں آتی۔

جس طرح دوسرے گناہوں میں ایک حد سے آگے بڑھ جائے تو پھر ایسی لت لگتی ہے کہ رسوا کن انجام سے پہلے واپس نہیں آنے دیتی۔ اسی طرح اللہ کے مقدس و محبوب بندوں کی بے ادبی بھی ایسا گناہ ہے کہ اس کی لت یا لعنت لگ جائے تو دنیاو آخرت کے رُسوا کن عذاب آنے تک ایسے شخص کو ہوش ہی نہیں آتا کہ میں خود ناپاک کرتوتوں سے پلید ہونے کے باوجود مقدس ہستیوں کی بے ادبی کرکے اپنا تھوک اپنے منہ پر کیوں تھکارہا ہوں۔ آپ اخلاقیات کا فرق ملاحظہ کیجیے: ہمارے ہاں جو جتنا گنہگار ہو، وہ مقدس ہستیوں کے حوالے سے اتنا ہی محتاط ہوتا ہے کہ اپنے پلّے تو پہلے سے ہی کچھ نہیں، کیوں کسی اللہ والے کی توہین کرکے ایسی کالک منہ پر ملوں کہ چھٹائے نہ چھٹے۔ مغرب میںہو یہ رہا ہے کہ ایک شخص کو جس آنٹی نے جنا اس کو بھی پتا نہیں ہوتا کہ میرے اس پُوت کا پِتَا کون ہے تو نومولود ’’کپوُت‘‘ کو کیا معلوم ہوگا کہ میں کس کا ’’سپوُت‘‘ ہوں؟ پیدا ہونے کے بعد خوش بخت ہوش بعد میں پاتا ہے، خنزیروں کی قطار بنتے پہلے دیکھتا ہے۔ کبھی گرجا کا منہ نہیں دیکھا، کبھی منہ سے شراب کے بھبکے ختم نہیں ہوئے، حرام جنابت سے طہارت کی عمر بھر نوبت نہیں آئی، لیکن چھوٹتے ہی پہلا کام یہ ہے کہ پہلے اپنے انبیائے کرام کی توہین کرو، پھر ان انبیاء کے سرداروں کے سردار کی توہین کرکے اپنے حسب و نسبت کی خباثت اصلیہ کا ثبوت دو۔

بات سیدھی سی ہے جسے اپنے باپ کا پتا نہیں، وہ کسی دوسرے کے والد کا کیا احترام کرے گا؟ جو اپنے روحانی باپ )نبی پوری امت کا روحانی باپ ہوتا ہے اور اس کی اہلیہ اُمت کی روحانی ماں ہوتی ہے( کا ادب نہ کرے، وہ کسی دوسری امت کے روحانی والد کی کیا لاج رکھے گا؟ جو اپنے بڑوں پر عذاب کی وجوہات اپنی مذہبی کتاب میں دیکھ کر بھی باز نہ آئے تو اسے ذلت آمیز شکست سے کون بچاسکتا ہے؟ اخلاقیات کا پرچار ہونے کے باوجود جس طرح کی مسلّمہ عالمی اخلاقیات کو پامال کیا جارہا ہے، یہ عالمی آفاقی عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہ خود اپنے پائوں پر نہیں، گردن پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ یہ مسلمانوں کو نہیں، مسلمانوں کے رب کو، جو اس کائنات کا رب ہے، کو اشتعال دلانے کے مترادف ہے۔

دنیا کو سمجھ کیوں نہیں آرہا کہ مسلمانوں کا جو تعلق اپنے نبی سے ہے، اس کے لیے محبت و عشق جیسے الفاظ کم پڑجاتے ہیں۔ یہ الفاظ ہماری قلبی کیفیت کی صحیح تعبیر نہیں کرسکتے، تو جو ہمارا رب ہے وہ قادر مطلق، وہ مالک الملک، وہ ذوالجلال، وہ قہار و جبار اپنے محبوب )صلی اللہ علیہ وسلم( سے کیسا تعلق رکھتا ہوگا؟ دنیا والے سمجھیں نہ سمجھیں مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اپنے رب کو ساتھ لینے کا یہ بہترین موقع ہے۔ توبہ کے دو آنسو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اور وفا کے دو آنسو جناب محبوب دو جہاں )صلی اللہ علیہ وسلم( کی بارگاہ میں نذر گذار کر کے ہم سرخ رو ہوسکتے ہیں۔

Comments are closed.