مالدار کارپوریشن کے بدحال ممبئیکر……!

تجزیہ خبر: نازش ہما قاسمی
ایسا نہیں ہے کہ بارش کی تباہ کاریوں سے ممبئی شہر کوئی پہلی بار دوچار ہوا ہے۔ ہمیشہ ہر سال یہاں برسات کے موسم میں ممبئیکر کو پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، جانیں گنوانی پڑتی ہیں،عزیز واقارب کو کھونا پڑتا ہے۔ گھروں میں پانی گھستا ہے، سڑکیں دھنستی ہیں ، دیواریں منہدم ہوکر موت کاپیغام لاتی ہیں، بلڈنگیں زمیں بوس ہوکر انسانوں کو لقمہ بنادیتی ہیں۔ ہرسال موت پر گفتگو ہوتی ہے، چرچے ہوتے ہیں، ممبئی واسیوں کی سہولیات کے لیے باتیں کی جاتی ہیں،بارش کی تباہ کاریوں سے بچانے کی تدبیریں کی جاتی ہیں لیکن سبھی تدبیریں ناکام ہوکر ممبئیکر کے لیے موت کا پیغام لاتی ہیں۔ اس بار بھی تقریباً پانچ چھ دنوں کی طوفانی بارش میں پچاس سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ ٹی وی پر ڈیبیٹ ہوئی، بحثیں ہوئیں، اسمبلی میں آوازیں گونجی، ایوانوں میں سوگ منایاگیا ، لیڈران کو کوسا گیا، کارپوریشن کے کاموں پر انگلی اْٹھائی گئی۔ لیکن کیا اس طرح کرنے سے ممبئی والوں کی پریشانیاں ختم ہوجائیں گی؟ کیا جو حادثات کی نذر ہوئے ہیں وہ زندہ ہوجائیں گے، جو مفلوج ہوئے ہیں انہیں اپنی ٹانگیں، اپنے ہاتھ میسر ہوجائیں گے۔ دنیا کی مالدار ترین کارپوریشن اور ملک کی اقتصادی راجدھانی میں بسنے والے شہریوں کے ساتھ ایسا رویہ۔ کیا یہاں پیسوں کی کمی ہے، کیا عوام برابر ٹیکس ادا نہیں کرتے پھر ہر سال یہاں پریشانی کیوں؟ کیا بی ایم سی کی غلطی نہیں ہے؟ کیا ریاستی سرکار کی غلطی نہیں ہے؟ جی غلطی میں سب برابر کے شریک ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ممبئی ملک کی اقتصادی راجدھانی ہے۔۔جاپان ، ٹوکیو، لندن، واشنگٹن اوردیگر ترقی یافتہ شہروں کے صرف دورے لیڈران گھومنے اور موج ومستی کے لیے کرتے ہیں وہاں کی ترقی اور جدت کو یہاں نافذ نہیں کرناچاہتے۔ سرکاری دورے صرف ان کی ذاتی خوشی اور سہولیات کے لیے ہوتی ہیں وہ وہاں عوام کے کو دی گئی خوشیاں اور سہولیات یہاں نہیں دینا چاہتے۔
ظاہر سی بات ہے اگر لیڈران، کارپوریٹر حضرات یہاں گٹر صاف کرادیں گے۔ بارش سے قبل گلی ، کوچوں ، اور علاقہ کے نالوں کی صفائی، ریلوے ٹریک کے قریب کے نالیوں کی درستگی، سڑکوں اور گلیوں سے پانی کی نکاسی وغیرہ کا انتظام تو، خستہ حال دیوار اور عمارتوں کے مکین کو بہترین جگہ فراہم کردیں توانہیں ووٹ کون دے گا؟ کون ان سے فریاد کرے گا۔کون گٹروں کے بھرجانے کی شکایت کرے گی، کون ٹرینوں کے لیٹ ہونے پر توجہ دلائے گا، کون گرتی بلڈنوں کے لیے اور دھنستی سڑکوں کے لیے پارٹی دفتر کے چکر لگائے گا۔ اس لیے وہ ان معاملات کو ٹالے رہتے ہیں ، نہ صفائی ہوتی ہے، نہ نکاسی کا انتظام ہوتا ہے، بارش آتی ہے اور اپنا جوہر دکھا کر چلی جاتی ہے ، گٹروں کے ابلنے، دیواروں کے گڑ پڑنے کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے۔ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، فرق صرف عوام کو ہوتا ہے، چیف منسٹر، ریاستی وزراء ، میونسپل کارپوریٹرودیگر سیاسی لیڈران سبھی اپنے کروڑ دو کروڑ ہزار کروڑ کے فلیٹوں میں آرام سے بیٹھ کر بارش کے ایام میں بلند وبالا عمارتوں میں لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں اور نیچے سڑکوں پر، جھگی جھونپڑیوں میں ، بی آئی ٹی چالوں میں عوام پریشان حال، گھروں کے پانی پونچھتے ہوئے، سڑکوں سے گزرتے ہوئے، ڈوبتے، تیرتے، خستہ وبوسیدہ دیواروں کی زد میں آکر زندگی کی بازی ہارتے نظر آتے ہیں۔ اگر کارپوریشن، ریاستی حکومت چاہے تو اس طرح کے واقعات پر روک لگائی جاسکتی ہے، شہریوں کو سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں۔ انہیں ندی میں تبدیل سڑکوں پر گزرنے کی نوبت نہیں آئے، اس کے لیے بہترین اقدامات کیے جاسکتے ہیں، عوام کو’’ لائف لائن ‘‘لوکل ٹرین میں دو دو دن پھنسے رہنے کی زحمت نہ ہو ، اس کے لیے کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ لیکن لیڈران چاہتے ہی نہیں وہ اسی طرح لڑکھڑاتی ممبئی ڈوبتے تیرتے ممبئیکر سے اپنا فائدہ حاصل کر تے رہنا چاہتے ہیں۔ کون سی انہیں پریشانی اْٹھانی پڑرہی ہے عوام کو پریشانی ہورہی ہے تو اس میں ان کا کیا اگر مرجائیں گے تو انہیں ان کے ہی ٹیکس کے پیسوں سے معاوضہ دے جائے گا اور وہ خوش ہوکر نیتا جی کی ’’جے ہو‘‘ کا نعرہ لگائیں گے۔
Comments are closed.