ایک قوم…… دوبیان

مفتی اطھر شمسی

القرآن اکیڈمی کیرانہ

 

مؤرخہ 26 جون 2019 کو محترم انتظار علی ایڈوکیٹ صاحب سے ایک ملاقات ہوئی. دوران ملاقات انھوں نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا. انھوں نے بتایا کہ ایک بار کاندھلہ میں ایک سیاسی جلسہ تھا. اس جلسہ میں اس وقت کے ممبر پارلیمنٹ امیر عالم خان نے ایک تقریر کی. اس تقریر میں انھوں نے خود اپنے بارے میں بتایا کہ وہ خود بہت زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں. اعلی تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ قوم کی وہ خدمت نہیں کر پاتے جو مطلوب ہے. انھوں نے دوران تقریر کہا کہ اعلی تعلیم کے فقدان کے باعث انھیں بہت سے ملکی امور کو سمجھنے، ان پر ایک متوازن رائے قائم کرنے اور یہاں تک بعض اوقات پارلیمنٹ میں جاری بہت سے مباحثوں کو سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے اور وہ اس میں اپنا مطلوبہ کنٹری بیوشن نہیں دے پاتے. یہ واقعہ سنا کر انھوں نے کہا کہ جب ایک ممبر پارلیمنٹ اعلی تعلیم کے فقدان میں اتنا زیادہ ادھورا ہے تو ایک عام آدمی اعلی تعلیم کے فقدان میں کتنے زیادہ مسائل کا شکار ہوگا. اس بات کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے. لہٰذا امیر عالم صاحب نے اپیل کی کہ قوم کا ہر ممبر اعلی تعلیم یافتہ بنے. انتظار صاحب نے بتایا کہ اس وقت کے ممبر پارلیمنٹ کی اس گفتگو کو موجود مسلم عوام نے لائق اعتناء سمجھا اور نہ ہی اس پر کوئی تالیاں بجائیں گئیں.

 

اب اسی سیاسی جلسہ کا دوسرا واقعہ بھی سن لیجیے. محترم انتظار صاحب کے بیان کے مطابق امیر عالم خان صاحب کے بعد اگلی تقریر ایک مشہور مقامی لیڈر کی ہوئی. ان لیڈر صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ کہ محکمہ بجلی کے افسران آپ لوگوں کے گھروں پر چھاپے مار رہے ہیں اور عوام کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں. انھوں نے کہا کہ بجلی عوام کی، حکومت عوام کی پھر یہ چھاپہ مارنے والے ہوتے کون ہیں. ان لیڈر صاحب نے کہا کہ آج کے بعد کوئی بجلی افسر آپ کے یہاں چیکنگ کرنے کے لئے آیے تو اسے پکڑ کر مارو اور پھر میرے پاس لے آؤ. لیڈر موصوف نے اپنی اس پرجوش تقریر میں عوام سے کہا کہ پولس کے پر بھی ہم نے کتر دیے ہیں لہذا پولس کا خوف کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے. انتظار علی ایڈوکیٹ کا بیان ہے کہ لیڈر موصوف کی اس جوشیلی تقریر کو سن کر مسلم عوام ایک دم جوش آ گیے. انھوں نے لیڈر صاحب کی شان میں اس قدر پرجوش نعرے لگائے کہ اسٹیج بھی ارتعاش میں آگیا.

 

یہ دو بیان در اصل بیان محض نہیں بلکہ قوم کی اصل تصویر ہیں. اسی تصویر میں قوم کی اصل بیماری بھی ہے اور قوم کی بیماری کا علاج بھی. اس قوم کا اصل المیہ یہ ہے کہ اگر آپ قوم کی تعلیم اور شعور کی بات کریں تو ایک عدد آدمی آپ کو سننے والا نہیں ہوتا لیکن اگر آپ قوم کے مزاج کے مطابق انھیں جوش کی نشیلی شراب پلائیں تو پوری قوم آپ کی مرید ہو جاتی ہے. آپ کی شان میں نعرے لگتے ہیں، قصیدے لکھے جاتے ہیں، آپ کے فوٹو اخبارات کے صفحہ اول پر چھپتے ہیں، آپ کو بڑی بڑی کانفرنسوں میں بلایا جاتا ہے. اور بالآخر "ملت کی نمائندگی” کے بدلہ میں آپ کو بڑے بڑے ایوارڈ دیے جاتے ہیں. یہ اور بات ہے کہ اس "نمائندگی ملت” کے نتیجہ میں قوم کی تباہ حالی میں مزید افسوسناک اضافہ ہو جاتا ہے. جب تک قوم کا یہ مزاج نہیں بدلا جاتا، قوم کے مسائل جوں کے توں پڑے رہیں گے. آج قوم کو ضرورت فائربرانڈ مقررین کی نہیں بلکہ ٹھنڈا مزاج رکھنے والے ان رہنماؤں کی ہے جو مسائل پر نہایت سنجیدگی سے غور کریں. جو ہر مسئلے کو فرقہ وارانہ نگاہوں سے دیکھنے کے عادی نہ ہوں، جو سائنٹفک انداز میں مسائل کی گہری فہم رکھتے ہوں . جو ملک کی دوسری کمیونٹی سے اختلاف کے آداب جانتے ہوں ، جو صرف مسلمانوں کی وکالت نہیں بلکہ انسانیت کی نمائندگی کرنا جانتے ہوں، جو برادران وطن کی انا نہیں ان کے ضمیر کو جگا نے کے فن سے واقف ہوں . جب تک ہمارے پاس اس نوعیت کے رہنما نہ ہوں قوم کا کچھ بھلا نہیں ہو سکتا.

Comments are closed.